ہاتھ پر ہاتھ دهرے سوچ میں بیٹها کیا ہے

محمد عثمان اعظمی

ہاتھ پر ہاتھ دهرے سوچ میں بیٹها کیا ہے
ہو نہ تدبیر تو تقدیر کا شکوہ کیا ہے

اس کی باتوں پہ بهلا کیسے بهروسہ کرلوں
جب یہ معلوم نہیں سامنے والا کیا ہے

جس کی بنیاد میں تخریب ہو گارا پانی
اس عمارت کے ٹهہرنے کا بهروسہ کیا ہے

رات چپکے سے مری پهول سی گڑیا نے کہا
چاند میں چرخہ گهماتی ہوئی بڑهیا کیا ہے

ہم سے ماحول ہے ماحول سے ہم لوگ نہیں
یہ حقیقت ہے تو ماحول کا شکوہ کیا ہے

اک دیا بجهتے ہی عثمان یہ احساس ہوا
سر پہ اولاد کے ماں باپ کا سایہ کیا ہے

تبصرے بند ہیں۔