محمد عثمان اعظمی
ہاتھ پر ہاتھ دهرے سوچ میں بیٹها کیا ہے
ہو نہ تدبیر تو تقدیر کا شکوہ کیا ہے
…
اس کی باتوں پہ بهلا کیسے بهروسہ کرلوں
جب یہ معلوم نہیں سامنے والا کیا ہے
…
جس کی بنیاد میں تخریب ہو گارا پانی
اس عمارت کے ٹهہرنے کا بهروسہ کیا ہے
…
رات چپکے سے مری پهول سی گڑیا نے کہا
چاند میں چرخہ گهماتی ہوئی بڑهیا کیا ہے
…
ہم سے ماحول ہے ماحول سے ہم لوگ نہیں
یہ حقیقت ہے تو ماحول کا شکوہ کیا ہے
…
اک دیا بجهتے ہی عثمان یہ احساس ہوا
سر پہ اولاد کے ماں باپ کا سایہ کیا ہے
تبصرے بند ہیں۔