ہجومی دہشت گردی کے ساتھ کھڑی ہے بی جے پی!

ڈاکٹر اسلم جاوید

ابھی پانچ یوم پہلے کی ہی بات ہے جب ملک گیر پیمانے پر’’ گئوہتیا ‘‘، ’’گئو تسکری ‘‘ اورگائے کاگوشت اپنے ریفریجریٹریا ٹفن باکس میں رکھنے اوربچہ چوری جیسے بے بنیاد اور جھوٹے الزام میں ہجومی دہشت گردوں کے ہاتھوں سینکڑوں کی تعداد میں قتل کئے جارہے بے گناہ اور نہتے مسلمانوں اور دلتوں کے منظم قتل پر عدالت عظمیٰ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ 17جولائی 2018کواپنے ہدایت نامہ میں عدالت عظمیٰ نے حکومت ہند کو پھٹکار لگاتے ہوئے اس بہیمانہ قتل عام کیخلاف سخت سے سخت قانوں بنانے کا حکم دیاہے اور ریاستی حکومتوں کی بھی سرزنش کی ہے اور چار ہفتوں کے اندر جواب طلب کیاہے۔ عدالت عظمیٰ نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ملک میں کسی کوبھی آئین کا مذاق اڑانے اور قانون کو ٹھینگا دکھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ملک کے سیکولر اور آئین کی بالادستی میں یقین رکھنے والے ہندوستانیوں کا خیال تھا کہ شاید اب آئین کو اپنے گھر کی باندی سمجھ کر اس کی آبرو سے کھیلنے والے یرقانی دہشت گردوں، بی جے پی کے حامی گئورکشا سمیتی اور ہندو یووا واہنی کے نام نہاد کارکنان، سنگھ اور بھاجپائی حکومت کے آشیر وادسے ننگا ناچنے والے ہندو بلوائیوں کی حیاجاگ جائے اور اپنی چوطرفہ جگ ہنسائی کا احساس انہیں کسی بے گناہ کی جان لینے سے باز رکھ سکے۔

آر ایس ایس پر تنقیدی نظر رکھنے والے مبصرین ابھی عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر حکومت ہند کے نوٹس لینے کا انتظار ہی کررہے تھے اور خیال تھا کہ پارلیامنٹ کے رواں مانسون اجلاس میں جس کا آغاز19جولائی 2018سے ہوا ہے، اس سیشن میں سپریم کورٹ کے ہدایت نامہ کا احترام کرتے ہوئے ماب لنچنگ کیخلاف کچھ پہل ضرور کی جائے گی۔ اس لئے کہ بی جے پی حامیوں کے تشدد اور آئین کو ٹھینگا دکھانے کی خبریں صرف ملک تک ہی محدود نہیں رہ گئی ہیں، بلکہ اب یہ بات سعودی عرب اور ایران جیسے بے غیرت اور نام نہاد مسلم ملکوں کے حکمرانوں کو چھوڑ کر ساری دنیا کے کانوں تک پہنچ چکی ہے کہ ہندوستان کی بھاجپائی حکومت ملک کے قانون اور عدلیہ کو خود سے بالا تر نہیں سمجھتی اوران کے سامنے آئین کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ہندوستان میں دلت اورا قلیتیں محفوظ نہیں ہیں، ملک کا سیکولر آئین بی جے پی حکومت کے سامنے بونا ثابت ہورہا ہے۔ یہ معاملہ ساری دنیاکے میڈیا کی بحث کا موضوع بھی بناہواہے۔

چناں چہ مارچ 2018میں ہی امریکہ نے مذہبی آزادی پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں سمیت کوئی بھی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں ہے، جب کہ ہندوستان کو ان ملکوں کی صف میں شامل کردیا گیا ہے جن کی امریکہ اور اقوام متحدہ کے ذریعہ نگرانی کی جائے گی۔ امریکہ کے مذہبی آزادی کے نگراں ادارے کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم نے مودی حکومت کا بھانڈا پھوڑدیاہے، امریکہ کی مذہبی آزادی پر سالانہ رپورٹ واضح لفظوں میں یہ بتارہی ہے کہ ہندوستان کا سیکولر چہرہ بی جے پی اور اس کے حامی ہجومی دہشت گردوں نے مسخ کردیا ہے اوراس رپورٹ سے یہ بات بھی صاف ہوگئی ہے کہ بی جے پی حامی ہجومی دہشت گردماب لنچنگ نام کی جو غنڈہ کردی کررہے ہیں اس سے دنیا بے خبر نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کی بے حسی انہیں اس رپورٹ کی طرف متوجہ کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ اقلیتوں کے خلاف انجام دی جارہی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ایک ایک رپورٹ پرنام نہاد مسلم پسند اسلامی ممالک کے ماسوا ساری دنیا کی نظر ہے۔

امریکہ سے جاری رپورٹ بتاتی ہے کہ نریندرمودی کے ہندوستان میں ہندوتوا اور زیادہ مضبوط اور خطرناک ہوگئی ہے۔ امریکہ کے مذہبی آزادی کے نگراں ادارے کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم کی مذہبی آزادی پر جاری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں نہ صرف مسلمان بلکہ نچلی ذات کے ہندو دلت بھی محفوظ نہیں ہیں۔ رپورٹ میں مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہنس راج اہیر کا پارلیمنٹ میں دیاگیا بیان بھی شامل کیا گیا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 2017 میں 822 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں 111افراد ہلاک اور 2384 زخمی ہوئے۔ شدت پسند ہندو تنظیموں نے گزشتہ برس 10 مسلمانوں کا گائے ذبح کرنے کے بے بنیاد الزام میں قتل کردیاتھا۔ مذہبی رواداری میں موجودہ حکومت کے دور میں مزید کمی ہوئی ہے۔ آبادی میں اضافے کے باوجود قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوا ہے، ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب19فیصد ہے، لیکن2017 میں ریاستی اسمبلی میں ان کی نمائندگی میں 6 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ان ساری خبروں، رپوٹس اور عدالت عظمیٰ کی پھٹکار سے یہ امید روشن ہوگئی تھی کہ اب حکومت ضرورجاگے گی اور ہجومی دہشت گردی کیخلاف زبان کھولے گی۔

بہرحال انتظار ہی انتظارمیں وہ گھڑی بھی آ گئی جب پارلیمنٹ کا مانسون سیشن شروع ہوا اور ٹی ڈی پی و کانگریس کی تحریک عدم اعتماد منظورکرلی گئی۔ جمعہ کے روز کانگریس کے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ووٹنگ سے قبل اپنی تقریر میں دیگر ایشوز کے ساتھ ماب لنچنگ اور اقلیتوں کیخلاف بی جے پی حامی شرپسندوں کے ذریعہ کی جارہی قاتلانہ واردا توں کی طرف بھی توجہ دلائی۔ بعد ازں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں ماب لنچنگ کے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تمام ریاستی حکومتوں کو اس سمت مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کردی۔ مگراس کے کچھ گھنٹوں بعد ہی راجستھان کے الور میں ایک بار پھر بی جے پی حامیوں کی ہجومی دہشت گردی کا نیا واقعہ سامنے آگیا۔ حالیہ واقعہ بی جے پی کے زیر حکومت ریاست راجستھان کے ضلع الورکے رام گڑھ پولیس اسٹیشن علاقے میں پیش آیا ہے، جس میں ہجومی دہشت گردوں نے اکبر خان نام کے ایک ’’گئو پالک ‘‘ شخص کو ’’گئو تسکر ‘‘کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر مارڈالا ہے۔ خیال رہے کہ راجستھان کے الور ضلع کا یہ وہی علاقہ ہے جہاں ایک سال قبل اپریل 2017 میں 55 سال کے پہلو خان کاگئورکشا سمیتی کے شدت پسندوں کی بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا۔ پہلو خان پر اس وقت حملہ کیا گیا تھا جب وہ راجستھان میں ایک گائے خریدنے کے بعد اپنے گاؤں ہریا نہ لوٹ رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پہلو خان کی طرح اکبر خان بھی ایک ’’ گئو پالک ‘‘ تھے اور ڈیری کا کاروبار کرتے تھے۔

یہ دہشت گردانہ واردات وزیر داخلہ کے ذریعہ پارلیمنٹ میں ریاستوں کو دی گئی ہدایا ت کے چند گھنٹوں بعد ہی خو د بی جے پی کے زیر انتظام ریاست راجستھان میں انجام دی گئی ہے۔ حالاں کہ اقلیتوں کیخلاف قتل کی مہم اور ہجومی دہشت گردی کیلئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ریاستی سرکاروں کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ اب راج ناتھ سنگھ، مرکزی حکومت، وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ اس کا کیا جواب دیں گے کہ اقلیتوں کے قتل کی منظم وارداتیں اور ہجومی دہشت گردی کے واقعات خود ان ریاستوں میں زیادہ ہورہے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ خود مر کز ی حکومت کی ناک کے نیچے جس کے ہاتھ میں دہلی پولیس کی زمام کار ہے، ہجومی دہشت گردی کا ایک دوسرا واقعہ اسی 19جولائی2018کی نصف شب کو قومی دارالحکومت کے ترلوک پوری بلاک نمبر20میں شعیب نامی 18سالہ مسلم نوجوان کے ساتھ بھی انجام دیا جا چکا ہے۔ شعیب ایک غریب گھر کاچشم وچراغ ہے اور گزر بسر کیلئے پھلوں کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اس واقعہ پر بھی مقامی بی جے پی کے کارکنان اور عہدیداران سیاست کررہے ہیں اور ہجومی دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ مرکزی بی جے پی کے سبھی منصب برداروں کو سانپ سونگھا ہواہے اورمرکزی وریاستی حکومت کے ایوانوں میں بھی مجرمانہ خاموشی پسری ہوئی ہے۔ ان دہشت گردانہ وارداتوں میں ملوث بی جے پی حامی شرپسندوں کی پشت پناہی کو دیکھنے والا اندھا شخص بھی اسد الدین اویسی کے اس بیان کو جائز کہے گا۔ مسٹر اویسی نے کہا ہے کہ’’ آئین کی دفعات کی شق2کے تحت گایوں کو تو جینے کا حق حاصل ہے، مگر مودی سرکار میں مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ مودی سرکا ر کے ’’چار سال، لنچنگ راج‘‘۔ بی جے پی کو اب سوچنا چاہئے، ورنہ ایک بڑی طاقت موجود ہے جو مظلوں کا بدلہ لینے کا جب فیصلہ کرلیتی ہے تو بڑ ی بڑی طاقتیں نیست نابود ہوجاتی ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔