بے زبانی ہے یا زباں حائل

افتخار راغبؔ

بے زبانی ہے یا زباں حائل

کچھ تو کہہ کیا ہے درمیاں حائل

 روح سے روح کا ملن مطلوب

جسم ہر دم ہے میری جاں حائل

داستاں ختم وقت سے پہلے

ہو گئی کوئی داستاں حائل

ماند پڑنے نہ پائے تابِ یقیں

ہے بہت وہم کا دھواں حائل

عاشقو! آنکھ موند لو فوراً

عشق میں جب ہوں پتلیاں حائل

جانے کب لمس کی ملے حدّت

جانے کب تک ہوں دوریاں حائل

ہے معاون کبھی ‘نہیں’ بھی تری

اور کبھی ہو رہی ہے ‘ہاں’ حائل

حوصلہ ہے تو کوئی خوف نہیں

بادِ صرصر نہ کہکشاں حائل

میں تو راغبؔ تھا مجھ کو کیا معلوم

وہم تھا یا کوئی گماں حائل

تبصرے بند ہیں۔