بے زبانی ہے یا زباں حائل
افتخار راغبؔ
بے زبانی ہے یا زباں حائل
کچھ تو کہہ کیا ہے درمیاں حائل
…
روح سے روح کا ملن مطلوب
جسم ہر دم ہے میری جاں حائل
…
داستاں ختم وقت سے پہلے
ہو گئی کوئی داستاں حائل
…
ماند پڑنے نہ پائے تابِ یقیں
ہے بہت وہم کا دھواں حائل
…
عاشقو! آنکھ موند لو فوراً
عشق میں جب ہوں پتلیاں حائل
…
جانے کب لمس کی ملے حدّت
جانے کب تک ہوں دوریاں حائل
…
ہے معاون کبھی ‘نہیں’ بھی تری
اور کبھی ہو رہی ہے ‘ہاں’ حائل
…
حوصلہ ہے تو کوئی خوف نہیں
بادِ صرصر نہ کہکشاں حائل
…
میں تو راغبؔ تھا مجھ کو کیا معلوم
وہم تھا یا کوئی گماں حائل
تبصرے بند ہیں۔