ہدیہ کی حقیقت اور پدماوتی کا فسانہ

ڈاکٹر سلیم خان

فسانے میں  آفاقی حقیقت کو ملادیا جائے تو وہ حقیقت لگنے لگتا ہے مگر حقیقت میں فسانہ  چاہے جتنا ملائیں وہ فسانہ نہیں بنتا۔ امتیاز علی تاج اور ہدیہ کے والد اشوکن میں یہی فرق ہے کہ ایک نے انارکلی نامی ڈرامہ میں لازوال محبت کا سچ ایسے شامل کیا   کہ لوگ حقیقی نورجہاں کو بھول گئے مگر انارکلی کو بھلا نہ سکے۔ اس کے برعکس اشوکن 11 ماہ تک ایمان کی سچائی میں لوجہاد کا جھوٹ ملاتے رہے  اور تاج کے  شہنشاہ اکبر کی طرح ناکام و نامراد ہوگئے۔ اس میں شک نہیں کہ ہدیہ کے والد سمراٹ اشوک نہیں ہیں کہ ان کا موازنہ شہنشاہ اکبر سے کیا جائے لیکن  ہر بادشاہ ایک انسان ہی ہوتا ہے۔ اس کو حاصل اقتدار و وسائل اسے عوام پر ممیز و  ممتاز کردیتے ہیں ۔

اشوکن کے پاس اقتدار نہیں تھا لیکن اقتدارِ وقت اس کا آشیرواد ضرور تھا۔ انتظامیہ اس کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ اشوکن کے آگے عدلیہ اس طرح سربسجود تھا کہ  اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے اس نے انصاف کو سولی چڑھانے کا من بنا لیا تھا، مگرجس طرح مغل اعظم میں ایک کمزور اور بے ضرر انارکلی اپنی محبت کے بل بوتے پر  شہنشاہ اکبر کو زیر کردیتی ہے اسی طرح ہدیہ نے اپنی استقامت سے حکومت و عدالت، سماج اور انتظامیہ سب  کوشکست فاش سے دوچار کردیا۔ ہدیہ اور اس کی جرأت ایمانی اور اس کے شوہر شافعین کا صبرو استقامت  تاریخ کے صفحات میں طلائی حروف لکھا جائیگا۔

زمانۂ  ماضی ایک ایسی  لاش ہے جوبہتان طرازی کی ازخود   تردید نہیں کرسکتی۔  پدماوتی اپنا دفاع نہیں کرسکتی اس لیے کرنی سینا کی محتاج ہے جو اس کے نام پر اپنی سیاسی دوکان چمکا رہا ہے اور اپنا بھاو بڑھا رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ بہت جلد سنجے لیلا بھنسالی اور راجپوتوں کے دوران اسی طرح کی کوئی سودے بازی ہوجائے جیسی کہ راجہ مان سنگھ نے شہنشاہ اکبر سے کرلی تھی اور اس کے نورتنوں میں شامل ہوگیا تھا۔  ہدیہ اس طرح  اپنا ایمان نیلام کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔  اس کے زندہ ضمیر کی آواز کو نہ خریدہ جاسکتا ہے اور نہ کچلا جاسکتا ہے۔ وہ   کسی دباو میں نہیں آتی اور اپنی جان جوکھم میں ڈال  کرکذب و بہتان  کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ پدماوتی کے برعکس  ہدیہ نے اپنے خلاف ہونے والی ساری سازشوں کا قلع قمع کردیا۔

 پدماوتی اور ہدیہ میں فرق یہ ہے کہ ایک ماضی کی داستان ہے اور دوسری  حال کی  ایسی حقیقت ہے جس کو نہ دبایا جاسکتا اور نہ  جھٹلانا ممکن ہے۔ ہدیہ کا واقعہ گواہ ہے کہ ماضی کو تو بدلا جاسکتا ہے لیکن حال کو نہیں ۔ہدیہ اور پدماوتی کے معاملات ایک دن کے وقفہ سے عدالت عظمیٰ میں آئے۔ پدماوتی کی بابت عدالت کا رخ بہت واضح تھا۔ کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور(بی جے پی ) رہنماوں  کے بیانات پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ فلم سنسر بورڈ کے ذریعہ منظوری کا انتظار کر رہی ہےتو اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ فلم کےپاس کیے  جانے یاروکے جانے پربیان نہیں   دے سکتے۔ اس طرح کے بیانات سے سنسر بورڈ کا فیصلہ متاثر ہوسکتاہے اس لیے ایسے بیانات  سے پرہیز کیاجانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ  عدالت عظمیٰ نے فلم پر پابندی عائد کرنے کی  عرضی بھی خارج کر دی۔عدالت نے منوہر لال شرما کی  عرضی کو ردکرتے ہوئے اسےبے وجہ قرار دے کر زبردست پھٹکار لگائی جو سنگھ پریوار کے سر پر جوتا ہے۔

پدماوتی پر پابندی سے انکار اور ہدیہ کو آزادی کا پروانہ  نے ہندوتواوادیوں کو چاروں شانے چت کردیا۔ ہندوجاگرن منچ  نے تلملا کر کی یہ گیدڑ بھپکی سنائی کہ  کہ 6 ماہ میں 2100 مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنا دیں گے۔ اس منچ کے لیڈر اجوّ چوہان نے کہا ہم گھر گھر جاکر  لوگوں سے یہ کہیں گے وہ مسلمانوں کو اپنی بہو بنائیں یہ دھرم کی بہت بڑی سیوا ہے۔ اب اگر بفرضِ محال کوئی ہندو  نوجوان اس  دھرم یدھ کے لیے تیار بھی ہوجائے تو کوئی مسلمان لڑکی اس کے ساتھ شادی کرنے کے لیے کیوں تیار ہوگی ؟ اس لیے کہ  ہندو ہردیہ سمراٹ  مودی جی کا پتی دھرم سب کے سامنے ہے۔ نیز اگر ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں سے شادی کرنے لگیں تو ہندو لڑکیوں کا کیا ہوگا؟ اس لیے کہ ہندو دھرم تو ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت نہیں دیتا؟ان احمقوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیےکہ 11 ماہ کی انتھک کوشش کے باوجود اگر ایک نومسلم ہدیہ کو  وہ ایمان سے نہیں پھیر سکے تو 6 ماہ میں 2100 مسلمان لڑکیوں کو کیسے  ہندو بنا ئیں گے ؟ لیکن یہ زمانہ ہی پھیکم پھانک کا ہے۔ جو من میں آئے پھینکو؟ روکنے والا کون ہے؟  ویسے بھی ہندوتووادیوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ موہن بھاگوت جیسے رہنما انہیں اسی کی تربیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ایودھیا میں مندر کے علاوہ کچھ نہیں بن سکتا۔ شاید وہ عدالت کے فیصلے نہیں پڑھتے ورنہ کہتے کہ  ہدیہ کبھی شافعین کے پاس  نہیں جاسکتی یا پدماوتی کسی صورت ریلیز نہیں ہوسکتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔