ہر آدمی کا جیسے خدا ہے علیحدہ

احمد نثارؔ

جو شخص زندگی سے ہوا ہے علیحدہ

وہ مجھ کو مجھ سے کرکے گیا ہے علیحدہ

۔

سائے کو اپنے چھوڑ جیا ہے علیحدہ

اپنی قبائے شوق سیا ہے علیحدہ

۔

دیکھا گیا نہ جس سے یہ نفرت بھرا جہاں

اپنا ہی خون آپ پیا ہے علیحدہ

۔

کبر و انا کے ساتھ جیا تھاوہ زندگی

گور و کفن بغیر پڑا ہے علیحدہ

۔

دیکھیں گے کب تلک وہ جئے گا سکون سے

بچوں کو ماں سے جو بھی کیا ہے علیحدہ

۔

اس کا طبیب شیخ نہیں ناہی برہمن

یہ مرضِ عشق اس کی دوا ہے علیحدہ

۔

دیواریں مسلکوں کی چنی جارہی ہیں یوں

ہر آدمی کا جیسے خدا ہے علیحدہ

۔

دستِ دعا اٹھا کے یوں چپ چاپ ہو نثارؔ

جیسے تمہارے دل کی دعا ہے علیحدہ

تبصرے بند ہیں۔