ہر دو ہفتے میں ایک مادری زبان ختم ہو رہی  ہے!

اشرف علی بستوی

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ آج سے کوئی دو دہائی قبل  یہ بات سامنے آئی کہ ایک اندازے کے مطابق ہر دو ہفتے میں ایک مادری زبان ختم ہو رہی  ہے۔ اس کا ادراک ہوتے ہی اس کانوٹس لیا گیا اور  یہ طے کیا گیا کہ  زبانوں کوبچانے کی بیداری کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ایک خاص تاریخی پس منظر میں  21فروری عالمی یوم مادری زبان قرار پایا۔

دنیا  میں 7 ہزار سے زائد زبانیں  بولی جاتی ہیں

دنیا  میں 7 ہزار سے زائد زبانیں  بولی جاتی ہیں، صرف ہندوستان  میں  22 زبانیں سرکاری  درجہ رکھتی ہیں اور کل 1635 مادری زبانیں   پائی جاتی ہیں۔ ان میں اردو کا شمار دنیا کی موثر ترین اور سب سے زیادہ بولی  جانے والی زبانوں میں ہوتا ہے، ایک جائزے کے مطابق ہندوستان میں 5 کروڑ سے زائد لوگ اردو بولتے ہیں ۔ یوم مادری زبان کا اصل مقصد  دنیا بھر میں تہذیب و ثقافت کی اس گونا گونیت کو قائم رکھنا ہے جس سے دنیا  کی خوبصورتی برقرار رہ سکے۔

اہل اردو اپنا جائزہ لیں!

اردو والے اپنا جائزہ لیں کہ وہ اس معاملے کہاں کھڑے ہیں ؟ اگر حالات اچھے  ہیں تو  اس کا مظہر کیا ہے  اور اگر  صورت حال  بگڑی ہے تو اس کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے ؟

گزشتہ بیس برس میں اردو کے مشاعروں ، سمیناروں اور کانفرنسوں  کی تعداد تو بتدریج بڑھی ہی  ہے تو پھر ہمارے اسکولوں،  کالیجوں، اداروں سے  اردو سے معدوم  کیوں ہو تی جا رہی ہے ؟

اس دوران اردو کی خدمت میں مصروف سرکاری اور نیم سرکاری اداروں  کا بجٹ بھی بڑھا ہے  تو پھر ایسا کیوں ہے ؟

اردو  زبان کو دل سے چمٹائے رکھنے اور اس کے تحفظ اور فروغ کی قسمیں کھانے والے  پرمغز تحریروں اور بصیرت افروز تقریریں  کرنے والے   یہ بتائیں کہ نئی نسل اردو کو ذریعہ تعلیم  کے طور پر کیسے اپنائے ؟

وہ آئندہ کےتعلیمی چیلنجوں کا مقابلہ کیسے کرے ؟

ہم حکومت سے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم  کے لیے مادری زبان کے اسکول کھولے جائیں ، لیکن کیا کبھی ہم نے اپنے طور پرقائم  کی جانے والی  تعلیم گاہوں کے بارے  میں سوچا  کہ ان کا ذریعہ تعلیم کیا ہو؟

مادری زبان سے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا اگلا تعلیمی سفر زبان کی تبدیلی سے  متاثر نہ ہو  اس بارے میں  کیا کوئی روڈ میپ ہے ؟

سرکاری شعبوں کی بے شمار کمزوریاں ہیں ، پالیسیوں کے نفاذ میں خیانت اپنی جگہ  لیکن کم ازکم ایک بات تو ابھی تک باقی ہے کہ وہاں  ہونے والی تقرریوں  میں اردو کے ٹیچر یا پروفیسر، ٹرانسلیٹر  یا  اور کسی عہدے  پر   پہونچنے والے  کے ساتھ یہ امتیاز  نہیں کیا جاتا اردو کے ٹیچر کو بھی وہی گریڈ  ہے جو انگریزی  زبان پڑھانے والے کے لیے طے ہے۔

ہم سرکاری دفاتر کا نہیں پہلے اپنا جائزہ لیں ہمارے کام کاج کے میڈیم سے اردو  پوری طرح سے  غائب ہو چکی ہے۔

اس کا اندازہ ہماری تقریبات کے پوسٹرس و بینرس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

اردو کو ہمارے یہاں بمشکل 30 فصد ہی جگہ مل پاتی ہے۔

اس لیے معذرت کے ساتھ عرض ہے ہماری ادبی نشستیں  اور مشاعرے  اب  صرف  تفریح طبع تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔