اسلام میں عورت کے حقوق

گل افشاں تحسین

(فاضلہ معہد عائشہ صدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند)

صدیوں سے انسانی سماج اور معاشرہ میں عورت کے مقام ومرتبہ کو لیکر گفتگو ہوتی آئی ہے ان کے حقوق کے نام پر بحثیں ہوتی آئی ہیں لیکن گذشتہ چند دہائیوں سے عورت کے حقوق کے نام پرمختلف تحریکیں اور تنظیمیں وجود میں آئی ہیں اور صنف نازک کے مقام ومرتبہ کی بحثوں نے سنجیدہ رخ اختیار کیا ہے۔ اور بعض مسائل کے حوالے سے حکومت ہند اور ان کے نمائندہ بھی گفتگو کرنے لگے ہیں میڈیا میں بھی بحثیں ہونے لگی ہیں اور ان مسائل نے خاصی پیچیدہ صورت اختیار کرلی ہے۔طلاق،تعدد ازدواج معاشی،سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں صنف نازک کی شراکت کے حوالے سے میڈیا میں عام طور پر بحثیں جاری رہتی ہیں ۔کہا جاسکتا ہے کہ بہت سے مسائل حقیقی ہیں لیکن اکثر معاملات ایسے ہیں جن کو میڈیا ضرورت سے زیادہ اچھال رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مغربی عورت نے مشرقی عورت کے مقابلہ میں سماجی،قانونی،معاشی اور سیاسی حقوق کچھ حد تک حاصل کرلئے ہیں لیکن ان حقوق کے حصول میں مغربی عورت کو جو مسلسل جدوجہد کرنی پڑی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو کچھ وہ گنوا بیٹھی ہے وہ معمولی نہیں ہے۔

اگر ہم مغرب کی معاشرتی زندگی کا بغور تجزیہ کریں تو ہم جان لیں گے کہ مغربی عورت بہت سی چیزوں سے محروم ہوچکی ہے وہ خاندانی نظام زندگی،ذہنی سکون،نسانی وقار اور حیاء کے زیور سے محروم ہوچکی ہے۔دوسری جانب اگر ہم اسلام میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو جان لیں گے کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی عورت کو بے شمار حقوق عطا کردیئے تھے۔جس وقت دنیا کی دیگر تہذیبیں اور دیگر قومیں عورت کو انسان تسلیم کرنے اور اس کو انسانی حقوق فراہم کرنے سے بھی ہچکچا رہی تھیں ۔قرآنی احکام آج سے چودہ سو سال پہلے ناز ل ہوا جس میں ارشاد ربانی ہے:

ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف وللرجال علیہن درجہ واللہ عزیز حکیم۔

’’عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں ،جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اختیار رکھنے والا ہے اور حکیم ودانا موجود ہے۔‘‘

آیت کریمہ کے ترجمہ پر نظر ڈالیں اللہ رب العزت نے صاف صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے پر یکساں حقوق ہیں اور اس بات کی نفی قرآن کریم کی کوئی دوسری آیت نہیں کرتی ہے۔آیت کریمہ کے آخری الفاظ میں یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔لیکن یہ کیسی فضیلت ہے اس کو جاننے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی دوسری آیت کو دیکھنا ہوگا۔رب کریم کا ارشاد ہے:

الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللّٰہ بعضہم علی بعض وبما انفقوا من اموالہم۔

’’مرد عورتوں پر قوام ہیں ،اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ‘‘۔

دونوں کو آیات کو سامنے رکھیں اور اس آیت سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ چونکہ عورت صنف نازک ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا قوام (محافظ)بنایا ہے۔حیاتیات کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت کہ مرد عورت سے جمسانی طور پر مختلف واقع ہوا ہے کیونکہ وہ کم از کم جسمانی لحاظ سے عورت سے زیادہ طاقتور ہے۔اسی وجہ سے اسے زیادہ ذمہ داریاں تفویض کی گئیں ۔اب یہ بات واضح ہوگئی کہ مرد کو جو ایک درجہ دیا گیا ہے اس کا تعلق حقوق سے نہیں بلکہ اس کا تعلق فرائض سے ہے۔چنانچہ مر دکو ملنے والا درجہ نا تو صنف نازک کے حقوق میں کمی کا باعث ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت کو گھٹاتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ مرد کو عورت کے تحفظ کی جو ذمہ داری دی گئی ہے یہ مرد کی سب سے اہم اور نازک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا پورا پورا احساس ہر مرد کو ہونا انتہائی ضروری ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ مرد اپنی ذمہ داری کو معاشرتی،سیاسی اور سماجی سطح پر پورا کررہا ہے کہ نہیں لیکن یہ بات تو واضح ہوگئی کہ عورت کو اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی مرد کے مساوی اور یکساں حقوق فراہم کئے ہیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت جس کا کام تعلیم، روزگار، صحت کے میدان میں کام کرنا تھا،اسے بھوک سے تڑپتی بہنیں ، بچیاں نظر نہیں آرہی ہیں، جہیز کی بھینٹ چڑھنے والی بیٹیاں نظر نہیں آرہی ہیں پڑوسی ملک میں زینب کے عصمت دری کے ملازمین کو سزا مل جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں جو عصمت دری کے ملزمین پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔ میڈیا جس کا معاشرہ کی سچائی عوام کو دکھانا تھا وہ بھی اب خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام پر حملہ آور ہے۔جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ ہندوستان کی تمام مسلم خواتین اپنے پرسنل لاء کو اپنے شرعی قوانین کو اپنے لئے اعزام سمجھتی ہیں۔

گذشتہ سالوں میں جس طرح اسلام میں عورت کے حقوق پر گفتگو کی جارہی ہے اس کو مظلوم اور قیدی بناکر پیش کیا جارہا ہے اس کے حقوق کے نام پر اسلامی شریعت کو نشانہ بنایا جارہے وہ افسوس ناک ہے اور یوں زیادہ تکلیف ہوتی ہے کہ ہم خواتین اسلام اپنی شریعت پر مطمئن ہیں تو ان چند کوڑیوں کے لادین اور لامذہب افراد کو ہمارے حقوق کے بارے میں بات کرنے کا کیا حق ہے۔اس وقت میڈیا پروپیگنڈے سے متأثر ہوکر بہت سے سنجیدہ فکر کی بہنیں بھی یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو مکمل حقوق فراہم نہیں کئے گئے ہماری ان سے درخواست ہے کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں ۔اگر وہ اسلام کا بنظر انصاف مطالعہ کریں گی تو جان لیں گی اسلام میں عورت کا مقام کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔