ہر قدم پر اکھلیش کے لیے دعا نکلتی ہے

حفیظ نعمانی

سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان جس دن یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دونوں 38-38  سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے اس دن یا دو چار دن کے بعد یہ بھی فیصلہ ہوجانا چاہئے تھا کہ کون کس کس سیٹ سے لڑے گا۔ اگر یہ ہوجاتا تو اہم بات یہ ہوتی کہ ماحول بننا شروع ہوجاتا۔

ہم نہیں جانتے کہ اکھلیش یادو نے یہ وقت کیسے کاٹا اس لئے کہ وہ تو فریق ہیں۔ ہم جیسوں کا یہ حال تھا کہ ہر وقت یہ خطرہ منڈلاتا رہتا تھا کہ نہ جانے کب اور کس بات پر مایاوتی کہہ دیں کہ میں تو 80  سیٹوں پر اکیلی لڑوں گی۔ یہ بات اب راز کی نہیں ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کا ٹکٹ کروڑوں روپئے میں ملتا ہے اور جب یہ بات عام ہونے لگی تھی تو مایاوتی صاحبہ نے مان لیا تھا کہ وہ ٹکٹ نہیں ہر سیٹ پر جو 20  فیصدی دلت ووٹ ان کو ملیں گے ان کے لئے لے رہی ہیں۔ بہرحال بات جو بھی ہو اب وہ زمانہ آگیا کہ بڑے بڑے سرمایہ دار اپنے کالے کاموں پر پردہ ڈالنے کیلئے سب سے موٹا پردہ پارلیمنٹ کی رکنیت کو سمجھتے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت وجے مالیہ ہے جس نے نہ جانے کتنے کروڑ روپئے بی جے پی کو دے کر کرناٹک سے راجیہ سبھا کی رکنیت خریدی تھی اور لوک سبھا کا پردہ تو اس سے بھی موٹا ہے۔

اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ بی جے پی کے اترپردیش سے پائوں اکھاڑنے کی لگن کس کے دل میں سب سے زیادہ ہے؟ دو سال کے عرصہ میں اکھلیش یادو نے ثابت کیا ہے کہ مخالفت کی جو آگ ان کے سینہ میں لگی ہے وہ نہ مایاوتی کے سینہ میں ہے اور نہ راہل گاندھی کے۔ اور اسی لئے ہم یہ کہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں اگر اترپردیش کے محاذ اور کانگریس یا کسی نام کی مسلم پارٹی۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی علماء کی پارٹی بھی بناکر ووٹ مانگنے آجائے تو اسے دھکے مارکر نکال دینا چاہئے اور آنکھ بند کرکے متحدہ محاذ کو ووٹ دینا ہے۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ مسلمانوں کیلئے یہ ہے کہ بی جے پی واپس نہ آنے پائے ہم نے 70  سال کانگریس کو دیکھا ہے۔ اور دوسروں کی کیا بات کریں ہم خود کانگریس کی حکومت میں 9  مہینے جیل میں رہے ہم جو اخبار نکال رہے تھے اس کا لاکھوں کا اور ہمارے پریس کا ہزاروں کا نقصان ہوا۔ اسکے باوجود ہم لکھ رہے ہیں کہ اگر محاذ ہی کہے کہ فلاں سیٹ پر کانگریس کو دے دو تب دے دینا۔

اکھلیش کے دل کی آگ کا یہ حال ہے کہ انہوں نے ہر اعتبار سے بہوجن سماج پارٹی کے مقابلہ میں بڑی پارٹی ہوتے ہوئے ہر وہ بات مان لی جو اُن کی بوا نے کہی۔ اور جب اجیت سنگھ نے ان سے کہا کہ لوک دل کو تین سیٹیں تو دے دو تو انہوں نے ایک سیٹ اپنے کوٹہ سے دے کر پورے اترپردیش کے جاٹ ووٹ اپنے بنا لئے یہ سودا ہر اعتبار سے اکھلیش کے لئے فائدہ کا ہوگا۔

کانگریس پارٹی کی تو کشتی ختم ہوچکی پرینکا گاندھی کے آجانے سے بس اتنا ہوجائے گا کہ اسمبلی کے الیکشن کی طرح بیمار پارٹی کے بجائے صحتمند پارٹی لگے گی۔ لیکن ہر سیکولر اور جمہوریت پسند ووٹر کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اترپردیش میں جو کوئی ان تین پارٹیوں کے محاذ کے مقابلہ پر ووٹ مانگے گا وہ بی جے پی کو فائدہ پہونچائے گا۔ 2014 ء کے الیکشن میں وزیراعلیٰ بیشک اکھلیش تھے لیکن الیکشن پارٹی کے صدر ملائم سنگھ نے لڑایا تھا۔ اور بنارس یا گورکھ پور میں جو منچ بنا تھا وہ ایک کروڑ میں بنوایا تھا۔ انہوں نے نریندر مودی کے گجرات ماڈل کے جواب میں کہا تھا کہ اترپردیش کو ہم گجرات سے اچھا بناکر دکھائیں گے تو اس کے جواب میں مودی نے کہا تھا کہ 56  اِنچ کا سینہ چاہئے گجرات ماڈل بنانے کیلئے۔ یہ سب ہوا مگر اصل غلطی یہ ہوئی کہ مایاوتی اور ملائم سنگھ نیز کانگریس کے درمیان ووٹوں کے بٹنے کی وجہ سے بی جے پی کو 73  سیٹیں مل گئیں جسے مودی جی نے امت شاہ کی قابلیت قرار دے کر ان کو چوڑا کردیا۔

ہمیں اکھلیش یادو کی اس لئے زیادہ فکر ہے کہ ان کو تین محاذوں پر لڑنا پڑرہا ہے جبکہ وہ صرف بی جے پی سے لڑنا چاہتا ہے۔ سیٹوں کی تقسیم میں بنارس اور گورکھ پور دونوں جگہ بی جے پی کا مقابلہ اکھلیش کے اُمیدوار کریں گے لیکن وہ جو ایک بغلی گھونسہ ان کے باپ ہر قدم پر مار رہے ہیں وہ اس لئے زیادہ خطرناک ہے کہ اکھلیش یادو وہ طاقت کہاں سے لائے جو اورنگ زیب کے اندر تھی جبکہ اورنگ زیب کے سامنے بھی یہی تھا کہ اگر وہ اپنے والد کو ان کی من مانی کرنے دیتے تو مغلیہ سلطنت دس سال بھی نہ رہنے پاتی۔ شاہجہاں کا جیسا عشق اپنے بڑے بیٹے سے تھا اس سے زیادہ خطرناک عشق ملائم سنگھ کو اپنی بیگم سے ہے۔ یہ تو تجربہ کار جانتے ہیں کہ ایسے رشتوں میں ہر وقت ایک ٹیپ بجتا رہتا ہے جیسے یہ کہ ہم کو تو بتایا گیا تھا کہ جس کے گھر جارہی ہو اس کی ایک پارٹی ہے جو ہر وقت کروڑوں کی مالک رہتی ہے اور حکومت اگر بن گئی تو ہزاروں بڑے ملکوں سے بڑی بادشاہت ہے۔ ہم نے آکر دیکھا تو پتہ چلا کہ سب پر بڑا بیٹا سانپ بنا بیٹھا ہے اور دوسرے بہن بھائی یا غلامی کریں یا مونگ پھلی بیچیں؟

ملائم سنگھ تو اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ جس نے ان کا سب کچھ برباد کردیا اسے دوبارہ وزیراعظم بننے کی دعا دے دی اور تعریف میں کہہ دیا کہ جس کام کو ہم نے کہا اس کے لئے فوراً حکم دے دیا۔ اگر ہمت تھی تو ان سے کہتے کہ سید شجاع نے جب دعویٰ کیا تھا کہ جس ٹیم نے مشین کا کھیل کھیل کر بی جے پی کو جگہ جگہ الیکشن جتائے اس کے خلاف ایف آئی آر کیوں کرائی اسے بلاکر یہ کیوں نہیں کہا کہ الیکشن کمیشن آئو اور مشین سے گدھے کو جتاکر دکھائو؟

ہم پھر کہیں گے کہ اکھلیش یادو کو سب سے زیادہ جو نقصان پہونچائے گا وہ ملائم سنگھ کا وہ بیان ہوگا جو ہر دن بدل بدل کر آئے گا اس کو بنانے میں امرسنگھ، کم عقل شیوپال اور وہ گلابی بیگم ہوں گی جو گھر میں بیٹھی بارود کے لڈو بنا بناکر شوہر کو دے رہی ہوں گی۔ دوسری عورت جسے سوتیلی ماں کہتے ہیں اس کی کہانیاں کوئی راز کی بات نہیں ہے تجربہ یہ ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی کا اگر کوئی بدترین دشمن ہوسکتا ہے تو وہ سوتیلی ماں ہے اور اکھلیش کو اب زبان کھول دینا چاہئے اور پارٹی سے کہہ دینا چاہئے کہ نیتا جی اب پارٹی یا سماج واد کے نہیں رہے وہ صرف اس پتنی کے ہوگئے ہیں جن کو امرسنگھ نے پارٹی کو برباد کرنے اور خاندان میں پھوٹ ڈالنے کیلئے بھیجا ہے۔

ملائم سنگھ کے بیان کو اگر نریندر مودی کی سازش کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ان کا یہ کہنا کہ آدھی جنگ تو پارٹی پہلے ہی ہار گئی۔ اس کے بعد یہ اشارہ ٹکٹ اکھلیش دیں گے مگر ہمارے ہاتھ میں… سب جانتے ہیں کہ ہر ایک کو ٹکٹ نہیں دیا جاسکتا اور جسے اکھلیش نہیں دیں گے اور وہ پرانا ورکر ہے تو وہ ملائم سنگھ کی خوشامد کرے گا ہوسکتا ہے کہ چھوٹی بیگم کے لئے ایک قیمتی تحفہ کا ڈبہ بھی اس کے پاس ہو وہ بس یہ کہے گا کہ آپ سر پر ہاتھ رکھ دیجئے اور اپنا فوٹو لگانے کی اجازت دے دیجئے۔ اب سوچئے اگر ایسا ہوگیا تو پھر جو امت شاہ چاہتے ہیں کہ سب 80  سیٹوں پر لڑیں تو وہ 74  سیٹوں کا جو راگ الاپ رہے ہیں وہ ہماری اپنی ہی غلطیوں سے پورا ہوجائے گا۔ اس کا توڑ صرف وہی ہے جو ہم نے پہلے عرض کردیا کہ الیکشن تک بھول جائو کہ کس کے ساتھ کیا رشتہ ہے ملک اور پارٹی ہی سب کچھ ہے اور اسے بچانا ہی سب سے بڑا کام ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔