غالب اکیڈ می کے 50 ویں یوم تاسیس کے موقع پر طرحی مشاعرے کا انعقاد

غالب اکیڈمی ہرسال غالب اکیڈمی کے یوم تاسیس اور غالب کے یوم وفات کے موقع پرچہار روزہ پروگرام کا انعقاد کرتی ہے جس میں ایک پروگرام طرحی مشاعرہ کا ہوتا ہے۔اس بارطرحی مشاعرے کے تین مصرعوں1۔عاشق،نقابِ جلوۂ جانا نہ چا ہیے۔2۔اپنا احوالِ دل زار کہوں یا نہ کہوں۔3۔نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ پر تقریباً تیتیس شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ مشاعرے کا افتتاح جنابگنگا پرساد ومل، گلزار دہلوی،جی آر کنول نے شمع روشن کرکے کیا گلزار دہلوی نے مشاعرے کی صدارت کی ، نظامت کے فرائض معین شاداب نے ادا کئے، منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔

ایک وہ شے ہے کہ تم جس پہ عمل پیرا ہو

اور اک چیز ہے کردار کہوں یا نہ کہوں

خالد محمود

میں نے جو کچھ بھی کیا تیرے اشارے پہ کیا

مسئلہ یہ ہے سرِدار کہوں یا نہ کہوں

جی آر کنول

گلزار میں ملیں  گے تمہیں  خار بھی بہت

حالات ِ نور ونار کہوں یا نہ کہوں

گلزار دہلوی

تیرے قلم پہ کرے ناز تیری فکر رسا

قلم سے صفحۂ قرطاس پر وہ  پیکر کھینچ

وقار مانوی

یہ ظلم وجور کا موسم بدل بھی سکتا ہے

بس ایک بار ذرا دامن ستمگر کھینچ

فاروق ارگلی

کن مسائل سے ہوں دوچار کہوں یا نہ کہوں

بند ہے کیوں لبِ اظہار کہوں یا نہ کہوں

نسیم عباسی

جو کبھی سرخی اخبار نہیں بن پاتا

منظر کو چہ و بازار کہوں یا نہ کہوں

احمد علی برقی اعظمی

نہ فکر فردانہ اندیشہ  مقدر کھینچ

تصورات کی خوش حالیوں کے منظر کھینچ

فصیح اکمل

ان زاہدوں کو چاہیے مسجد الگ الگ

ہم مے کشوں کو ایک ہی مے خانے چا ہیے

معین شاداب

خدا کی دین ہے تیری بلندیٔ پرواز

تھکن نہ سوچ،بلندی پہ رہ شہپر کھینچ

ابرار کرت پوری

جس کی بس اک نگاہ نے نقشہ بدل دیا

ہم اسی فقیر کا کاشانہ چا ہیے

تابش مہدی

نظروں کو نئے ذائقے کا ہوا حساس

غزل کی لوح پہ ہر لفظ کو سجا کر کھینچ

ڈاکٹر ظفر مراد آبادی

ایسا نہیں کہ سب ہوں طلبگار جھوٹ کے

اک آدھ سچ تو آج بھی کام آنا چاہیے

شکیل جمالی

یہ جو ہر وقت مسرت میں گذرتا ہے مرا

میں اسے روح کا آزار کہوں یا نہ کہوں

رضیہ حیدر خان

جس فکر سے متین غزل کہہ رہے ہو تم

غالب کا رنگ اس میں نظر آنا چاہیے

متین امروہوی

میں ترے سائے اور اک میں پلنے والا

آپ ہوں اپنا زیاں کار کہوں یا نہ کہوں

جمیل مانوی

عجیب شکل ہے مقتل میں کیا کیا جائے

ہر ایک شخص کی خواہش ہے توہی خنجر کھینچ

شاہد انور

عشق میں ہار کو میں ہار کہوں یا نہ کہوں

انا ہے مانع اقرار کہوں یا نہ کہوں

کیلاش سمیر

داستانِ دلِ بیمار کہوں یا نہ کہوں

جو نہیں قابل اظہار کہوں یا نہ کہوں

دویا جین

مسجد ہو میکدہ ہو صنم خانہ ہو فراز

میخوار کو تو ہر جگہ میخانہ چا ہیے

سرفراز احمد فراز

روح کی دور میں لفظوں کو پرولائی ہیں

خود کو اب بھی میں قلمکار کہوں یا نہ کہوں

شہلا نواب

  اس مشاعرے میں عفت زریں،جاوید مشیری، جاوید قمر، نسیم گورکھپوری نے بھی اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا آخبر میں سکریٹری غالب اکیڈمی نے شعرا اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔

تبصرے بند ہیں۔