ہمارا رویّہ کیسا ہو؟

سہیل بشیر کار

جب بھی میں صبح گھر سے نکلتا ہوں یا شام کو واپس لوٹتا ہوں تو اکثر ایک جوان میرے سامنے ہاتھ پھیلائے پیسے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی گداگری کا انداز بہت عاجزانہ ہے۔ ایسی عاجزی کہ انسان کا دل پگھل جاتا ہے اور وہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کئی ماہ قبل مجھے کچھ جاننے والوں نے کہا کہ یہ لوگوں سے پیسے جمع کرتا ہے اور چرس پیتا ہے۔ اس وقت سے میں نے اس کو کچھ بھی دینا بند کر دیا۔ اور اس کے بعد سے جب بھی وہ میرے سامنے آتا تو میں منع کرتا اور کہتا کہ تم چرس پیتے ہو۔ میرے بہت منع کرنے کے بعد بھی اس نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ کبھی کہتا کہ داڈھی بنانی ہے، کبھی کہتا دودھ پینا ہے اور کبھی کہتا کہ دوائی لانی ہے۔ قریب 50 سے زائد بار میں نے اسے پیسے دینے سے منع کیا اور غصہ بھی کیا۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ اب وہ میرے قریب بھی نہیں آئے گا۔ لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔

اکثر میں سوچتا ہوں کہ دماغی طور کمزور اس شخص کی Dedication کس قدر ہے مضبوط ہے کہ میرے غصہ کے باوجود یہ نا امید نہیں ہوتا۔ دوسرے دن پھر وہ مسکرا کر مانگنے کے لیے میرے سامنے آگیا۔ آخر چند روز قبل میں نے دوبارہ کچھ دینا شروع کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ بحیثیت داعی اس دماغی طور کمزور انسان کے مقابلے میں میرا صبر کس قدر کم ہے۔ مجھے کہا گیا کہ صبر کرو۔ میرے پیر و مرشد خرم جاہ مراد کہتے ہیں کہ صبر کیا ہے؟ صبر یہی ہے کہ آپ کسی کو 25 دفع نماز پڑھنے کی دعوت دو۔ پھر اس کے بعد آپ ناامید ہو جاؤ اور فیصلہ کرو کہ اب اس کے پاس نہیں جاؤ گے۔ لیکن کچھ دیر بعد آپ دوبارہ اس کو پھر دعوت دو، حالانکہ آپ کے دل کو کچھ دیر پہلے اس کا رویہ نا مناسب لگا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ کسی شخص کو خیر اور اعمال صالح کی دعوت دیتے ہوئے میں مایوس کیوں ہوتا ہوں۔ کیا میرے اندر اس ذہنی طور کمزور شخص سے کم صبر ہے؟ وہ صرف چند روپیوں کے لیے اتنا Dedicated  ہے۔ مجھے اللہ کی رضا جیسا بڑا مقصد ہے۔ ہمیں کسی سے ہرگز نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ صحابۂ کرامؓ کے واقعات پڑھ کر ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

 تصور کیجیے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدر شدید دشمن تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے نکلا، لیکن وہ نہ صرف اسلام قبول کرتا ہے بلکہ اسلامی تاریخ میں حضرت عمرؓ کہلایا۔ وہ خالد، جنھوں نے جنگ احد میں جنگ کا نقشہ ہی بدل ڈالتا ہے، مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں تبدیل کرتا  ہے، وہی جو ایک زمانے میں کفار کا ’چیف آف آرمی سٹاف‘ تھا، اب اسلام کا سپاہی ہی نہیں بلکہ اللہ کی تلوار کہلاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان داعی گروہ ہمیں لوگوں کے بارے میں کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ کیا معلوم اللہ کب کس کا دل بدل دے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہوا کہ: ‘کیا آپ اپنے آپ کو ختم کریں گے، اس غم میں کہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔‘(الشعرا :3) بنیادی طور پر ہماری حیثیت درد خواہ کی ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ ‘میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو’ ہے۔

چند روز قبل میں نے اپنے دو عزیروں سے سوال کیا کہ آپ کا محلہ کیسا ہے؟ درجواب وہ گویا ہوئے کہ بہت ہی خراب۔ پھر میں نے ان کے محلہ کی کئی خوبیاں ان کے گوش گزار کیں۔ انہوں نے اقرار کیا۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کے بارے میں منفی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ داعی کے اندر تڑپ اور Consistency ہونی چاہیے، ورنہ انسان ناکام ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔ ہمارا تعلق لوگوں کے ساتھ خلوص پر مبنی ہو نہ کہ کسی لالچ پر۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا ہو۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری حیثیت یہ ہے کہ کسی نے آگ جلائی ہو اور تم اس میں کود رہے ہو میں تمہیں پکڑ پکڑ کر وہاں جانے سے روک رہا ہوں۔ بدقسمتی سے جب ہم نے یہ داعیانہ سوچ ترک کیا اور مخاطب کے بارے میں منفی سوچ کے قائل ہوئے، تو اچھے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوا۔ معاشرہ ہم سے ہے۔ ہم میں اچھے و کارآمد افراد بھی ہیں اور برے و بے فائدہ لوگ بھی شمار ہوتے ہیں۔ مثبت اثرات اس وقت مرتب ہوں گے جب ہم ہر ایک کی بھلائی کا سوچیں گے۔ ہر ایک کہ صلاحیتوں، ہُنر اور سوچ کو صحیح نہج دیں گے۔ یہ بڑا صبر آزما کام ہے۔ نبوی منہج ہے اور جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’اور یہ دولت صبرکرنے والوں کو ہی ملتی ہے اوریہ دولت بڑے نصیب والے کو ہی ملتی ہے۔‘ (فصّلت :35)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


6 تبصرے
  1. ایس . امین الحسن کہتے ہیں

    مجھے مضمون نگار کے اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ سڑکوں پر مانگنے والوں کا حوصلہ بلند ہوتا ہے، جلد ناامید نہیں ہوتے، خدا پر انہیں بھروسہ ہوتا ہے اور اپنی سی کوشش لگاتار کے چلے جاتے ہیں۔ توکل کے معاملے میں ، میں نے گاؤں اور قریوں میں چھوٹے چھوٹے ہوٹل والوں کو دیکھا ہے کہ وہ پچاس لوگوں کا سالن روٹی بنائے بیٹھے ہیں اور امید لگائے ہوئے ہیں ہکہ خدا تعالیٰ انہیں گاہک ھیجئے گا۔ جب کہ بعض پڑھے لکھے لوگ اپنے آئیڈیاز پر بھروسہ کرتے ہیں اور گاہک کھینچ کر لانے کی کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

    1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

      بہت شکریہ سب کا

  2. سلمیٰ نسرین کہتے ہیں

    بحیثیت مسلمان داعی گروہ ہمیں لوگوں کے بارے میں کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ کیا معلوم اللہ کب کس کا دل بدل دے۔
    بہترین لائینز 👏 مضمون میں جو واقعات آپ نے قلم بند کیے ہیں،اچھے ہیں اور صحابہ کرام کے دلوں کی تبدیلی کا ذکر بھی بہترین مثالیں ہیں کہ ہماری خیر خواہی آگے چل کر بہترین نتائج لا سکتی ہے۔اس سلسلے میں ایک مثال اہل طائف بھی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زندگی میں سب سے سخت دنوں میں سے ایک تھا۔لیکن نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کی رفتار میں کمی آئی نہ آپ مایوس ہوئے اور نہ ہی ان کے لیے بدعا فرمائی۔
    بہت اچھا مضمون ہے۔ مبارکباد

    1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

      بہت شکریہ

  3. محی الدین غازی کہتے ہیں

    بہت خوب.. دوسروں کے رویے کی شکایت کے بجائے اپنے رویے کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے.
    اس سلسلے میں اصول یہ ہے کہ ہمارے رویے ہمارے تصورات کے مطابق ہوتے ہیں
    .

    1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

      بجا فرمایا

تبصرے بند ہیں۔