اور ظلم کی تلوار ٹوٹ گئی

سہیل بشیر کار

          ڈرامہ چاہے کسی بھی طرح کا ہو،  معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑتاہی ہے۔ کامیاب ڈرامہ انسانی فکر پر اپنے اثرات ڈالتا ہے۔ ارسطو ڈرامہ کے بارے میں کہتاہے: ’’ڈراما انسانی افعال کی ایسی نقل ہے، جس میں الفاظ موزونیت اور نغمے کے ذریعے کرداروں کو محو گفتگو اور مصروف عمل ہو بہو ویسا ہی دکھایا جائے، جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔ یا ان سے بہتر یا بدتر انداز میں پیش کیا جائے‘‘۔ ڈرامہ کا پلاٹ اکثر فرضی ہوتا ہے، لیکن ایسے ڈرامے بھی ہوتے ہیں جو  تاریخی واقعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ڈرامہ کی کہانی اور کردار سب تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ  48 صفحات کی کتاب "اور ظلم کی تلوار ٹوٹ گئی” عالم اسلام کے مشہور و ہر دلعزہر عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کا لکھا ہوا ڈرامہ ہے، جو تاریخی واقعات پر مشتمل ہے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جو ایک مسلمان کو حوصلہ بخشتے ہیں۔ خاص کر ان علاقوں کے مسلمان جہاں کے حاکم مسلمان تو ہیں، مگر ظلم وجبرکی صفات سے متصف ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی کی تحریروں میں ربانیت، انسانیت، جامعیت، اعتدال وتوازن، حقیقت پسندی، وضاحت (Clarity) اور ثابت قدمی وشفقت کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ صرف لکھتے ہی نہیں ہیں، بلکہ میدان عمل کے بھی انسان ہے۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو خالص علمی وفکری ہے، جب کہ دوسرا پہلو خالص عملی اور تحریکی۔

حجاج بن یوسف ایک تاریخی کردار ہے، جس نے امت مسلمہ کے صلحا پر خوب ظلم کیا۔ لیکن وہیں سعید بن جبیرؒ بھی تاریخی کردار ہیں، جو عالم دین تو تھے ہی، لیکن عملی میدان کے پیکر بھی تھے۔ حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ سے جب اہل کوفہ کسی مسئلہ کے متعلق دریافت کرتے تو آپ فرماتے: ’’سعید بن جبیر کے ہوتے ہوئے تم لوگ مجھ سے پوچھتے ہو۔ ‘‘ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ’’ سعید کو شہید کیا گیا۔ حالانکہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ان کے علم کا محتاج نہ ہو۔ ‘‘

کتاب کے مترجم برادر عنایت اللہ وانی ندوی (اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ. ڈگری کالج ڈوڈہ کشمیر) کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں: "یہ کوئی فرضی کہانی نہیں، بلکہ حق و باطل کی کشمکش کے ایک تاریخی دور کی مبنی برحقیقت عکاسی تھی۔ اس کتاب میں حضرت سعید بن جبیر اور حجاج بن یوسف کے کردار کو نہایت ہی عمدہ اسلوب کے ساتھ تحریر کیا گیا تھا۔ "ارسطو کا کہنا ہے کہ ڈرامے میں پلاٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ عمدہ اور اچھے پلاٹ میں واقعات کی ترتیب ایک خاص ڈھنگ کی ہوتی ہے۔ واقعات میں تسلسل، ربط اور ہم آہنگی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے علامہ یوسف القرضاوی اپنے اس ڈرامہ میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

          تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے۔ اگرچہ کردار بدلتے ہیں، لیکن کہانی کا پلاٹ وہی رہتا ہے۔ وارثی صاحب لکھتے ہیں:”اب جب کہ حضرت سعید بن جبیر جیسے ہزاروں حق پرست علماء  و داعیان حجاج بن یوسف جیسے ظالم و سفاک نام نہاد مسلمان اصحاب اقتدار اور افسران کے ہاتھوں ظلم و عدوان اور سفاکیت کی چکی میں پس رہے ہیں، حضرت سعید بن جبیر جیسے کردار کو تازہ کرنے کی ضرورت زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے تاریخی دستاویز کا مطالعہ اہل حق کے لیے صبر و ثبات اختیار کرنے اور ‘سعیدی’ کردار ادا کرنے میں مہمیز کا کام ادا کرے گا اور ان تمام سوالات کے جوابات بھی مل جائیں گے، جو اس طرح کے دور ابتلاء میں ایمان والوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 3)

          حجاج کے ظلم کے سامنے جب ابن الاشعث کے جان باز سپاہیوں اور حجاج کے فوج کے مابین معرکوں کا بازار گرم ہوا تو شروع میں ابن الاشعث کا پلڑا بھاری تھا، لیکن حجاج اپنے رعب اور دبدبے کی وجہ سے بظاہر بھاری پڑا اور ابن الاشعث کو فرار ہونا پڑا۔ ان کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، جن میں حضرت سعید بن جبیر بھی تھے۔ لیکن حق کا یہ داعی اپنے کام میں لگا رہااور بالآخر گرفتار کیے گئے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا، جس کو دیکھ کر زمین و آسمان بھی ششدر رہ گیے۔ علامہ یوسف القرضاوی حرف آغاز میں ڈرامہ لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مجھے سعید بن جبیر اور حجاز بن یوسف کا تاریخی واقعہ اس اعتبار سے بہت ہی مناسب معلوم ہوا کہ یہ ایک با مقصد اور پیغام کے حامل کا فکرہ بن سکتا ہے۔ خاص طور پر جب کہ ہم حجاج کے ظلم و طغیان کی طرح کے ظلم و طغیان سے دوچار ہیں۔ لہذا ہم کو سعید جیسا موقف اختیار کرنے کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ ‘‘(صفحہ 5)

          علامہ یوسف القرضاوی نے ڈرامہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ میں وہ قاری کو حجاج بن یوسف کے دربار پہنچاتے ہیں۔ وہاں حجاج نخوت و غرور میں دکھائی دیتا ہے،  اس کے خوش آمد درباری آس پاس بیٹھے ہیں اور حجاج کو اور ظلم پر اکساتے ہیں۔ اس بیچ حجاج اس وقت کے مسلمانوں کے امیر عبدالملک بن مروان کے اس خط کے منتظر ہیں، جس میں قیدیوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں احکامات ہوں۔ امیر کی طرف سے قیدیوں کو قتل کرنے کا حکم ملتا ہے۔ حجاج ایک ایک کرکے قیدیوں کو بلاتا ہے۔ ان میں سے جو قیدی عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی وہ سعید بن جبیر کو ڈھونڈنے کا حکم دیتا ہے۔ پہلے سین میں مصنف بار بار قرآن کریم کی آیات کا حوالہ قیدیوں کے ذریعہ دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے قرآن کریم کی آیات اسی مواقع کے لیے نازل ہوئی ہو۔

          دوسرے حصہ میں دو سین ہیں۔ پہلے سین میں علامہ ہمیں مکہ کے اس گھر میں پہچا دیتے ہیں جہاں سعید بن جبیر روپوش ہیں اور اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے تھے۔ اس سین میں علماء حق کی علمی مجلس کو فلمایا گیا ہے، ایسی مجالس جو کہ امت مسلمہ کا درخشاں باب ہے۔ کتاب میں خوبصورت علمی نکات ہیں۔ مثلا سعید اپنے شاگردوں سے مخاطب ہیں: ’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک اس دنیا کی قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کے حقیر ہونے کی دلیل کے لیے یہ کافی ہے کہ اس دنیا میں اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور اللہ کے دشمن اس میں مزے اڑاتے ہیں اور ظلم وجور رَوارکھتے ہیں۔ جب کہ اس کے اولیاء اللہ اور محبوب بندوں کو ظلم وجور کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کو جلا وطن کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ چوکنا رہنا کہ کہیں یہ دنیا آخرت سے غفلت کا ذریعہ نہ بن جائے۔ چاہنے والے اور نہ چاہنے والے ہر شخص کو اللہ دنیا عطا کر دیتا ہے۔ لیکن دین کی دولت سے صرف اس کو نوازتا ہے، جس کو طلب ہوتی ہے اور علم کے ذریعہ ہی دین کی دولت حاصل ہو سکتی ہے۔ عمل کے بغیر علم کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور عمل کی اخلاص کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ تم کو میرے بعد میرے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے اور اپنی توفیق وحفاظت کے ذریعہ تمہاری مدد فرمائے، تاکہ تم ان لوگوں میں سے ہو جاؤ جو جانتے ہیں اوراخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور اخلاص کے نتیجہ میں ان کا عمل عنداللہ مقبول ہوتا ہے۔ "( صفحہ 21)

          اپنے طلبہ کو کامیابی اور ناکامی کا تصور اس طرح سمجھاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں اس کی بہترین مثال ہجرت کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺکا عمل ہے، جس دن آپﷺ اپنے گھر سے مظلوم اور پریشان ایک تاریک غار میں چھپتے چھپاتے نکلتے ہیں۔ تم اس موقف کو کس نگاہ سے دیکھو گے؟!آپﷺ مغلوب وشکست خوردہ تھے یا کامیاب وفاتح؟

(طلبہ کے پاس کوئی جواب نہیں بن پاتا ہے، سب پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے)

سعید:کیا بات ہے، جواب کیوں نہیں دیتے؟!

 طالب علم: کون مومن اس کی جرت کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شکست وہزیمت کی بات کرے؟!آپﷺ کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید ونصرت تھی…

  سعید:تم نے بالکل صحیح کہا اور بہت اچھی بات کہی، تو بتاؤ آپؐ اس وقت کامیاب تھے نا؟

 (طالب علم ہکا بکا رہ جاتا ہے اور صحیح جواب نہیں دے پاتا)

          سعید:جہا ں تک میرا تعلق ہے تو میں اس دن کو اسلام کے غلبہ اور عزت کے ایا م میں سے ایک اہم دن سمجھتا ہوں اور کیوں نہ سمجھوں؟!

          جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں اس کو نصرت وتائید کا دن بتایا ہے، اس خطاب الہیٰ کو ذرا سن لو:

          ترجمہ:’’…تم نے اگر نبی کی مدد نہیں کی تو کوئی پرواہ نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھاکہ ’’غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ (سورۃالتوبہ:40)

          غار میں تو اس دن اللہ نے آپﷺ کی مدد و نصرت فرمائی، لہٰذا اب کس کی جرت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شکست خوردہ کہے، جب کہ اللہ آپ کی مدد فرما رہا ہے….

          یقینا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی علمی بصیرت کے ذریعہ ہجرت کے دن کے بارے میں اس عظیم مفہوم کو سمجھ لیا تھا جس کی وجہ سے اس دن کو تاریخ اسلام کا آغاز قرار دیا اور یہ کوئی معقول بات نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک ایسے دن سے مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز ہو جس میں اسلام کو شکست ہوئی ہو!  (صفحہ 23)

          ابھی یہ محفل جاری ہی تھی کہ اسی اثنا میں ایک فوجی گھر میں داخل ہو جاتا ہے، جو سعید کو گرفتار کرنے پہنچ جاتا ہے۔ لیکن سعید کے تقویٰ اور باتوں سے متأثر ہوکر وہ سعید کو گرفتار نہیں کرتا۔ البتہ یہاں سے فرار کی تجویز پیش کرتا ہے۔ اسی حصہ میں دوسرا سین ہے، جس میں سعید مکہ سے دور اپنے ایک دوست ابو حصین کے گھر میں ہے اور ان کے دوست انہیں بتاتے ہیں کہ مکہ کے نئے گورنر نے آپ کے خلاف بہت تقریر کی۔ اسی اثنا میں فوجی سعید کو گرفتار کرنے پہنچ جاتا ہے، لیکن سعیدکے تقوی کی وجہ سے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ فرار ہو جائیں،میں بھی آپ کے ساتھ آجاوں گا۔ سعید کہتے ہیں کہ میں بہت بھاگا اور چھپتا رہا یہاں تک کہ مجھے اب اپنے رب سے شرم محسوس ہو رہی ہے۔ بہرحال سعید گرفتار ہو جاتے ہیں۔

          تیسرے حصہ میں بھی دو سین ہیں۔ ڈراما کے اس حصہ میں مختلف اور متضاد قوتوں کی کشمکش عروج و کمال پر پہنچ کر ایک ایسی حیثیت اختیار کر لیتی ہے کہ ان میں سے ایک کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے اور قصہ کا انجام نظر آنے لگتا ہے۔ پہلے سین میں شیخ قید خانہ کی ایک کوٹھری میں تین فقہاء کے ساتھ قید ہیں۔ وہاں کبار علماء کی محفل جمی ہے۔ اس محفل کو بھی مصنف نے بہترین طریقہ سے فلمایا ہے۔ اس سین سے سعید بن جبیر کی علمی وقار کے ساتھ ساتھ عزیمت بھی دکھائی دیتی ہے۔ اسی حصہ کے اگلے سین میں مصنف ہمیں حجاج کے دربار میں پہچا دیتا ہے۔ وہاں حجاج اور سعید کی بات چیت کو بہترین طریقہ سے دکھایا گیا ہے۔ اس گفتگو میں بھی قرآن کے حوالے ہیں اور سعید کی عزیمت اور سین کا اختتام اس دعا پر ہوتا ہے جو کلمہ پڑھ کر سعید بن جبیر کہتے ہیں "یا اللہ اس کو میرے بعد کسی کے قتل کرنے کی مہلت نہ دینا۔ ‘‘

          کتاب کا آخری  حصہ سعید کے شہادت کے ٹھیک پندرہ دن بعد دکھایا گیا ہے، جب حجاج سعید بن جبیر کی شہادت کے بعد ذہنی مریض بن گیا ہوتا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ سعید بن جبیر مجھے مار ڈالے گا۔ بالآخر اس کی موت اسی حالت میں ہو جاتی ہے۔

          ڈرامہ کی زبان آسان ہے۔ اس لیے یہ قاری کو مجبور کرتی ہے کہ ایک ہی نشست میں ختم کریں۔ حالاں کہ علمی اور تاریخی ہونے کے باوجود ڈرامہ کی زبان آسان ہے۔ امید ہے عوام و خواص کو اس سے فائدہ ہوگا۔ کتاب پڑھتے ہوئے لگتا ہی نہیں ہے یہ کتاب کا ترجمہ ہے۔ ہمارے مترجم برادر عنایت اللہ وانی  نے اس سے پہلے کتاب’’روزہ اور مقاصد روزہ‘‘ لکھی ہے، جو اہل علم میں کافی مقبول ہوئی۔ اردو داں طبقہ موصوف کا مشکور ہے کہ انہوں نے اس خوبصورت کتاب کو اردو کا قالب دیا۔ کتاب میں صرف ایک کمی محسوس ہوتی ہے کہ یہ زیادہ مختصر ہے۔ اگر کچھ اور بھی سین ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

ہدایت پبلشرز کے ذمہ دار برادر ابولاعلٰی سید سبحانی نے بہت کم عرصے میں اہم کتابوں کی اشاعت کی ہے۔ یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

کتاب حاصل کرنے کے لیے واٹس اپ کیجیے : 09891051676

 تبصرہ نگار کا رابطہ: 9906653927

1 تبصرہ
  1. Hold Porn کہتے ہیں

    First time here, haha

تبصرے بند ہیں۔