ہمارا کیا ہے ہم تو خود کو بس بسمل سمجھتے ہیں

عبدالکریم شاد

ہمارا کیا ہے ہم تو خود کو بس بسمل سمجھتے ہیں
ترے کوچے کے ذرے ذرے کو قاتل سمجھتے ہیں

وہ بس اک بدگمانی ہے نہیں اس کے سوا کچھ بھی
میں کیسا ہوں؟ میں کیا کچھ ہوں؟ وہ اہل دل سمجھتے ہیں

لڑائی لڑ رہے ہیں لوگ مسلک اور مشرب کی
بڑے ناداں ہے جو رزمِ حق و باطل سمجھتے ہیں

ہمیں نزدیک ان کے کھینچ لائی ہے ہوس اپنی
مگر وہ ہم کو اپنے حسن پر مائل سمجھتے ہیں

ہمارا ہی خسارہ ہے جو ہم نالاں ہیں منصف سے
وہی ہیں فائدے میں جو اسے عادل سمجھتے ہیں

یہ میری راہ میں پتھر بچھانے والے کیا جانیں
کہ ہر پتھر کو ہم اک زینہء منزل سمجھتے ہیں

وہ کیا جانیں جنون و شوق میں کیا لطف پنہاں ہے
جو کارِ کوہ کن کو سعی لا حاصل سمجھتے ہیں

میں گم رہتا ہوں دنیائے تصور میں سدا لیکن
مجھے بھی اہل محفل شاملِ محفل سمجھتے ہیں

بھلا کیسے سمندر پار کر پائیں گے ہم آخر
"جہاں پر ڈوب کر ابھریں اسے ساحل سمجھتے ہیں”

یہ ہے انجام ماضی کا مگر امید کی خاطر
ہم اپنے حال کو آغاز مستقبل سمجھتے ہیں

ہمارے دور کے ہر بچے کو اس میں مہارت ہے
جناب شاد! جس کو بالغ و عاقل سمجھتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔