ہماری انفرادی بداعمالیوں کی شامت رسول اللہ ﷺ کی امت پر (قسط اول)

اللہ بخش فریدی

یہ حقیقت ہے کہ آج ہم جو دنیا میں در بدر بھٹک رہے، اور ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر مسلط ہے یہ اپنے قومی نصب العین اور اسلاف کے نقش قدم سے ہٹ کر چلنے ہی کی سزاہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر قوموں کو گمراہی ، ضلالت اور راہ راست سے بھٹکنے کا حساب دنیا میں ہی دینا ہوتا ہے۔ قوم اور امت کا معاملہ، سزاء و جزا دنیا ہی میں ہوا کرتی ہے۔امتِ مسلمہ بحیثیتِ قوم یا امت کے آخرت میں نہیں پیش ہو گی۔وہاں تو سب کو انفرادی طور سے حساب دینا ہے۔وہاں ہر انسان انفرادی طور اپنے کیے کی سزاء و جزاء پائے گا۔ اجتماعی طور سے ہمارا حساب کتاب اسی دنیا میں ہی ہونا ہے اور قانونِ قدرت ہے کہ کسی بھی امت یا قوم کے اجتماعی گناہوں کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا، ان کی سزا ضرور ملتی ہے اور وہ سزا اجتماعی طور پر ہم مسلمان صدیوں سے بھگت رہے ہیں دنیا میں ذلیل و رسواء ہو کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کر۔ ہمارے عظیم مفکر اقبال رحمہ اللہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
جیسے قوموں اور امتوں کو سزا اجتماعی گناہوں پر ہے ، اسی طرح امتوں کی توبہ بھی اجتماعی قبول ہوتی ہے

انفرادی نہیں۔انفرادی تو ایک ایک شخص کی توبہ ہوئی نا۔ جب ملت کے تمامی افراد مل کر اجتماعی توبہ کریں گے تو وہ امت کی توبہ بنے گی،تو پھرکہیں جا کر امت کے دن بدلنا شروع ہوں گے، امت کی تقدیر سنورے گی۔
اے مسلمانو! خدا کیلئے اپنے پیارے رسول ﷺ کی امت کا احساس کرو، اور مجموعی طور پر تائب ہو کر خدائے حقیقی کے حضور معافی مانگو اور حضور ﷺ کی امت کو سربلندیوں کی طرف لے جاؤ ورنہ تم رسول اللہ ﷺ کو کسی منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔ ہمارے ایک ایک کے انفرادی گناہ اجتماعی بن گئے ہیں، جن کی سزا دنیا میں اجتماعی طور رسول اللہ ﷺ کی امت بھگت رہی ہے دنیا میں رسواء ہو کر اور در در کی ٹھوکریں کھا کر۔بظاہردنیا میں ہمیں انفرادی طور پر سزا ملتی نظرنہیں آتی اور آخرت کے تصور سے بے نیاز ہو کر گناہوں پر گناہ کیے جا رہے ہیں اور ہم بڑے بھولے منہ سے کہہ دیتے ہیں کہ ایک میں نہیں ساری دنیا کر رہی ہے ، ایک میرے نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ہمیں انفرادی طور پر اس کی سزا قبر اور حشر میں ملے گی، مگر اجتماعی طور پر جو شامت رسول اللہ ﷺ کی امت پر طاری ہے دنیا میں ذلت و رسوائی کی ، یہ ہمارے ایک ایک کی انفرادی بد اعمالیوں کا ہی نتیجہ ہے جو مل کر اجتماعی بنے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔اگر ہم ایک ایک کرکے اپنی انفرادی اصلاح نہیں کریں گے تو اجتماعی اصلاح کیسے ہو گی امت کی؟ اگر امت کا ایک ایک فرد انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے اور اپنے اندر یہ سوچ اور جذبہ پیدا کر لے کہ کم از کم میری وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی امت پر سیاہی نہ پڑے،کم از کم میری وجہ سے حضور ﷺ کی امت بد نام نہ ہو، میری وجہ سے حضور ﷺ کی امت پر قہر نازل نہ ہو تو امت کی اصلاح ہوتے ذرا دیر نہیں لگے گی۔ امت کے ہر ہر فرد میں اس سوچ کا موجزن ہونا انتہائی ضروری اور وقت کی ضرورت بھی ہے اگر یہ جذبہ بیدار نہیں ہوتا تو میرے خیال میں اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں۔

ہماری بدنصیبی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نہ تو کوئی انفرادی اصلاح کی سوچ پائی جاتی ہے اور نہ اجتماعی۔ بدخلقی، بے راہ روی ، فحاشی ،عریانی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ معاشرہ میں شیطانیت کا دور دورہ ہے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، کوئی معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آج نظام مصطفی ﷺ اور اصلاح امت کا نعرہ محراب و منبر سے بھی لگانا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم نے نظام باطل سے سمجھوتہ کر لیا، ہم اور ہمارے بڑے کار پردازو رہنما موجودہ باطل نظام سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے، ہماری قدو کاوش، سعی و حرکت ختم ہو گئی ، ہم نے جدو جہد کرنا ترک کر دی، نہ نظام مصطفی لا سکتے مگر ہم ساری زندگی آواز تو لگاتے رہتے ، نوجوان نسل کا جوش ابھار کے نظام مصطفی ﷺ کے مجاہد تو مہیا کرتے رہتے ملت کو، مگر افسوس کہ یہ محراب و منبر والے اتنا بھی نہ کر سکے کہ وہ اس کا تسلسل ہی قائم رکھتے۔وہ نظام باطل سے سمجھوتہ کر کے بڑے سکون سے اپنے اپنے ٹھیوں میں جا بیٹھے۔یہاں مجھے سودا نامی ایک شاعر کی بات یاد آ رہی ہے جس نے کہا تھا

مجنوں لیلا سے بازی نہ لے سکا سر تو دے سک

کس منہ سے کرتے ہو دعویٰ عشق سودا تم سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

اس سے بڑھ کر اور کم بختی کیا ہو سکتی ہے امت کی کہ آج دین کے اہم ستون بھی تربیت کے مراکز نہیں رہے اور نہ علماء درستگی اخلاق، پختگی کردار کا درس دے رہے ہیں۔ کیا علماء نبیوں کے وارث نہیں ہیں؟ کیا امت کی اصلاح ان کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا امت کو حضور ﷺ کی شریعت و طریقت کے دائرہ میں نتھ ڈال کے رکھنا ان کا فرض نہیں ہے؟ ان کے واعظ ، ان کے خطابات صرف فضائل و کمالات، مقام و مرتبت، فیض و برکات تک محدود ہیں۔ یہ صرف خطابت کے جوش اور زور دار گرجوں سے حضور اقدس ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کی شان کے واعظ سنا کر آپ ﷺ کی اور اصحاب کی شان بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے آپ ﷺ کی شان بلند نہیں ہو گی دنیا میں۔لوگوں کو آپ ﷺ کے اخلاق، اوصاف و کردار، آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ اور صحابہ کے کردار کا عملی نمونہ بنانا ہوگا۔ جب لوگوں کے اخلاق و اوصاف آپ ﷺ کے اسوہ اور صحابہ کے کردار کے عین مطابق ہوں گے تو دنیا پرخودبخود آپ ﷺ کی شان واضح ہو جائے گی۔ صرف خطابات کے کھوکھلے جوش سے آپ ﷺ کی شان واضح نہیں ہو گی دنیا پر، پہلےخود آپﷺ کے اخلاق اور اسوہ کا عملی نمونہ بننااورلوگوں کو اس کا پابند کرنا ہوگا۔

ہم عملی طور پر آپ ﷺ کے کردار و اوصاف کو چھوڑ کر صرف شان بلند کرنے کے چکر میں پڑے ہیں جبکہ ہماری بنیادی ذمہ داری آپ ﷺ کی اتباع کرنا ہے۔ حضور ﷺ کی شا ن بلند کر نا اللہ کریم نے اپنے ذمہ کرم پہ لی ہے، اور اتنی بلند کر دی ہے کہ ہماری سوچیں بھی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتیں۔ ہماری ذمہ داری آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو بلند کرنا ہے، آپ ﷺ کے کردار، آپ ﷺ کے اوصاف کو نمایاں کرنا اور عملی طور پر اپنا کر دنیا کو دکھانا ہے کہ یہ ہیں ہمارے عظیم نبی ﷺ کے عظیم اوصاف۔ اور پھر دیکھنا کہ کیسے دنیا اسلام کی طرف دوڑی اور کھینچی چلی نہیں آتی۔تم عملی طور پر دنیا کو اسلام اور آپ ﷺ کے عظیم اوصاف و کردار کا اصل چہرہ اور آئینہ دکھاؤ تو سہی اگر دنیا مشرق سے مغرب تک، شمال سے جنوب تک اسلام پر جمع نہ ہوجائے تو دیکھنا۔

مگر افسوس کہ آج اصلاح امت علماء کا موضوع نہیں، امت کی اخلاقیات اور کردار کی درستگی ان کا مشن نہیں، امت کی تربیت اور فلاح و سرفرازی سے ان کو غرض نہیں۔ امت کو گمراہی و ضلالت کے اندھیروں سے نکالنا ، امت کو تہذیب سیکھانا ، امت کو سختی سے اسلامی اصول و روایات اور صحابہ کرام کے کردار کا پابند کرنااور معاشرتی برائیوں کے سامنے ڈٹ جانا ان کی راہ شوق و منزل ہی نہیں۔ ان کی تحریریں، ان کی تقریریں، ان کے واعظ،ان کے جوش، ان کے ولولے ، ان کی تمام تر توانائیاں اختلافی امور و مسائل کو ہوا دینے پر صرف ہورہی ہیں نہ کہ امت کی بیداری، اور نہ ان میں محبت والفت و رواداری پیدا کرنے میں۔ان کے مدرسوں، ان کی مساجد سے ایک دوسرے سے نفرت کی بو آتی ہے۔ انہوں نے مدرسوں اور مسجدوں کوتعصب، عداوت، نفرت، تنگ نظری، شر اور شدت پسندی کی اماجگاہ بنا دیا ہے ان میں ایک دوسرے سے نفرت کا درس ملتا ہے باہمی محبت و الفت اور بھائی چارہ کا نہیں۔ حقیقت میں ہمارے علماء ہی امت کو رسوائی ، ذلت و پستی اور تباہی و بربادی کے طرف لے جارہے ہیں۔

عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ تاریخ میں قوموں کا مدار
چشم عالم سے چھپا تے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار

امت کے رہبر، پیر و مشائخ اور خانقاہوں والے ہیں تو سو وہ مخدوم ہیں۔ (حقیقی رہبر و سادات اور پیران عظام سے معذرت کے ساتھ جو اپنی حقیقی ذمہ داری پوری طرح نبھا رہے ہیں اور ان کے ارادتمندوں کی مہار ان کے ہاتھوں میں ہے وہ انہیں اس پر فتن دورمیں کسی طرح بھی بہکنے نہیں دے رہے، خیر اتنا کنٹرول تو اس وقت کہیں نظر نہیں آرہا بہرحال وہ ہمارے سر کا تاج ہیں وہ گستاخی نہ سمجھیں اور اس پر غور کریں، میں یہاں جنرل بات کرنے لگا ہوں اجتماعی طور پر جو اس وقت ہو رہا ہے معاشرہ میں) مخدوم ہیں یعنی صرف ان کی خدمت کرنا جائز ہے، بس ان کی خدمت کرتے رہو اور دعائیں لیتے رہو۔اس خدمت نے انہیں اتنا تن آسان بنا دیا ہے کہ بس نرم و نازک بستر ہو، تکیہ لگا ہو،خادموں کی ایک جماعت موجود ہو خدمت گذاری کیلئے،یہ مسند پہ بیٹھے ہوں لوگ آ رہے ہوں ، ہاتھ چومتے ، نذرانہ دیتے جا رہے ہوں بس ان کی ڈیوٹی ختم ۔یہ امت کی راہنمائی ہو رہی ہے اور فیض بانٹا جا رہا ہے امت میں بے عملی کا کہ ہماری غلامی میں آ گئے ہو اب کوئی فکر نہیں تمہیں جنت کی وہ تو ہماری خاندانی وراثت ہے۔ انہیں امت کی بدخلقی، گمراہی، ضلالت، فسق و فجور نظر ہی نہیں آتے۔ انہیں امت کا زمانے میں پستی و رسوائی کا احساس ہی نہیں اور نہ ان میں امت کو تاریکیوں سے نکالنے کی فکر و سوچ۔ان کے عشق و مستی کے دعوے دیکھو تو عرش کو چھو رہے ہیں ایسے عشق کو خود رسول اللہ ﷺ تمہارے منہ پر دے ماریں گے حشر میں یہ کہہ کر کہ میرے عشق کے کھوکھلے دعوے لے کر آگئے میری امت کو گمراہی و ضلالت، فسق و فجور کے اندھیروں میں چھوڑ کر۔ تو نے دنیامیں رہ کر میری امت کیلئے کیا کیا؟ میری امت کیلئے کیا سوچا،میری امت کی اصلاح و کامرانی کیلئے کیا کارنامے سرانجام دئیے؟

کیا کوئی اللہ کریم سے عشق و محبت کا دعویٰ کرے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر ، تو کیا اللہ کریم اسے قبول فرما لیں گے؟ اس پر تو بڑی زور دار تقریریں آتی ہیں علماء و مشائخ کو۔ مگر کیا کوئی رسول اللہ ﷺ سے تو عشق و جانثاری کا دعویٰ کرے آپ ﷺ کی امت کو چھوڑ کر تو کیا رسول اللہ ﷺ اسے سینے سے لگا لیں گے؟ یہ ان کی بھول ہے رسول اللہ ﷺ کو امت پہلے ہے یہ بعد میں۔ جو رسول اللہ ﷺ کی امت کا نہیں سوچتا، جسے امت کا حال دیکھ کے رونا نہیں آتا، جسے امت کا درد نہیں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ان کے نزدیک خواہ کوئی پیر ہے یا مسجد کا ملاں یاحکمران و سیاستدان۔رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ امت کی فکر رہی، غاروں میں ، سجدوں میں، رات کی تاریکیوں میں، سفر و حضر میں، جنگ و جدل میں، غزوہ و جہاد میں، وہ ہر جگہ امت کیلئے روئے اور یہ امت کی فکر سے مستثنیٰ۔ انہیں عشق مصطفی ﷺ میں تو رونا آتا ہے پر امت کے حال پر نہیں۔ بد خلق، بے عمل قوم انہیں نذرانے ہی اتنے پیش کر رہی ہے، مقبروں، خانقاہوں،مزارات پر چڑھاؤے ہی اتنے چڑھا رہی ہے کہ ان کے سمیٹنے اور محفوظ کرنے اور کہاں تصرف کرنے سے ان کی توجہ ہی نہیں ہٹتی۔ مجبور ہیں بیچارے! نذرانے سمیٹنے، مال و زر اکٹھا کرنے سے ان کی توجہ ہٹے تو امت کی فکر کریں۔ انہیں مال و زر، عیش و عشرت، برتنے کو ہر طرح کی دنیاوی آشائش وافر مقدار میں مل رہی ہے تو انہیں کیا فکر امت کے اصلاح احوال کی؟ یہ نذرانے نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا۔ دانائے راز، ترجمان حقیت حضرت اقبال ؒ نے ایسے نذرانے سود سے تعبیر کیے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں

قوم کو تو میسّر نہیں مٹّی کے دِیے بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو دیہاتی ہو مسلمان ہیں سادہ
مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سُود ہے یہ پیرانِ حرم کا
ہر خرقِ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصّرف میں عقابوں کے نشیمن

سیاستدان طبقہ ہے تو خود غرض۔ انہیں بس دنیا اور کرسی سے غرض ہے جس کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ یہ سب دنیا چاہنے والے ہیں دین نہیں، یہ دنیا کیلئے لڑتے ہیں، ہوس اقتدار، ہوس زرومال کیلئے لڑتے ہیں دین کیلئے نہیں۔ یہ قرآن وسنت کے باغی ہیں اور لادین جمہوریت کے فدائی۔جھوٹ بولنا ان کی عادت، بدخلقی ان کا وطیرہ۔ دین سے انحراف پر مبنی نظام جمہوریت پر یہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں مگر دین کیلئے ان کی زبانیں فالج زدہ ہیں کہ کچھ بول ہی نہیں سکتیں۔ دین کا پرچار ان کا مشن نہیں۔ دین کی بالادستی اور دینی اصولوں کا رائج کرنا ان کا منشور نہیں۔ یہ خدا کو تو مانتے ہیں کہ موجود ہے ، اس کے رسول ﷺ پر بھی ایمان رکھتے ہیں مگر جب خدا کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے نفاذ کی بات آتی ہے تو یہ اس سے بیزار اور اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں، یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں قرآن و سنت کا نفاذ ہو۔ ایسے کھوکھلے ایمان و یقین کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ کوئی کہے یا اللہ میں تجھے تو مانتا ہوں پر تیرے دین کا عملی نفاذ نہیں چاہتا، تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے سب احکامات کو تو مانتا ہوں کہ حق ہیں پر انہیں عملی طور پر اپنے اوپر اور ملک میں نافذ کرنے اور کروانے سے معذرت خواہ ہوں اور نہ اس کے لئے کوشش کر سکتا ہوں، نہ اس کے لئے لڑ سکتا ہوں نہ جان دے سکتا ہوں۔ ایسا ایمان و یقین تو ظاہری و کھلی منافقت سے بھی بد تر ہے۔ خدا کے دین سے انحراف پر مبنی کفر جمہوریت کیلئے ان کا سب کچھ حاضر اور اس پر قربان ہے، یہ چاہتے ہیں کہ دین رہے نہ رہے پر جمہوریت رہے اور یہ اس پر فدا ہو کر کفرِ جمہوریت کے شہید کہلاتے رہیں۔

یہ پہلے بھی دین کے نام پر اسلامیان بر صغیر سے غداری کر چکے ہیں۔ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ نظریہ پاکستان کی بنیاد کیا تھی کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا، قرآن پاکستان کا آئین ہو گا۔ یہ حکمران و سیاستدان تو نظریہ پاکستان کے بھی غدار نکلے، قیام پاکستان کے مقصد سے غداری کی۔ قرآن و سنت کے ساتھ غداری کی، قیام پاکستان کے وقت جو لوگوں کا خون بہا انہوں نے اس خون سے بے وفائی کی، لوگوں نے اپنی جانیں ان کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے تو نہیں دی تھیں انہوں نے قرآن و سنت کے نفاذ کے عظیم مقصد کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس وقت لوگوں نے اپنی جانیں پاکستان میں قرآن و سنت کے نظام کی خاطر قربان کی تھیں اور ہمارے محترم قائد محمد علی جناح کا وژن بھی یہی تھاکہ پاکستان میں قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ہو گا۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے 15نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمد للہ! قرآن کریم ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘‘

یہ لادین جمہوری مداری قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے اور اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی پر اتر آئے۔ آئین پاکستان قرآن کی بجائے اپنی غرض اور مفاد کو مدنظر رکھتے ترتیب دیا۔ آج کے حکمران و سیاستدان بتائیں کتنی قرآن و سنت سے راہنمائی لی گئی ریاست اسلامیہ پاکستان کے قوانین ترتیب دیتے ہوئے؟ یہ سب دنیاوی تماشا کرنے والے مداری ہیں۔ ہر طرف تماشا بپا ہے معاشرہ میں کوئی مداری کہیں لوگوں کو جمع کر کے اپنے نعرے لگوا رہا ہے تو کوئی کہیں۔ کوئی نیا پاکستا ن بنا رہاہے تو کوئی لوٹنے کے نت نئے طریقہ ایجاد کر رہاہے ، امت کو نیا رنگ دے کر صاحب اخلاق بنانے ، تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے اور دنیا میں عزت ووقار عطا کرنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ امت کو دنیا میں کامرانی و سرفرازی دلانا کسی کا نعرہ نہیں۔ کہیں جئے بھٹو اور زر خواری کے نعرے ہیں تو کہیں شریف لٹیروں کے ، کہیں خان ہے تو کہیں فضول مولانا۔ اور ان کے سیاسی متوالے ان کے گرد بھنگڑے ڈالے ہیں سیاسی خاندانی قیدی و غلام۔ کیا تم ان کی خاندانی غلامی کیلئے پیدا کیے گئے ہو؟ آج یہ ہیں کل ان کی اولاد ہو گی تمہارے نعروں میں خواہ وہ عقل و فہم اورشعور سے خالی ہو اور دین سے بیزار۔ حقیقت میں ان کی مت ہی ماری گئی ہے ، ان کی عقلیں کام ہی نہیں کرتیں، بہرے، گونگے اندھے جانور۔
لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا ےَفْقَھُوْن بِھَا وَلَھُمْ اَعْےُنٌ لَا ےُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا ےَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں۔ (الاعراف179:7)

خدا نے عقل دی سوچنے اور سمجھنے کو، ایک نہیں دو آنکھیں دیں دیکھنے اور پرکھنے کو، ایک نہیں دو کان دئیے سننے اور راہ کا تعین کرنے کو۔کیا خدا نے تمہیں ان کے ہر الٹے سیدھے کاموں پر تالیاں بجانے اور بھنگڑا ڈالنے کے لئے پیدا کیا ہے کہ سیاسی پیر جو مرضی کرتے پھیریں، خواہ جھوٹ بولیں، غیبت کریں، قوم کی دولت لوٹیں، اخلاقیات کی پرکھیاں اڑائیں،دین کو نظر انداز کریں تم نے اپنی آنکھیں اور کان بند کر کے ان کے نعرے ہی لگانے ہیں؟ ان کے روحانی سیاسی پیروں کے مجمع میں اللہ و رسول ﷺ کا نعرہ ہی نہیں لگتا، صرف ایک دوسرے پر طنز، غیبت، چغلیاں، بہتان، طعنہ و تشنیع اورقوم سے جھوٹے وعدے، جھوٹی امیدیں، جھوٹی امنگیں کبھی نہ پورے ہونے والی۔اور لوگ بھی اللہ و رسول ﷺ کو بھول کر ان کے ترانوں پر رشک و بھنگڑے ڈالنے میں مست ہوتے ہیں تو خدا کا غضب اور قہر نازل نہ ہو امت پر۔کیا ان کی تخلیق کا مقصد یہ تھا؟ کیا ان کی تخلیق کا مقصد لادین، گھٹیا صفت، خائن لوگوں کے نعرے لگاناہے اکٹھے ہو کر یا ا للہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کا پرچار کرنا؟

تبصرے بند ہیں۔