ہم دو ہمارے ایک

آبیناز جان علی

حالیہ اعداد و شمارے کے مطابق موریشس میں بچوں کی پیدائش کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور مستقبل کے لئے پیشن گوئی ہو رہی ہے کہ ملک میں ضعیف العمری کا مسئلہ در پیش ہو گا اور نوجوانوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ ہندوستان اور چین جیسے ممالک کے برخلاف موریشس کی آبادی سکڑتی جارہی ہے اور آئندہ ملازمت پیشہ لوگ کم ہوتے جائیں گے۔ اعلیٰ معیارِ زندگی اور میڈیکل سائنس میں رونما ترقیات نے اہلِ موریشس کو ماضی کے مقابلے درازئی عمر عطا کی ہے۔ یہاں ضعیف لوگوں کو ہر مہینے حکومت کی جانب سے پینشن دی جاتی ہے، بس میں سفر کرنا ان کے لئے مفت ہے، ہسپتال اور سرکاری شفاخانوں میں سب کے لئے مفت علاج اور دوائی بھی دی جاتی ہے۔ یہاں ہارٹ سرجری تک مفت ہے۔ نیز سرکار کی ہی پہل سے ضعیفوں کی دلجوئی کے لئے ثقافتی پروگرام، مقابلے اور گھومنے کے لئے بھی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

آبادی کے کم ہونے کا ثبوت اسکول میں بچوں کی گھٹتی ہوئی تعداد اور ہسپتالوں میں شعبئہ زچہ و بچہ میں حاملہ خواتین کی تعدادسے مل جاتا ہے۔ماضی میں ڈاکٹروں سے معائنہ کرنے کے لئے پورا دن ہسپتال میں نکل جاتا تھا لیکن اب حالات اس کے برعکس ہیں۔  جو خواتین امید سے ہیں ان کا کم وقت مین بہتر خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ آج کے نوجوان وں کی عموماً جلدی شادی ہو جاتی ہے یا وہ تیس سال کی عمر کے بعد شادی کرتے ہیں۔  پھر بھی پیشہ وارانہ زندگی کے مطالبات سے وہ مبرہ نہیں۔  جوں جوں ملک ترقی کے راستے پر گامزن نظر آرہا ہے ملازمت کی دنیا میں بہترین کاکردگی کے لئے زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ اس اثنا میں نوجوان مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔  اس کے علاوہ ملازمت پانے کے لئے جدوجہد بھی کرنی پڑ رہی ہے۔  بڑھتی ہوئی مہنگائی نے آگ میں تیل کا کام انجام دے کر مشکلات کو مزید بڑھایا ہے۔

درآنحالیکہ آج کے نوجوان جوڑے ایک ہی بچے کو ترجیع دے رہے ہیں۔  معیشت کے اس دور میں میاں اور بیوی دونوں ملازمت کی دنیا میں مصروف ہیں۔  اپنے لئے اور خاندان کے لئے وقت نکالنا مشکل لگتا ہے۔ بچہ تو ویسے ہی بے بس ہوتا ہے اور وہ ہر وقت سہارے اور والدین کی شفقت اور تحفظ کا محتاج ہوتا ہے۔ ہفتے کے دن ان کو ڈے کیر سینٹرمیں چھوڑا جاتاہے یا پھر نانا نانی، دادا دای یا ایسے بزرگ کے حوالے کردیا جاتا ہے جو گھر پر ان کا خیال رکھتا ہو۔ اس کے لئے اخراجات کا الگ انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاہ بچوں کے لئے کئی اور زائد خرچے ہیں جیسے دودھ اور ڈائپر جن کی قیمت کافی زیادہ ہوتی ہیں۔

نیر مائوں کے لئے حاملہ ہونے کا تجربہ آسان نہیں۔  صحت کا مستقل خراب رہنا اور احساسِ اضمحلال سے جھوجھنا نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعداپنی نیند اور صحت کو قربان کرکے اس کی ہر ضرورت کو پورا کرنا جسارت کی بات ہے۔ اس لئے اسلام میں ماں کا درجہ اس قدر بلند رکھا گیا ہے۔ ان تکلیفوں سے بار بار گذرنے کی خواہش کم خواتین کو ہوتی ہیں۔  زچگی کی چھٹی صرف تین مہینوں کی ہوتی ہے اور باپ کو صرف دو ہفتوں کی چھٹیاں ملتی ہیں اور یہ قلیل مدت ایک ننھی سی جان کے ساتھ وقت گذارنے کے لئے غیر تسلی بخش ہے۔

چونکہ میں اکلوتی اولاد ہوں، میرے خیال سے ایک بچے کو بھائی بہن کے سہارے سے محروم رکھنا بچوں پر زیادتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ طبی وجوہات کے بسبب چند خواتین کو حاملہ ہونے  میں پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ حادی برحق ﷺ نے تاکید کی کہ قیامت کے روز مجھ سے بڑی تعداد میں ملو۔ اتحاد میں طاقت ہے۔ بھائی بہن کے لڑائی جھگڑے سے بچوں کو دنیاداری کی تربیت گھر پر ہی مل جاتی ہے۔ اکیلا بچہ گھر کی چہار دیواری میں مقیم زندگی کے مکروفریب اور دنیا کے سردوگرم سے ناآشنا رہتا ہے۔ وہ بہت بعدمیں سیکھ پاتا ہے کہ معاشرے میں کون سا رویہ قابلِ برداشت ہوتا ہے اور کون سا غلط ہوتا ہے اور کون بھروسے کے لائق ہے اور کس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے حقوق اور اپنے عقائد کے لئے لڑنا زندگی کے کئی تھپیڑے کھانے کے بعدہی سیکھ پاتا ہے۔ اس طرح وہ استحصال کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ چھوٹے بڑوں کو دیکھ کر زندگی کا تجربہ کرتے ہیں۔ اکلوتی اولاد کی پرورش بڑوں کے درمیان ہوتی ہے۔ لحاظہ وہ خود کو بڑوں سے کم نہیں سمجھتے اوربزرگوں کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے یا تائید ونصرت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ چونکہ بزرگ چھوٹوں سے نصیحت حاصل کرنا معیوب مانتے ہیں اس تضاد سے نسلی فرق پیدا ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں چونکہ اکلوتی اولاد کو اکیلے والدین کی امیدوں اور توقعات پر کھڑی اترنا ہے ان پر خاصا دبائو بھی پڑتا ہے اور بوڑھے ماں باپ کے وہ واحد سہارے بھی ہوتے ہیں۔  چنانچہ زندگی میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے انہیں والدین کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ بیماری یا مصیبت کے وقت اکلوتی اولاد پر ہی سار ی ذمے داری پڑجاتی ہے۔ ان کی زندگی ان کی اپنی نہ رہ کر دوسروں کی زیادہ بن کے رہ جاتی ہے۔ جبکہ بھائی بہن کی موجودگی سے ذہنی، جذباتی اور مالی فوائد ملتے ہیں اور ذمے داریوں کی تقسیم میں اعتدال پیدا ہوتا ہے۔

بہرحال بھائی بہن کا رشتہ امتحان کی وجہ بھی بنتا ہے اورآخرت میں اس کے لئے جواب دہی بھی ہونگے۔ہمیں رشتوں میں باندھ کر خدا  ہمیں پرکھتا ہے کہ کیا ہم اس کے باوجود بھی حق کا ساتھ دیں گے؟  بقول علامہ اقبالؔ:

اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

گھٹتی ہوئی آبادی کو دور کرنے کے لئے اور زیادہ بچوں کے لئے میاں بیوی کی حوصلہ افرائی کرنے کے لئے سرکار زچگی کی چھٹی کی میعادکو بڑھا سکتی ہے اور والد کو اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ وقت گزارنے کی زیادہ چھٹی بھی دی جاسکتی ہے۔ ملازمت گاہوں میں ہی بچے کی دیکھ بھال کے لئے ڈے کیر سینٹرکھولے جاسکتے ہیں تاکہ کام کے دوران ماں بچوں کو اپنا دودھ پلانے سکیں اور صبح اور شام کے وقت بچوں کو ڈے کیر سینٹرپر چھوڑنے یا واپس لانے میں وقت ضائع نہ ہو۔

موریشس میں ویسے بچوں کو سب لوگ پسند کرتے ہیں اور ان پرجان چھڑکنے کو تیار رہتے ہیں۔  خاندانی زندگی کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ بچوں کے لئے یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے اور امتحان کے اخراجات پربھی سرکار رعایت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ بسوں میں مفت سفر کے لئے بھی رعایت دی جاتی ہے۔

آزادی سے پہلے پیشن گوئی کی گئی تھی کہ موریشس میں اتنی آبادی ہوگی کہ زمین کم پرجائے گی لیکن خاندانی منصوبہ بندی کی مہم نے بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلہ پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔ اب آنے والا وقت ہی بتاپائے گا کہ بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوپائے گا یا نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔