ہم رمضان المبارک کیسے گزاریں؟

عبدالحی اثری

رمضان المبارک اسلامی تاریخ وثقافت کاایک معروف،محترم اوربابرکت مہینہ ہے۔یہ نزول قرآن اوراللہ کی خاص رحمتوں،صبر،فراخی رزق،مواسات، جنت میں داخل ہونے اورجہنم سے آزادی حاصل کرنے کا مہینہ ہے ۔کچھ مواقع باربار ہماری زندگی میں آتے ہیں اورہم خوش نصیب ہیں کہ رحمت،مغفرت اورانتہائی بابرکت رات اپنے دامن میں لیے یہ ماہ مبارک ہماری زندگی میں آیا ہے، اس لیے اسی قدراہتمام کے ساتھ ہمیں اس کااستقبال کرنا چاہیے۔نبی کریمﷺ رمضان کی آمد سے قبل صحابہ کرامؓ کے سامنے اس مہینے کی عظمت وفضیلت بیان کرتے اور اس کی برکتوں اوررحمتوں سے اپنے دامن کو بھرنے کے لیے پوری کوشش اورسعی وجہد کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔شعبان کی آخری تاریخ کونبیﷺ نے رمضان کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا:

لوگو!تم پر ایک بہت عظمت وبرکات کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزارمہینوں سے بہتر ہے ۔خدا نے اس مہینے کے روزے فرض قراردیئے ہیں اورقیام لیل کو نفل قراردیاہے۔ جوشخص اس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا اورجو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا خدا اس کو دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ثواب جنت ہے اوریہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اوریہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کارزق بڑھایا جاتاہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزے دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اوراس کی گردن کودوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اوراس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزے دار کے لیے روزہ رکھنے کاہے، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہرایک کو یہ توفیق میسر نہیں ہے کہ کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے،رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کوبھی دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوادے یا ایک کھجورکھلادے یا ایک گھونٹ پانی پلادے۔اورجو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کرکھانا کھلادے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا ، پھراسے پیاس محسوس نہ ہوگی ۔یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ۔اوریہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اورآخر میں دوزخ سے رہائی ہے“(بیہقی)

رمضان المبارک کا استقبال ہم کس طرح کریں کہ اس ماہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں اوراپنی زندگی میں تبدیلی لاکر سال بھر کے لیے زادراہ تیارکرلیں۔اس تعلق سے ان امورپر خاص توجہ دینی چاہیے تاکہ اس سے بہتر طورسے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

(1) چانددیکھنے کااہتمام

رمضان کاآغاز اوراختتام چاند دیکھنے سے ہوتاہے۔ ماہ صیام کامقصود تقویٰ کاحصول ہے اورتقویٰ کے حصول کاسلسلہ ماہ رمضان کے آغاز کے لیے چاند کو تلاش کرنے سے شروع ہوجاتاہے۔گویا یہ رمضان کے مہینے کا پہلا سبق ہے۔اس لیے پورے اہتمام اوراشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کاچاند دیکھنے کی کوشش کریں اورچاند دیکھ کر یہ دعا پڑھیں:” اللہ سب سے بڑا ہے ۔خدایا! یہ چاند ہمارے لیے امن وایمان وسلامتی اوراسلام کاچاند بناکر طلوع فرما اوران کاموں کی توفیق کے ساتھ جوتجھے محبوب اورپسند ہیں۔ اے چاند!ہمارا رب اورتیرا رب اللہ ہے۔“

(2) نیت وارادہ

ہرکام کے لیے نیت وارادہ کرنا ضروری ہے۔نیت وارادہ انسانوں کوکسی کام کے لیے چوکس ومتحرک رکھتا ہے اورمحنت وجفاکشی کے لیے آمادہ وتیار کرتاہے اور عمل پرابھارتا ہے۔ اگر کام کی نیت درست ہوتو اس میں نتیجہ خیزی پیدا ہوتی ہے۔ چاند دیکھنے کے بعد ہی سے پورے رمضان میں کرنے والے اعمال کے لیے نیت وارادہ کرلینا چاہیے تاکہ پورے شعور واحساس کے ساتھ رمضان گزاریں۔ اس کے لیے ہم اپنی نیت کوخالص کرکے رمضان کااستقبال کریں کہ تمام نیکیوں اوراعمال کادارومدار نیت پر ہے۔

(3) ذاتی محاسبہ   

رمضان المبارک کے استقبال کے لیے جہاں ہم بہت ساری تیاریاں اوراہتمام کرتے ہیں وہیں ہمیں اپنی روحانی اورذاتی حالت بھی توجہ دینا چاہیے تاکہ تقویٰ دل میں اپنا مقام بنالے اورقلب ہرطرح کی برائیوں سے پاک وصاف ہوجائے۔

رمضان کے شروع ہی میں کوئی اچھی عادت اپنانے اورکسی بری عادت کوتر کرنے کا ارادہ کرلیں اور اس ماہ میں اس پر پوری طرح عمل کریں۔اس بابرکت مہینے میں جوبھی منصوبہ بنایا جائے گا اس میں اللہ کی رحمت شامل ہوگی۔

(4) نیکی کی جستجو

رمضان المبارک نیکیوں کاموسم بہار ہے، جس طرح بارش کاایک موسم ہوتاہے اور اس میں ہرچیز نشوونما پاتی ہے،ہرعمل نیکی کے بیج سے پھوٹ کر پھل پھول لاتا ہے ،اس مہینے میں نفل فرض کے برابر اور فرض کا ثواب سات سوگنا زیادہ ہوجاتاہے۔یہ نیکیوں کے اجتماع کامہینہ ہے، اس ماہ میں تھوڑی سی کوشش اور ارادے سے بھی ہرآدمی کی طبیعت نیکی کی طرف راغب اورگناہوں سے بچنے پرآمادہ ہوجاتی ہے۔ نیکی کے راستوں پرچلنے کی سہولت اورتوفیق عام ہوجاتی ہے اوربرائی کے مواقع کم سے کم ہوجاتے ہیں ۔نیکی کی طلب اورجستجو مومن کی فطرت کاجز ہے ،وہ نیکی کا حریص ہوتاہے ۔اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکی اوربھلائی کاکام کرنا چاہیے۔

(5) برے کاموں سے اجتناب

روزہ کا ایک اہم مقصد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا بھی ہے ۔ایسے تمام کاموں اورباتوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کوناراض کرنے والی ہیں جیسے جھوٹ بولنا،گندی اورلغو باتیں کرنا، غیبت اورچغل خوری ، بداخلاقی، بہتان تراشی ، امانت میں خیانت، ظلم اور زیادتی، دوسری کی حق تلفی، ناجائز منافع خوری فتنہ و فساد، آپس میں دشمنی پیدا کرانا وغیرہ۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کے احکامات کی پابندی اوراطاعت وفرمانبرداری کی جائے۔

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کاآغاز زبان کی حفاظت کرلے تو بہت سی معصیتوں سے چھٹکارا پاسکتا ہے اوررمضان المبارک کے روزے اس کے لیے بہت مفید ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔

(6) خدمت خلق

حدیث میں اس مہینے کوشہر المواسات کہاگیاہے۔روزہ کا ایک مقصد یہ ہے کہ روزہ دار کے اندر انسانیت کا درد پیدا ہو وہ دنیا میں صرف اپنے لئے نہیں جیے بلکہ دوسروں کے لئے بھی جینا سیکھے روزہ اسلامی معاشرے میں ہمدردی اور غم خوار ی کی ایک فضاپیدا کردیتاہے ۔ انسان جب روزے کی حالت میں بھکا پیاسا ہوتا ہے۔تواس کے اندر غریبوں ،فاقہ کشوں ،محتاجوں ،بے کسوںاور مظلوموں کے دکھ درد کااحساس پیدا ہوتاہے اور انکی مدد کرناچاہتا ہے ۔ خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔بھکوں کو کھانا کھلانا ، غریب اور محتاجوں کی اعانت ،اور مریضوں کا علاج اور ان کی صحیح دیکھ بھال ،یتیمون، مسکینوں، اوربیواﺅں کی مدد او ر خبر گیری ،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ،روزہ دار کو افطار کرانا اور انفاق فی سبیل اللہ ۔

(7)قرآن مجید سے شغف

رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے قرآن مجید جس مقصد کے لئے نازل ہوا ہے۔روزہ اس کے حصول کے لئے مستعد و تیار کرنا ہے ،قوت و صلاحیت دیتا ہے۔اس ماہ کا حا صل قرآن مجیدکوسناہے ،اس کی تلاوت کرنا ،اور اس پر عمل کرناہے ۔

آغاز رمضان ہی سے یہ نیت کرلیں قرآن کو سنا ہے اور پڑھنا اپنے رب کی ر ضاءکے لئے ہوگا۔اس تمنا اور امید کے ساتھ یہ کام میرے عمل کا حصہ بن جائے ،تراویح کے اندر ہم پورا قرآن مجید سنتے ہیں ،اس پر اکتفانہیں کرنا چاہئے ،بلکہ الگ سے اس کی تلاوت اور اس کو سمجھنے کے لئے ترجمہ کے ساتھ پڑھناچاہئے ۔

اس کے لئے مناسب ہوگا کہ ایک مقدار متعین کر لیںکہ اتنا قرآن روزانہ متن اور ترجمہ کے ساتھ پڑھناہے۔قرآن مجید کی کچھ سورتیں حفظ کرنے کی کوشش کریں اور قرآن کا جو حصہ پہلے سے حفظ ہو اس کو دہراتے رہناچاہئے ۔درس قرآن کی مجلسوںکا اہتمام کریں ۔اس طرح اس مہینے میںقرآن مجید سے اپنے عملی تعلق کو مضبوط کرلیں۔

(8)ذکر ودعا

اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ کام ذکر ہے ۔ایک بندئہ مومن زبان اللہ کی یاد سے ہروقت تر رہنی چاہئے یہ در حقیقت اسلامی زندگی کی علامت ہے اور یہ عبادت آدمی ہروقت اور ہر حالت میں ادا کر سکتا ہے ۔اپنی زبان سے ،دل سے اور اپنے اعضاوجوار ح سے ۔ذکر آدمی کی زندگی کامستقل تعلق اللہ اور اس کی بندگی سے جوڑے رکھتا ہے۔

(9) دعا

عبادت کا مغز اور مومن کا ہتھیار ہے ۔اس کے نتیجے میں مومن کو تسکین روح اور اطمنان قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔رمضان المبارک میں دعاکا خاص اہتمام ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی نے رمضان کے روزے فرض کرنے کے ساتھ دعا کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور بطور خاص پہلے عشر ے میں رحمت،دوسرے عشرے میںمغفرت ،اور تیسرے عشرے میںنار جہنم سے رہائی کی کثرت سے دعا کرنی چاہئے ۔

اس مہینے کا اس کے شایان شان استقبال کریں۔اس کے روزے آداب شرط کے ساتھ رکھیں،نیت میںخلوص ہو ،صرف فرض نمازوں کو کافی ناسمجھیں بلکہ کافی اہتمام کریں،قرآن مجید سے اپنا تعلق مضوط کریں ،انسان کے لئے سراپاخدمت اور ان کے غم خوار بن جائےں۔ معصیت سے بچنے کے لئے ذکر ودعا کو اپنا ہتھیار بنائےں اور نبی کریم ﷺکی اس تنبیہ کو اچھی طرح یاد رکھیں ،کتنے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزہ سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے رت جگے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔(دارمی)

تبصرے بند ہیں۔