ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے

عرفان وحید

کیا عبث کوہ و بیاباں کی مسافت کی جائے
شہرہی دشت ہے اب شہر میں وحشت کی جائے

قریۂ ذات میں تاچند سکونت کی جائے
خود شناسی کا تقاضا ہے کہ ہجرت کی جائے

پہلے کر بیٹھیں اکارت دلِ نالاں کی کمائی
پھر اسی کارِ ندامت پہ ندامت کی جائے

معجزے اور بھی ہیں دستِ قلندر میں کئی
رمِ آہو بھی کرامت ہے کہ حیرت کی جائے؟

ہم نہ سرمد ہیں، نہ منصور، نہ سقراط کوئی
’’ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے‘‘

متن کی کُنہ نہیں ہے کوئی کُھلنے والی
حاشیے ہی کی کوئی رمز عبارت کی جائے

پھر کیا جائے سفر سات سوالوں والا
اور زندہ کوئی بِسری سی روایت کی جائے

سَروں سے اُن کے ہٹادے جو ملامت کا غبار
پھر عطا ہمسفَروں کو وہ بشارت کی جائے

غم مرا غم ہے تو عـــرفانؔ ہو دل جوئی بھی
دل مرا دل ہے تو ملنے کی بھی صورت کی جائے

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    زبان،اسالیب اورمضامین کےاعتبارسےعمدہ ترغزل.
    مبارک باد

تبصرے بند ہیں۔