ہم کسی طور بھی سنورتے ہیں

عبدالکریم شاد

ہم کسی طور بھی سنورتے ہیں

آئینے پر گراں گزرتے ہیں

آپ خود عشق سے مکرتے ہیں

اور الزام ہم پہ دھرتے ہیں

چاند تالاب میں کھلے جیسے

وہ مری آنکھ میں اترتے ہیں

ہم دوانے ہیں، آزما نہ ہمیں

ٹھان لیں جو بھی، کر گزرتے ہیں

پوچھتا ہوں میں آپ کی مرضی

آپ لوگوں کی بات کرتے ہیں

کوئی منزل نہیں ہے دنیا میں

جو چلے ہیں وہ کب ٹھہرتے ہیں

دل کی دوزخ میں رہنے والے لوگ

موت آتی نہیں پہ مرتے ہیں

ذکر جاری رکھو محبت کا

ذہن میں کچھ نقوش ابھرتے ہیں

تولتے ہیں جو پر فلک کے لیے

سیڑھیوں سے کہاں اترتے ہیں

حالِ دل سن کے یار کہتے ہیں

آپ اچھا مذاق کرتے ہیں

تبصرے بند ہیں۔