ہم کہاں کھڑے ہیں!

فرید سعیدی

(صدر قاسمی ایجوکیشن اینڈ ویلفئر سوسائٹی، ادارہ باب ادب بھوپال)

اسلام ایک مذہب نہیں ہے۔ بلکہ ایک ازم ہے۔ مذہب دو جگہ پایا جاتا ہے گھر میں اور عبادت گاہ میں۔ جیسے سناتن دھرم جس کو آج ہندو دھرم کا نام دے دیا گیا ہے، مگر ازم زندگی گذارنے کا مقصد بتاتا ہے۔ اس لئے ازم زندگی کے ہر قدم پر موجود ہوتاہے۔ کچھ ازم مثلاً کمیونزم بغیر مذہب کے زندگی گذارنے کا طریقہ بتاتا ہے۔ نیشنلزم ایک ازم ہے کمیونزم جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے ایک ازم ہے۔ یہ تمام ازم خود انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ انسان بنیادی طور پر خام ہے۔ لہذا ان تمام ازموں میں خامی رہنا لازمی ہے۔

انسان مخلوق ہے۔ جو ایک عظیم ہستی کے ذریعہ خلق کی گئی ہے۔ جس طرح کسی بھی چیز کو بنانے والا اُس چیز کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے اُسی طرح انسان کو پیدا کرنے والی ہستی بھی اُس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتی ہے اور اُس کی ہر باریکی سے پوری طرح واقف ہے۔ اُس ہستی نے بھی زندگی گذارنے کا ایک طریقہ بتایا۔ جسے اسلام کہا جاتا ہے۔ جس طرح فرج آپس میں مشورہ کرکے یہ طے نہیں کرسکتے کہ انہیں کس طرح رکھا جائے تو وہ اچھے رہیں گے اور کس طرح رکھا جائے تو وہ خراب ہو جائیں گے۔اس بارے میں سب سے صحیح معلومات فرج بنا نے والی ہی کمپنی فراہم کرسکتی ہے۔ اُسی طرح انسان کو بنانے والی ہستی ہی انسان کی زندگی گذارنے کے بارے میں سب سے صحیح رہنمائی کرسکتی ہے۔ ا س سلسلے میں انسان کو بنانے والی ہستی جس کو اسلام کی اصطلاح میں ’’اللہ‘‘ کہا جاتا ہے فرماتا ہے

’’آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کردیا تم پر اپنے نعمت تمام کردی اور ہم دین اسلام سے راضی ہوگئے‘‘۔

دین عربی زبان میں زندگی گذارنے کے طریقے کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے انسان کو بنانے والی ہستی یہ اعلان کرتی ہے کہ ازموں کی ان بھول بھلیوں میں انسان کی زندگی گذارنے کا سب سے صحیح راستہ اسلام ہے۔

اسلام دنیا کے لئے آیا ہے یعنی دُنیا سے دین اسلام ہے۔ اس رہنمائی کے بعداگر انسان زندگی گذارنے کے اُس صحیح راستے پر چل کر اپنی زندگی کو بہتر بناتاہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے خوش ہوکر اُسے اس زندگی کے بعد انعامات سے نوازتا ہے یعنی انسان نے اپنی زندگی کو بہتر طور پر گذارنے کے لئے دین اسلام کو اختیار کیا مگر اللہ کی رحمت آخرت میں اُسے بطورجزا نفل میں ملتی ہے۔اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب اللہ نے زندگی گذارنے کا سب سے بہترین طریقہ انسان کو بتا دیا اُس کے بعد بھی انسان نے اُسے اختیار نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کی اِس بدترین روش سے شدید ناراض ہوتا ہے اور اِس زندگی کے بعد اُسے سزا دیتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخرت کی زندگی کی بنیاد دُنیاوی زندگی ہے۔

اسلام نے علم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ علم کے بارے میں محمدﷺ نے فرمایا ’’ تمام مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘۔

علم کے سلسلے میں ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم علم کے میدان میں کہا کھڑے ہیں آج بڑے آرام سے یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں علم کی بڑی کمی ہے مگر خود اپنے گریبان میں جھانک کر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہم نے علم کے حصول کے لئے کیا کیا۔عیسائی مشنری کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے اگر ہم صرف اپنے ملک کی ہی مثال لے لیں تو انہوں نے پورے ملک میں اپنے تعلیمی اداروں کا جال بچھا لیا ہے۔ وہ ان گائوں میں، اُن بستیوں میں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں جہاں انہیں گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں سے گذر کر وہاں پہنچنا پڑتا ہے۔اس قدر عرق ریزی اور جانفشانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ہندوستان میں عیسائی مشنری سے وابستہ تعلیمی اداروں کا جال بچھ گیااور ساتھ ہی مشینری نے اپنے اداروں میں اتنا اعلیٰ تعلیمی نظام رائج کیا کہ دوسرے تمام تعلیمی ادارے اُن کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ہندوستان کے تمام اعلیٰ عہدوں پر اور حساس عہدوں پر زیادہ تر وہی لوگ فائز ہیں جو عیسائی مشنری کے اداروں سے تعلیم یافتہ ہیں۔ مثلاً ائی اے ایس، ائی پی ایس اور دیگر سروسیز میں عام طور پر وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو مشنری کے اداروں سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی قسمت وہ لوگ لکھ رہے ہیں جو مشنری اداروں سے فارغ ہیں۔ یعنی امامت وہ کر رہے ہیں اور ہم امامت کا تمغہ سینے پہ سجائے غرور میں اپنی گردن اکڑائے آخری صفوں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہمارے تعلیمی ادارے کا کوئی اعلیٰ معلم کلکٹر سے ملنے جاتا ہے تو اُسے ملنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن جب کوئی پادری کلکٹر سے ملنے جاتا ہے تو کلکٹر اُسے خود باہر تک لینے کے لئے آتا ہے کیوں کہ وہ اُس کے تعلیمی ادارے کا تعلیم یا فتہ ہوتاہے۔

جہاں تک ہمارے تعلیمی اداروں کا سوال ہے تو ہم نے دوہی قسم کے ادارے قائم کئے ہیں ایک وہ جو چندے کی رسیدوں پر چلتے ہیں اور ان کا مقصد دین کے نام پر تعلیم دینا ہوتا ہے۔

دوسرے وہ ادارے جو خالص تجارت کے نقطۂ نظر سے کھولے جاتے ہیں اور موجودہ تعلیم کے میدان میں انگلی کٹوا کر اپنا نام شہیدوں میں لکھوانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلے قسم کے اداروں کو لیا جائے تو وہاں صرف مسلمان نظر آتے ہیں باقی تما م لوگ غائب ہوتے ہیں جب کہ مشنری اداروں کے دروازے سب کے لئے کھولے ہوتے ہیں اور وہاں سب انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ داخلہ لینے میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان دینی اداروں میں جو نظام تعلیم ہے وہ وہی ہے جو کئی سو سال پہلے تھی۔ دنیا نے جو ترقی کی اُس ترقی سے اِن اداروں نے کوئی بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ آج تک وہی پرانی لکیر پیٹی جارہی ہے کیوں کہ ان اداروں میں یا تو موجودہ تعلیم ہے ہی نہیں یا ہے تو برائے نام۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان تعلیمی اداروں سے جو طالب علم فارغ ہوتے ہیں وہ موجودہ دنیا کے لئے اجنبی ہوتے ہیں۔ یہ کمی اِ ن کی دنیاوی ترقی کے سارے راستے مسدود کر دیتی ہے اور اُن کی ترقی کی معراج کسی مسجد کی امامت یا موذٔنی بن کر رہ جاتی ہے یا اگر کوئی زیادہ ترقی کرتا ہے تو وہ ایک ایسا ہی مدرسہ کھول لیتا ہے جس قسم کے مدرسے سے وہ فارغ ہوا ہے یعنی ایک بائوڑی سے نکل کر دوسرے کنویں میں پہنچ جاتا ہے اور اُسی طرح چندے کی بنیاد پر اپنے تعلیمی ادارے کو چلا تا ہے۔ چندے سے ادارہ چلنے کا سب سے بڑا نقصان طالب علموں کو یہ ہوتا ہے کہ وہ بدترین احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کی پوری زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ اُن میں دوسروں کے سامنے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی ہمت ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی دوسری قوموں کو علم کی روشنی سے منور کرنا تو دور رہا خود ہم اپنی قوم کو کنویں کا میڈک بنا دیتے ہیں۔ آج انفارمیشن ٹیکنولاجی کے ذریعہ آپ سیکنڈوں میں ساری دنیا میں دین اسلام کے میدان میں ہو رہی زبردست ترقی اور تبدیلی سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر دینی اداروں میں تعلیم یافتہ عماماً یا تو اس سے بے خبر رہتے ہیں یا ان میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ انہیں سمجھا دیا جاتا ہے کہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے اُس نے تمہیں دین کی سمجھ کے معاملے میں مکمل کردیا اس سے زیادہ نقصان دہ عمل یہ ہے کہ یہ دینی تعلیمی ادارے بھی فکر اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں مثلاً دیوبند اور ندوہ ایک دوسر ے کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کا سیدھا اثر یہ پڑتا ہے کہ اس مرض کے جراثیم طالب علموں میں گہرائی تک سرایت کر جاتے ہیں اور دین کے معاملے میں بھی ہر ایک اپنی ڈھفلی الگ بجاتا نظر آتا ہے۔ یہ امردنیا کوتو چھوڑ ئے دین کے تعلیمی میدان میں ایسی گہری دراریں پیدا کردیتا ہے جو قوم کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہیں یعنی علم روشنی کے بجائے اندھیرا بانٹتا ہوا نظر آتا ہے۔

 ہماری قوم کے جو تجارتی تعلیمی ادرے ہیں ان کا خالص مقصد زیادہ سے زیادہ تجارتی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ان اداروں میں علم کی نوک سے نوٹ کھینچنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نا تو ان اداروں میں معیار تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے نہ نظام تعلیم اعلیٰ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں مشنری کے اسکولوں میں داخلہ لینے کے لئے وزیروں سے سفارش کروائی جاتی ہے وہیں یہ ادرے داخلوں کے لئے بھینک کی طرح ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں۔ اپنی تجارت کو بڑھانے کے لئے ایسے کچھ تعلیمی ادارے دینی تعلیم کا دُم چھلہ بھی ساتھ لگا لیتے ہیں تاکہ قوم کو دینی جذبات کہ ذریعہ بلیک میل کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہونا نہ ہو نا علم کی روشنی پھیلانے کے لحاظ سے برابر ہے۔

اگر ہمیں صحیح معنوں میں قرآن و حدیث کے مطابق علم کے میدان میں امامت کرنا ہے تو ہمیں اُس کے طریقہ کار کے لئے عیسائی مشنری کی جانفشانی دیانت داری اور عرق ریزی سے سبق لینا ہوگاورنہ ہم جہاں کھڑے ہیں اُس سے بھی پیچھے ہمیں دھکیل دیا جائے گااور ہم قرآن اور حدیث کے ذریعہ علم کی اہمیت سے عملی طور پر انکار کرتے نظر آئیں گے جو نہ صرف ہماری دنیا برباد کرے گا بلکہ آخرت میں بھی ہوسکتا ہے ہمیں بطور مجرم طلب کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔