ہندستان کو قتل گاہ بنانے کا رجحان

عبدالعزیز

  ہندستان کے کونے کونے میں ایسا رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے کہ کمزوروں ، ضعیفوں اور غریبوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہندستان میں رہنا ہے تو ظالموں سے دب کے رہنا ہوگا، ورنہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ گجرات میں اس کا نمونہ کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے جسے ’گجرات ماڈل‘ کہنا غلط نہ ہوگا۔ گاندھی نگر کے قریب 24ستمبر کو دو دلتوں کو اس لئے مار مار کر ہلاک کر دیا گیا کہ وہ مونچھ رکھنے کی جسارت کر رہے تھے۔ جن راجپوتوں نے انھیں مارا اس نے یہ کہہ کر مارا کہ ’ان کو مونچھ رکھنے کا حق نہیں ہے‘۔ انھیں راجپوتوں سے مقابلہ شوبھا نہیں دیتا۔ وہ مونچھ رکھ کر راجپوت نہیں بن سکتے۔

          "The violence that followed was gruesome. But even moustaches can bring about a thrashing. In separate incidents near Gandhinagar, two other Dalit men were beaten up, allegedly by Rajputs, because they had moustaches. They were told that growing moustaches would not make them Rajputs.” (The Telegraph 5/10/2017)

 اس کے دو تین دنوں کے بعد ہی گجرات میں ایک اور شرمناک واقعہ پیش آیا۔ ایک دلت کو ’’گربا ناچ‘‘ دیکھنے کی پاداش میں یہ کہہ کر مار ڈالا گیاکہ دلتوں کو گربا ڈانس دیکھنے کا حق نہیں ہے۔

          Caste hatred and oppression seem part of the Gujarat model; earlier four Dalit men were flogged publicly for removing the carcass of a cow that had died naturally, which set off a Dalit protest across states. Obviously, nothing has changed. Models cannot afford to change.”(The Telegraph 5/10/2017)

  ایسا لگتا ہے کہ ذات پات کے نام پر نفرت اور ظلم و زیادتی گجرات ماڈل کا حصہ بن گیا ہے۔ اس سے پہلے چار دلتوں کو پیٹ پیٹ کر ان کی جان لے لی گئی تھی جب وہ مری ہوئی گائے کے چمڑے ادھیڑ رہے تھے۔ دلتوں نے اس کے خلاف پورے ملک میں مظاہرہ کیا تھا مگر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ گجرات ماڈل میں تبدیلی مجرموں اور قاتلوں کیلئے غیر ممکن ہے۔ ناقابل تبدیل (Unaffordable)ہے۔

 ایک طرف دلتوں پر ظلم روا ہے۔ دوسری طرف مسلم اقلیت کا قتل و خون کرنا وطن اور قوم کی محبت میں ضروری ہے تاکہ Polurization ہو اور اقتدار کی کرسی ان کو آسانی سے حاصل ہو۔

ایک انسان کا قاتل ہو یا کئی انسانوں کا قاتل ہو۔ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو خواہ کسی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو اسے روئے زمین پر رہنے کا حق نہیں ہوتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ بات سمجھ لی جائے کہ ’’جس نے ایک انسان کا ناحق خون کیا اس نے ساری انسانیت کا خون کر دیا‘‘۔ تو قاتل کتنا بڑا مجرم اور ظالم ہے سمجھ میں آسکتا ہے۔

 ہر کوئی جو حق پسند ہے وہ جانتا ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ ہر انسان کے دل میں ایک دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقا و تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ حقیقت میں صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام اور ہمدردی کے جذبہ سے بالکل خالی ہے۔ وہ خونخوار جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے وہ پوری انسانیت کا دشمن ہوتاہے کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برخلاف جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ در حقیقت انسانیت کا حامی ہے کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسان کے بقا کا دار و مدار ہے۔

 گجرات، راجستھان، ہریانہ یا یوپی یا ملک کے دوسرے حصوں میں انسانوں کا خون کرنا ان کیلئے آسان ہوگیا ہے۔ اسے وہ اپنا پاسٹ ٹائم گیم بنا چکے ہیں ۔ ان سے زمین کو پاک و صاف کرنے کی ضرورت ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ نظم و نسق کی ذمہ داری کا کام جن لوگوں نے سنبھالا ہے وہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جو انسانیت کے دشمن ہیں ۔ بہت کم لوگ ایسے لوگوں کی مخالفت میں کھڑے ہیں ۔ ان میں سے کئی ایک کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا ہے۔ ضرورت ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو انسانیت کو بچانے والے لوگوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہئے اور بزدلی اور کمزوری کے بجائے دلیری اور جوانمردی کا مظاہرہ بے خوف و خطر پیش کرنا چاہئے۔ جب ہی اندھیرا چھٹ سکتا ہے اور روشنی پھیل سکتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔