دنیاوی آزمائشیں

مولانا محمد الیاس گھمن

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو بسانے کے لیے اس جہان (دنیا) کا انتخاب فرمایا اور اس کیلیے اس دنیا کو امتحان اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ہے۔اس کے کامیاب ہونے کیلیے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور کتب و صحائف نازل فرمائے تاکہ انسان ان پر ایمان لائے اور ان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار کر کامیابی حاصل کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ آزمائش کے طور پر ابلیس کو بھی پیدا کیا، لیکن ساتھ ہی کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا کہ یہ تمہاراکھلم کھلا دشمن ہے اس کے فریب میں مت آنا، یہ تمہیں ورغلائے گا اس کے متبعین اور چیلے چانٹے تمہیں بہکائیں گے، یہ تمہارے سامنے ان کو چیزوں کوخوب مزین کرکے پیش کرے گا جو تمہیں میری جنت سے دور کر دیں گی۔ اگر تم نے خود کو اس کے مکرو فریب، سازشوں اور وساوس سے نہ بچایا تو انجام کار تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور یہ میں نے اپنے نافرمانوں کیلیے بطور سزا کے تیار کر رکھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی فرمانبرداری کرے اور اپنے دشمن شیطان کی فریب کاریوں سے خود کو بچائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے چند اور چیزیں بھی بطور امتحان اور آزمائش کے بنائی ہیں ۔ جن کا تذکرہ قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔

 ترجمہ آیت:  اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے تھوڑا سا خوف دے کر، تھوڑی سی بھوک دے کر، مال،جان اور پھلوں میں تھوڑا سا نقصان دے کر۔ اس آزمائش میں کامیاب انہیں ملے گی جو صبر کریں گے۔ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 155

اللہ تعالیٰ کی حکیم و خبیر ذات ہے، کبھی وہ خوشیاں دے کر آزماتے ہیں کہ کون اسے میرا احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے اور کبھی غموں میں مبتلا کر کے آزماتے ہیں کہ کون میری طرف رجوع کر کے صبر کرتا ہے۔ خوف اور امن، بھوک و خوشحالی، رزق کی تنگی اور فراوانی یہ سب کچھ آزمائش کے لیے ہوتا ہے، قرآن کریم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی صبر کرنے والوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں جن امور کو باعث آزمائش قرار دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

خوف:     

خواہ وہ دشمن کا خوف ہو،مصائب اور مشکلات میں گھِر جانے کا یا آنے والے زمانے کا خوف۔انسان کو کبھی تو دشمن کی شرانگیزیوں کا خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں وہ میری عزت و آبرو یا جان و مال آل و اولاد کو نقصان نہ پہنچا دے، مصیبتیں اور مشکلات بھی خائف رکھتی ہیں اور کبھی انسان کو آنے والا مستقبل خوفزدہ رکھتا ہے کہ نامعلوم آنے والے حالات کیسے ہوں گے اور میرے ساتھ کیا بنے گا؟ بالخصوص بڑھاپے میں دوسروں کی محتاجی کا خوف ہر وقت انسان کو پریشان کیے رکھتا ہے۔اس کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ آزماتے ہیں ۔

جوع:    

   بھوک کو کہتے ہیں یعنی قحط سالی، افلاس، فقر اور تنگدستی کے ذریعے بھی اللہ کریم انسان کو آزماتے ہیں کہ ان پریشان کن مراحل میں وہ کیا کرتا ہے میری طرف رجوع کر کے صبر کرتا ہے یا مجھ سے منہ موڑ کر میری ناشکری کرتا ہے ؟

مال کی کمی:      

    یعنی یا تو انسان کا مال ضائع ہو جاتا ہے، مال تجارت میں خسارہ آ جاتا ہے، دولت ڈوب جاتی ہے، کوئی لوٹ لیتا ہے، آسمانی آفات زلزلے، سیلاب وغیرہ سے مال کم ہو جاتا ہے یا پھر انسان کا مال کسی ظالم کے ہاتھ لگ جاتا ہے وہ ظلم کے طریقے سے اس کے مال میں برابر کمی کرتا رہتا ہے، یا کسی جابر حکمران اس کے مالی حقوق کو غصب کر لیتے ہیں ۔یاد رکھیں یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بطور آزمائش کے ہوتا ہے۔

جان کی کمی:        

  اس کی بھی کئی صورتیں ہیں ۔ آل اولاد، عزیز و اقارب اور دوست احباب اس کا ساتھ کسی بھی وجہ سے چھوڑ جاتے ہیں یا اس کو امراض گھیر لیتے ہیں ، یا اس کے جسم کا کوئی عضو خراب یا زخمی ہو جاتا ہے۔یہ باعث آزمائش امور میں سے ہے۔

پھلوں کی کمی :  

   سخت سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے پھلوں میں کمی آجاتی ہے یا کبھی آفت سماویہ کی وجہ سے پھل خراب ہو جاتا ہے یا پھر اس میں کیڑے وغیرہ پڑ جاتے ہیں یا پھلوں میں رس نہیں رہتا اور کبھی کبھار پھلوں کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بھی انسان پر آزمائش آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان تمام یا ان میں سے بعض امور کے ساتھ انسانوں کو ضرور آزماتے ہیں ۔ اس آزمائش کے وقت انسان دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ پہلی قسم ان انسانوں کی ہوتی ہے جو اس موقع پر جزع فزع، آہ و بکاء اور شکوے شکایتیں کرتے ہیں ایسے انسان دو طرح کا خسارہ اٹھاتے ہیں ایک تو آزمائش کے وقت ان کے پاس وہ چیز کم پڑجاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے دوسرے اللہ تعالی کے حکم صبر کو بجالانے کا اجر بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں ۔ صبر رضا اور شکر جیسی نعمتوں سے بھی خود کو محروم کر لیتے ہیں اور یہ انتہائی خسارے کی بات ہے۔

 دوسری قسم ان خوش نصیب انسانوں کی ہوتی ہے جو اس وقت صبر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے روکتے ہیں وہ اس حقیقت کو تہہ دل اور صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ان امور پر صبر کا اجر ان مصیبتوں سے زیادہ بڑا ہے۔ اس لیے یہ مصائب بھی ان کے حق میں نعمت بن جاتے ہیں ۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کو خوشخبری دی ہے۔

 اس سے اگلی آیت میں صابرین کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہتے ہیں ۔ جس کا مختصر اور آسان ترین مطلب یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے مملوک اور غلام ہیں وہ ہمارا مالک اور آقا ہے چونکہ درحقیقت ہماری جان اور ہمارا مال ہماری ملک میں نہیں بلکہ اللہ کا مملوک ہے اس لیے وہ ذات ہماری جان و مال کو جیسے چاہے آزمائے اس کا حق ہے ہمیں اس ذات پر اعتراض کرنے کا یا اس کی ناشکری کا حق نہیں پہنچتا۔ ہم اسی کی عبادت کے لیے اس جہان میں آئے تھے بالآخر ہم نے اسی ذات کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔جہاں وہ ہمارے اعمال کی جزاء و سزا دے گا صبر پر اجر اور ثواب دے گا اور بے صبری، ناشکری اور جزع فزع پر عذاب دے گا۔اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی تعریف فرماتے ہیں ، ان پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں اور انہی کو ہدایت یافتہ قرار دیتے ہیں ۔

  اس لیے دنیاوی آزمائشوں پر جزع و فزع اور ناشکری کے بجائے صبر کرنا چاہیے کیونکہ یہی دنیاوی اور عارضی آزمائشیں ؛ اخروی اور ابدی کامیابیوں کا پہلا زینہ ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

تبصرے بند ہیں۔