ہندوستان، حجاج بن یوسف کا منتظر

سلیمان سعود رشیدی

حجاج بن یوسف مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا ایک نہایت ہی سخت گیر حکمران گذرا، یہ جتنا سخت مزاج تھا اتنا ہی دلفریب مقرر بھی، لوگ اس کےخطاب سے لطف اندوز ہونے دور دور ر سے چلے آتے اور اس کی تقریر سے لطف اندوز ہوتے، اس کی تقریریں مسلم  حکمرانی کا ایک نادر سرمایہ ہیں جو سیاسی تاریخ  میں کہیں کہیں ملتا ہے۔

  ان خطابات میں سے کئ ایک خطاب (تقریر)تو تاریخ کا حصہ ہی بن گیا، ہوا یوں کہ دارالحکومت دمشق میں بادشاہ”عبدالملک بن مروان کواطلاع ملی کہ  سلطنت میں کچھ، سفید ریش بزرگ حکمرانوں سے بدظن ہیں اور کسی صورت بھی  انکی حمایت کے لیے تیار نہیں ہے، جن میں کئ ایک بڑے نامور بھی تھے، ان  بزرگوں نے مختلف ناحیوں سے نوجوانوں کو اپنے ساتھ کرلیا، جس سے حالات اور منتشر ہوتے دیکھائ دیرہے تھے،اس صورت حال کو دیکھ کر بادشاہ نے یہ طئے کیا کہ حجاج کو بغداد کا گورنر  منتخب کیا جائے، کیونکہ اسکے سوا انکی سرکوبی کا کوئ راستہ نہ تھا، بغداد نے پھر وہ دن بھی دیکھا کہ حجاج اپنے قافلہ کے ساتھ بغداد میں داخل  ہوگیا، نیز جمعہ کو حجاج کا خطبہ بغداد کی جامع مسجد میں طئے پایا، عام طور پر اہم اعلانات اسی خطبہ جمعہ میں کیا کرتے تھے، پورا بغداد خطبہ جمعہ کا منتظر تھا، جمعہ کے دن مسجد کے ساتھ ساتھ اطراف واکناف میں سروں کا سیلاب تھا، حجاج جمعہ کے دن منبر پر کھڑا ہوا روایتی انداز میں خطبہ شروع کیا امن وسلامتی کی بات کی اور کہا”امن کی اس خواہش کے باوجود میں کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں۔ سفید بالوں والے میرے سامنے ہیں اور سروں کی فصل پک چکی ہے جس کے کاٹنے کا وقت آ چکا ہے۔ اگر یہ فصل بروقت کاٹی نہ گئی تو ظاہر ہے کہ خراب ہو جائے گی اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سروں کی پکی ہوئی فصل کاٹ لی جائے ورنہ اس کی خرابی اور تعفن سارے ماحول کو گندہ کر دے گی اور مسجدوں کی بے حرمتی ہو گی”۔

اس خطبہ کے بعد جو درحقیقت ایک حکومتی فیصلہ تھا سروں کی فصل کٹنی شروع ہو گئی۔ تاریخ نے ایک بے رحم تماشا دیکھا اور اسے خون سے لکھ دیا۔

حجاج کا یہ خطاب تاریخ میں بڑی اہمیت کے ساتھ رقم کیا جاتا ہے، آج جب ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو سروں کی فصل پک کر لہلہاتی نظر آتی ہے۔ بدعنوانی جسے اب کرپشن کہا جاتا ہے اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس گناہ سے شاید ہی کوئی ہندوستانی بچا ہوا ہو۔رشوت، سود، زنا،ہندومسلم نفرت مسجد مندر کا تنازعہ ( اور ان سب کو اپنی ماتحتی میں انجام دینے والے)اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ انسانیت سسکیاں لے رہی ہے  سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہندوستانیوں نے اس ظلم سے جوج کر اپنی جانیںن گنواں دیے ہیں، اب ان شہیدان وطن کے افراد خاندان، اپنے شہید وں کے بدلہ ہندوستان سے بدعنوانی ختم کرنے کا اجر مانگ رہے ہیں  اور یہ کس قدر دلدوز بات ہے کہ  جمہوریت نڈھال ہو کر بیٹھ چکی ہے۔

  دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہندوستان کا شہری ہونا فخر سمجھا جاتا  تھا، لیکن آج صورت حال اتنی بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے کہ اس گنگا جمنی تہذیب والے ملک میں ماکول الحم جانور کے منتقلی پر بھیڑ بھگدڑ مچاکر لے جانے والوں کو بے رحمی سے مارکر ہمیشہ کے نیند سلادیتے ہیں، جن کو "اف” تک کہنے والا کوئ نہیں کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کرراہا ہوں جہاں ایک حافظ قرآن کو اسکے وطن سے دور دوسرے مذہب کے ماننے والے چلتی ٹرین میں جان سے مار کر پلٹ فارم پر لاش پھینک کر فرار ہوجاتے ہیں لیکن کوئی اس معصوم کی ماں کی فریاد سننے والا نہیں، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کرراہاہوں جہاں اعلی تعلیم کے بہانے نواجواں کو غائب کرکے انکی ماوں اور بہنوں کو تڑپتا اور سسکتا دیکھ کر ایک لفظ تک نہیں کہا جاتا اور نا ہی کسی قسم کی کراوئ ہوتی، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندستان کی بات کررہاہوں جہاں صرف صرف شک کی بنیاد پر بڑی بے اخلاقی سے اخلاق کا خون کرکے دیش کی بیٹی کو یتیم کیا جاتا ہے، اسکے باوجود ہمارے ملک کا حکمران بیرونی دوروں میں مگن ہیں، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کرراہاہوں جہاں ایک کسان اپنے قرض کے بوجھ تلے دب کر پھانسی لیتا ہے، تو وہی دیش کے گھدر والے کڑوڑہا روپیے کا قرض لیکر دیش سے فرار ہوتے ہیں  اور ہماری حکومت صرف انکے آداھار اور سم کارڈبن کرپاتی ہے یہ سب اس لیے ، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندستان کی بات کررہا ہوں جہاں”رام نوی” کے مذہبی جلوس میں دوسرے مذہب کے نوجوان کو اتنی بے دردی سے مارا کہ خود اسکے اہل خانہ  اسکی لاش کو پہچان نے سے قاصر تھے، اسکے باوجود مظلوم باپ نے اپنے جوان بیٹے کو کہوکر صبر استقلال کا وہ پہاڑبن کر دنیا کو دیکھا یا کہ جسکی نظیر نہیں ملتی تب بھی قانون کے ہاتھ ظالم کے گریبان سے دور رہے  پھر بھی کچھ نہیں ہوا کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں اسی ہندوستان کی بات کررا ہاہوں جہاں جنگلی ہرن کو مارنے پر ایک پبلک فیگر کوایک طویل عرصہ تک عدالت کی پیشی کے بعد  پانچ سال کی سزا ملتی ہے تو وہی دوسری طرف مذہبی عبادت گاہ میں بم بلاسٹ کرنے والوں کو رہائ جب کی اس بلاسٹ میں ۹ لوگ اپنی جان گنوا چکے تھے اس کے باوجود ہمارے ملک کا حکمران خواموش، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کررہاہوں جہاں گوگنی بہری دلی میں ۲۰۱۲ میں دیش کی بیٹی چلتی بس میں چھ،۶ ہوس کے پجاریوں کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہوتی ہے جسکے بعد پورے ملک میں بڑے شور شرابے ہوئے، سیاسی ذہنیت والوں نے اپنی روٹیاں سیکی، کینڈل مارچ نکالے گئے اور یہ تیقن دیا گیا کہ اب دوبار کسی بیٹی کے ساتھ اسطرح نہیں ہوگا اسکے لیے قانون بنے گا لیکن گذرتے زمانے کے ساتھ ماضی کے واقعات میں دب کررہ گی نہ کوئ قانون بنا نہ انصاف ملا، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کرہاہوں جہاں مظلوم کو انصاف دلانے والا منصف انصاف کی تلاش میں روبئے میڈیا ہوتا ہے،تو وہی سچ کو صاف اور حق کو واضح کرنے والی صحافی گوری لنکیش کو گولی سے مارکر ختم کیا جاتا ہے۔

   جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کررہاہوں جہاں نوابوں کے شہر بھوپال میں دن دھاڑے انسانیت کو حاشیہ پر رکھ کر نفرت کا کاروبار کرنے والےموذن کو چاقوں سے گود کر قتل کردیتے ہیں، اس کے باوجود ہمارے ملک کا حکمران خواموش، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

  ہاں یہ وہی ہندوستان ہے جہاں پر اناو کی ایک لڑکی برسراقتدار حکومت کے افراد کے ہاتھوں اپنی عزت گنواکر مدد اور امید کی تلاش میں اپنے  باپ کو حکمرانوں کا دروازہ کھٹکھٹانے بھیجتی ہے تو اسے بھی ہمیشہ کی نیند سلادیا جاتا ہے، لیکن کسی قسم کا کوئ رد عمل نہیں، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

یہی وہ ہندستان ہے جسکی بیٹی اپنے جانور کی تلاش میں اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں انسان نما جانور  صاف وشفاف مذہبی جگہ پر لکشمی کے پجاریوں نے ہوس کے پجاری بن  نے میں دیر نہ کی، پھر یکے بعد دیگرے آٹھ درندوں نے ایک آٹھ سالہ بھوکی بیٹی کو نشاآور ادویات دیکر وہ کچھ کیا جسے لکھتے اور بولتے ہوئے بھی جسم کپکپاجاتا ہے، ان وحشیوں کے بیچ ایک نام نہاد ملک کی حفاظت کا متوالا بے شرم پولس بھی شامل تھا، اس معصوم کا کیا قصور تھا جو ذات پات مذہب وبرادری میں فرق تک کو محسوس نہیں کرسکتی تھی، حد تو یہ کہ کچھ وکلا اور لیڈران درندوں کوبچانے کے لیے شور مچارہے ہیں اور یہ سب اس لیے، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

  جی ہاں میں اسی ہندوستان کی بات کررہاہوں جسکے ایک بیٹی ناحید کی پکار پر یہی حجاج بن یوسف لبیک کہتے ہوئےبجلی بن کر  اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو فوج دیکر روانہ کیا جس نے ہندوستان آکر راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی، جس نے سندھ کے علاقہ کے تمام قلعوں کو روندتا ہوا ہندوستان میں وہ مثالی رواداری قائم کی جسکی نظیر نہیں ملتی، تاریخ جاننے والے آج بھی جب سندھ کی سرزمین پر کھڑے ہوتے ہیں توانہیں محمد بن قاسم کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی صدایئں اور اللہ اکبر کے فلگ شگاف نعروں کی بازگشت سنائ دیتی ہے۔

  قارئین آج پھر ہندوستان کی کئ ایک بیٹیاں  راجہ داہر کی قید میں ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی ملی حمیت اور غیرت ذاتی مفادات کی ایسی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے جو انہیں کھل کربولنے اور  احتجاج بھی نہیں کرنے دیتی، وہ بھی ہندوستان کی ایک بیٹی تھی جس کی ایک پکار پر ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی گئی اور یہ بھی ہندوستان کی ایک بیٹی ہے جو عرصے سے اغثنی اغثنی (مدد کو آؤ) پکار رہی ہے لیکن اس کی آہیں اور سسکیاں کوئ سننے کو نہیں ہے اور بات اخباری بیانات اور طفل تسلیوں اور کینڈل مارچ سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی، کتنا فرق ہے نا "بنی یربوعکہ” قبیلے کی اس خاتون میں اورہندوستان کی بٹیوں میں،یہ سب اس لیے، کیونکہ ہمارے ہندوستان کےحکمرانوں کے سروں کی فصل پک چکی ہے۔

شدت پسند لوگ پوری بے حیائی اور انسانیت دشمنی کے ساتھ ہندوستان کو ریپ ستان بنانےمیں لگے ہوئے ہیں، جس سے سارا ملک جل رہا ہے، اور ہمارا حکمران بیرونی ملکوں میں مگن ہے  کیونکہ ہمارے حکمران کے سر کی فصل پک چکی ہے۔

  اناؤاورکٹھواجیسے واقعات موجودہ حکمراں پارٹی،بطورِ خاص “بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ “کانعرہ دینے والے پی ایم نریندرمودی کے لیے بھی شرمناک ہیں، اس سے آگے بڑھ کر مودی کابینہ کی خاتون وزراکی خاموشی بڑی معنی خیزوتشویش انگیزہے اوران کے رہنمایانہ کردارپرسوال کھڑے کرتی ہے، مودی حکومت میں دفاع امورِ خارجہ اوراطلاعات ونشریات جیسی اہم وزارتیں خواتین کے پاس ہیں، مگران وزارتوں کاکیافائدہ، جب ان عورتوں کی زبانیں ہی اپنی ہم جنسوں کے خلاف ہونے والے ظلم وزیادتی پرگنگ ہوجائیں، یہ ایک واقعہ نہیں مزید پڑھیے اگر پڑھ سکتے تو، پونے کے”کرجت” علاقہ میں آٹھ معصوم کونگے بہرے لڑکیوں نے بھی اس بد سلوکی اور بدکرداری کا سامنا کیا، کرنے والے کوئ اور نہیں بلکہ انہیں کے مربی تھے لیکن میڈیا گونگی بہری بنی ہوئ ہے، اور نہ جانے کتنی بیٹیاں کہاں کہاں درندگی کی شکار ہورہی ہے، باتیں تو بہت ہیں  لیکن میں نے اپنے آشیانے کے لیے جوچبھے دل کو وہی تنکے لیے۔

  اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہرشخص کوانفرادی طورپراپنی ذمے داری محسوس کرنی ہوگی، یہ سچ ہے کہ ابھی پورے ملک میں شدیدغم وغصہ کی لہرہے،لیکن ہم جس احتجاج میں بھی شامل ہوں وہاں ہمیں اخلاقی پہلو کو دامن گیر رکھنا ہوگا، ہمارے کسی بھی عمل سے کسی راہ گزر کو تکلیف نہ ہوں، یہی اسلامی تعلیمات کا نچوڑہے۔

  آخر میں بات وہی حجاج بن یوسف والی  کہ سروں کی فصل پک چکی ہے اور اس فصل کی کٹائی کا وقت آ گیا ہے بلکہ گزرتا جا رہا ہے۔ہندستان میں اب تو وہ وقت آیا ہے کہ آپ بدعنوان ہیں اگر نہیں ہیں تو اس کا ثبوت پیش کریں مگر میں خود تو یہ ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا اور بد عنوانی قبول کرنا آسان سمجھتا ہوں کہ زمانے کا چلن اب یہی ہے اور اس کا تذکرہ کرتے رہنا لازم ہے۔

تبصرے بند ہیں۔