معصوم شہیدہ

محمد حسن

اس کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو گرتے، دن بھر کا تھکا ماندا، شام کو گھر لوٹتا، کچھ کھانے پینے کی چاہت ہوتی اور نہ ہی بھوک کا احساس ہوتا، بجائے کسی سے کچھ کہنے سننے کہ چپ چاپ، من مارے، کوہِ الم لئے بستر پر لیٹ جاتا،اس کے اہلیہ کی کیفیت بھی ہو بہو رہتی، فطرتاَ دل کا کمزور ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے جذبات پر قابو رکھتی اور اسے تسلی دلانے کے ساتھ ساتھ حالات کی اندوہناکی سے باخبر کراتی اور اپنا خیال رکھنے پر زور دیتی لیکن وہ کہاں اس کے بہکاوے جیسی باتوں میں آنے والا تھا، اس کی تو دنیا لٹ گئی تھی، اس کا چمن ویران اور زندگی سنسان ہوگئی تھی، آسمان کے تاروں میں اسے وہ رونق دکھائی دیتی نا ہی چندا میں وہ روشنی جس کا وہ بہت بے صبری سے انتظار کیا کرتا، اس کے آنکھوں کی جلا ماند پڑ گئی تھی اور اس کا سکون کھوتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا،چاروں سمت اس کے لئے بجائے باد صبا لانے کہ غم والم کی کربناک مایوسی لاتے اوروہ بوری طرح اس سے جھلس جاتا۔

 صبح سے شام تک جنگلوں میں مارے مارے پھیرنا، پتھروں سے ٹکرانا، وادیوں سے باتیں کرنا، فضا میں سوال کرنا اور خود ہی جواب دینا، درختوں کو پکارنا اور خلا کی طرف نظر کرکے عظیم الشان ہستی کو  سوالیہ نگاہوں سےتکنا، اس کا معمول بن گیا تھا۔ اس کی راتیں بے قراری میں بسر ہوتیں اور دن بے چینی میں گزرتے، کسی پہلو وہ چین محسوس کرتا اور نہ ہی اسے آرام حاصل ہوتی، سرگرداں ، مخبوط الہواس، دیوانہ پن، آوارہ اِدھر اُدھر بھٹکتا، ہر چیز کو حیرت کی نظر سے دیکھتا اور تفتیشی جملے داغتا لیکن دن گئے کچھ حاصل ہوتا اورنہ ہی رات گزرے وہ کچھ پاتا۔جنت نما وادیوں میں اس کا قرار کھو گیا تھا، اس کی خوشی وہیں کہیں گم ہوگئی تھی، کہاں تلاش کرے وہ، کس سے پتہ پوچھے، کون اس کی رہنمائی کرے، کون ہے وہ جو اس کی اجڑی دنیا بسائے، اسے کچھ سمجھ نہ آتا، جھاڑیوں سے لے کر درخت کے سوکھے پتوں کے ڈھیر  کو ٹٹولتا  مگرکچھ ہاتھ نہ آتا۔ مندر، مسجد کا رخ کیا کچھ نہ ملا، گرجا، کلیسا کی گھنٹی بجائی کچھ نہ نکلا، وہ مایوس، غمگین، اداس، رنجیدہ چہرہ کئے، دل میں غم کا پہاڑ لئے گرتا اور سنبھلتا اور پھر بے بس ہوکر پھول کی کلیوں سے پوچھتا، تم نے دیکھا ہے اسے وہ تمہاری ہی طرح تھی، ایک نرم سی ملائم سی، ایک ہلکی سی نازک سی، ایک خوشبو سی پھوارے سی اور درختوں سے کہتا، تم نے چھپایا ہے کیا میری نور نظر کو، میرے لخت جگر کو وہ تمہارے پتوں کی طرح تھی، ہوا کے مست جھونکے کھاتی رہتی، گاتی گنگناتی رہتی، ضرور تمہارے پت جھڑ کے ڈھیر میں وہ دب گئ ہوگی، کہاں ہے وہ؟ بتاؤ  نا ! وہ میری ہزار جان ہے، لوٹا دو اسے، بدلے میں میری غلامی لے لو۔دونوں ہاتھیں کھول کر ہواؤں کوپکڑتا اور کہتا، کہاں اڑا لے گئ ہو میری نسیم سحر کو، اس کی روانی بالکل تمہاری طرح تھی، اب میں اس کے بینا اور نہیں جی سکتا، لاؤ لوٹا دو مجھے، یہ لو میں نے اپنی زندگی وار دی، لے چلو مجھے بھی جہاں لے کر اسے گئی ہو، ذرا دیکھ لوں اسے میں ، میرے من کو چین آئے، میری خواہش ادھوری ہے، میری آرزو لُٹ نہ جائے، چلو میں تمہارے ساتھ اس کے پاس چلتا ہوں ۔ تھوڑی دور جاکر اونچے، بلند وبالا پہاڑوں پر چڑھتا اور اسے آواز لگاتا کہاں ہو میری پیاری؟ اب آ بھی جاؤ، اور نہ ستاؤ، تمہارا باپ ہے ضعیف ذرا ترس اس پر کھاؤ، پھر نیچے اتر کر کہتا میں جانتا ہوں ، تم نے دشمنی نکالی ہے وہ تمہیں روندتی تھی نا، تمہیں پریشان کرتی تھی، تمہیں تکلیف دیتی تھی، تم پر کودتی پھاندتی، ہلچل مچاتی تھی، اسے تم معاف بھی کردو، یہ ہے قصور میرا، سزا اس کی مجھے تم دو، کہاں ہے وہ ؟ بتا دو، میرے پاس اسے لا دو۔ سبزہ زارسے گریہ زاری کرتا، تمہاری ہریالی کو اس کی کمی تھی کیا؟ اس کے بنا رونق تمہاری ادھوری تھی کیا؟وہ میری امانت ہے لاؤ مجھے دے دو، وہ میری دولت ہے، واپس مجھے کردو۔چرندوں کے پاس جاتا، دیکھا ہے تم نے اسے؟ تمہارے پاس وہ روز آتی تھی، تمہیں چارہ کھلاتی تھی، تمہیں دھوتی، نہلاتی تھی، تمہارے ساتھ کھیلتی کودتی اور تمہیں لوری سناتی تھی، پرندوں کو آوازیں لگاتا، ہے کیا وہ تمہارے آشیانے میں ؟تمہارے ساتھ اڑتی پھیرتی تھی، وہ تمہیں نغمے سناتی تھی، تم اڑا لے گئے کیا اسے؟ کیا تمہاری سُر پھینکی پڑ گئی تھی؟ یا تمہاری رنگت کو اس کی ضرورت تھی، کہاں ہے  وہ ؟  اے بلبل! تم جواب دو، کیا ہوگیا تمہاری آواز کو؟کیا ہوگیا تمہاری خوبصورتی کو؟ کیا ضرورت ہے تمہیں اس کی؟ چلو اب جانے دو اسے، رہا اسے کردو، دعائیں دوں گا میں ، رہوگے خوش سدا تم لوگ، اسے اب گھر جانے دو، میں وعدہ کرتا ہوں ، تمہارے پاس آئے گی، تمہارا من بہلائے گی، تمہیں وہ خوب ہنسائے گی پھر اپنے گھر وہ جائے گی۔ تتلیوں کا راستہ روکتا اور کہتا، کہاں ہے وہ، جس کا تم انتظار کرتے تھے، جس کا تم راستہ دیکھتے تھے، جو تمہارے ساتھ پھولوں پر بیٹھتی تھی، جس کے ساتھ تم قہمقے لگاتے تھے، جو تمہارا دن کٹاتی تھی، جس کی تم چاہ رکھتے تھے،جس کے بنا تم مایوس ہوتے تھے، کہاں ہیں وہ؟ کہاں ہیں وہ؟ تم سب خاموش کیوں ہو؟ اے بڑے اونچے پہاڑ !تم تو کچھ بولو، اے لمبے تناوردرخت! تم نے تو دیکھا ہوگا نا اسے، کچھ تو بولو، کہاں ہے وہ؟ کدھر گئی ہے؟ اے جنگل کی جھاڑیوں ! تمہارے تلے تو نہیں نا دبی ہے بتاؤنا مجھے، اے چرندوں ، پرندوں !، اے گل وگلشن !کہاں چلی گئی تمہاری چہچہاہٹ، کہاں کھو گئی تمہاری رونق کچھ تو بولو تم  لوگ، کیوں سکوت طاری ہے تم پر، کیا تم نے اس کے ساتھ بے وفائی کی ہے، کیا ناراض ہوکر، روٹھ کر وہ تم سے دور چلی گئ ہے، کچھ تو بتاو ٔمجھے، اے مندرومسجد کی پاک دیواروں !تم نے اس کی آہٹ سنی ہے یا اسے آتے جاتے دیکھا ہے بتادو مجھے، کہاں ہےتمہاری پاکی،کہاں چلا گیا تمہارا تقدس، کہیں تم نے اسے پامال تو نہیں کردیا نا۔

نواں دن تھا، وہ ہواس باختہ پھر رہا تھا،معول کے مطابق وہ روزانہ عہد لے کر آتا  کہ آج میں ضرور اسے کھوج کر اپنے ساتھ لاؤں گا، پھر میں سکون پاؤں گا، نیا دیپ جلاؤں گا، خوشی مناؤں گا، اس کی بیگم بھی ضد کرتی  اس کےساتھ جانے کی، اسے وہ  ڈھونڈھ پانے کی لیکن اسے مناتا، پھُسلاتا،، بہلاتا اور اکیلے ہی تلاش میں نکل پڑتا، اب وہ بالکل مایوس ہوگیا تھا، اس کا چہرا مرجھا گیا تھا،اس پر بھوک پیاس کے آثار صاف نظر آرہے تھے، وہ اندر ہی اندر درد سے ٹوٹ چکا تھا، اس کا جسم کمزور ہوچلا تھااور قوت ختم ہوچلی تھی، وہ کسی چیز سے ٹکرایا، اسے ہوش نہ رہا، اس کے پیروں تلے کچھ تھا، عجیب وہ منظر تھا،ہنگامۂ محشر تھا،زمین اشکبار تھی اور آسمان ماتم کناں تھا،سارے چرندوپرند، آب وہوا، سبزہ زار،درخت اور پتےنم تھے، درندگیت اور حیوانیت، سفاکیت اور ظلم کی مثال اس کے سامنے پڑی تھی، اب وہ ایک شہیدہ تھی جس کی وہ تلاش کرتا تھا، جسے وہ زندہ سمجھتا تھا، جس کی وہ آرزو اور تمنا رکھتا تھا، جس کو وہ دلہن بنانےکی، جسے وہ خوب سجانے کی، جسے وہ خوب خوشی دینے کی حسرت رکھتا تھا آج وہ ایک  آٹھ سال کی معصوم شہیدہ لاش کا ڈھیر بنے اس کے سامنے پڑی تھی، اس کا سر پتھر سے کچلا ہوا تھا اور انسانیت کو شرمسار کردینے والا حادثہ اس کے ساتھ  واقع ہوا تھا، جسے یہ بھی نہ معلوم تھاکہ انسانوں اور درندوں میں کیا فرق ہوتا ہے اس کے ساتھ درندوں جیسا سلوک ہوا تھا۔ ستم درستم، جسے ابھی چند سال ہوئے تھے، چاندنی رات میں آسمان کو تکتے اور ستاروں کے بیچ چھپے چاند کو چندا ماما کہتے، جو ابھی شیر خوار تھی،جس کی بیشتر غذائیں  شیر اور چاول تھیں ، جو ابھی پوری طرح سے آنکھ بھی نہیں کھول پائی تھی، جس کے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے تھے، اسے ناپاکی اور غلاظت کا ایسا شکار بنایا گیا تھا جسے دیکھ کر انسانیت دہاڑیں مار رہی تھی اور پورا عالم سوگ منا رہا تھا، آج وہ ایک معصوم شہیدہ بن کر ہمارے بیچ زندہ رہ گئی۔

تبصرے بند ہیں۔