کچھ تو غیرت کرو!

شازیب شہاب

اے مرے باغ کے عندلیبو

سنو سسکیاں ایک معصوم گل کی ذرا

گنگناؤ ذرا یہ مجسم فغاں

کچھ گھڑی ہی سہی چھیڑ دو نا ذرا

درد وغم  سے عبارت مری داستاں

تم کو میری لٹی آبرو کی قسم

کچھ تو بولو میرے حق میں تم

کچھ تو غیرت کرو

میری عصمت کے مغموم نغمے پڑھو

میرے مجروح دل کی صدا بھی  سنو

تم ہی ہو آج ضربِ کلیم

آج تم ہی  ابابیل ہو

کیا تمہیں آج دکھتا نہیں  ہے یہ ظلم و ستم

ہوگئے تم بھی کیا بے حسوں کی طرح

یا تمہیں موت کا خوف ہے

یا کہ دنیا کی الفت میں تم کھو گئے ہو کہیں

کچھ تو غیرت کرو

کیا نہیں تم کو تہذیبِ دیر و حرم کا لحاظ

مذہبی رنگ دے کر مری خوں چکاں روح کو

مت کرو اور مجھے  داغدار

کر کے یہ قلب جوئی سیاست بھری

مت کرو اور مجھے شرم سار

کچھ تو غیرت کرو

تبصرے بند ہیں۔