ہندوستانی اور پاکستانی صحافت کا حال

عبدالعزیز

غیر منقسم ہندستان میں صحافت اور صحافیوں کا مقابلہ دنیا کے دیگر ممالک جہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط تھیں اور پریس آزاد تھا کیا جاتا تھا۔ ہندستان کے صحافیوں اور اخبارات کے مالکان کی ایک ایسی تعداد تھی جو حکومت یا کسی اور طاقت او ر قوت کے دباؤ کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ آزادانہ طور پر اپنے قارئین کو حالات سے پورے طور پر آگاہ کرتے اور بغیر کسی خوف و خطر کے حالات کا تجزیہ پیش کرتے۔ یہ کارنامہ غلام ہندستان کی سر زمین پر اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کے صحافیوں اور اخبارات نے سر انجام دیا۔ حقیقت میں اس وقت اخبارات اصول پسندوں اور اونچی اور اعلیٰ شخصیتوں کے ہاتھ میں تھا جو حق گوئی کیلئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار تھے۔ آزادی کے بعد ایسے بڑے، بزرگ اور قابل قدر صحافیوں کی ٹیم آہستہ آہستہ افق صحافت سے کم ہوتی گئی۔ اب تو ایسے صحافی اور اخبارات انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اور ان کا قحط الرجال ہوتا جا رہا ہے؛ حالانکہ اخبارات کی اشاعت کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ہمارے اکثر اخبارات ایسے ہیں جو بے اصولی کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں۔ بے اصولے پن کی چھاتیوں سے دودھ پی کر پلے اور بڑھے، بے اصولے پن کی انا نے انھیں انگلی پکڑ کر چلنا بھی سکھایا۔ مراد یہ ہے کہ ایک نیا اخبار جب منظرعام پر آتا ہے تو شاید ہی وہ کسی اصول یا اعلیٰ مقصد کی خاطر باقاعدہ اسکیم بناکر نکالا جاتا ہے۔ عموماً اخبار اور مالک اخبار کا مقصد کاروباری ہوتا ہے اور حکومت اور طاقت ور لوگوں سے قربت پیدا کرنے کی کوشش ہوتی ہے ایسے اخبار شروع سے صحافت کے بجائے تجارت کرتے ہیں۔ صحافت سے ان کا دور دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ صحافت کے نام پر تجارت کرتے ہیں۔
آزاد ہندستان اور آزاد پاکستان کی صحافت کا حال پہلے سے بہت بدترہے، اب کم ہی صحافی اور اخبارات دونوں ملکوں میں رہ گئے ہیں جو حق گوئی، بیباکی اور بے خوفی کا مظاہرہ کرتے ہوں۔
ہندستان کے اخبارات میں اس وقت ’دی ٹیلیگراف‘ بے خوف و خطر انفارمیشن دے رہا ہے اور اپنی رائے اور اپنا تبصرہ سچائی اور صداقت کے ساتھ پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ کچھ اور بھی اخبارات ہیں۔
چند دنوں پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کی کوزی کوڈ والی تقریر کے ایک حصہ کو جس میں مسلمانوں کی تطہیر اور صفائی کی بات کہی گئی تھی ’ٹیلیگراف‘ نے اپنے اداریہ میں بیباکی سے تقریر کے اس حصہ کو زبردست تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ مسلم اقلیت سے نفرت اور کدورت کا مظاہرہ ہے جو سنگھ پریوار کی سرشت میں داخل ہے، اس کی جڑیں ان کے پریوار میں اس قدر پیوست ہیں کہ ان سے ابھرنا ان کا مشکل ہے۔ مسٹر نریندر مودی اپنے پریوار کے سب سے بڑے ترجمان ہیں جو مسلمانوں کی زندگیوں کی تطہیر اور صفائی کرکے اپنی پرانی سنسکرتی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اور ہندوتو کے خول میں لانا چاہتے ہیں۔
آج ’دی ٹیلیگراف‘ نے پاکستان کے ایک اخبار ’ڈان‘ (طلوع صبح) جس کا اجراء دہلی سے محمد علی جناح نے برطانوی حکومت کے عہد میں ویکلی کے طور پر کیا تھا اور پھر جلد ہی اسے روزنامہ میں تبدیل کردیا۔ اب یہ اخبار کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ بیباکی اور حق گوئی کا جو روز اول سے مظاہرہ کیا ہے اس کے کردار اور روح صحافت میں باقی ہے۔ 6 اکتوبر کو اس کے ایک نامہ نگار سائے ریل المیدیا نے پاکستانی حکومت کے سینئر اور خفیہ محکمہ کے آفیشیل کی ایک میٹنگ میں حکومت کے خارجہ سکریٹری کی پاکستان کو دنیا بھر میں الگ تھلگ ہوجانے کی رپورٹ پیش کرنے پر جس کی بنیاد پر یہ بحث کی گئی کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے، حکومت پاکستان چراغ پا ہوگئی۔ اس رپورٹ کو حکومت کے ترجمان نے ملک کے مفاد میں نقصان دہ بتایا اور نامہ نگار کو ایسے لوگوں کی فہرست میں شامل کر دیا جو حکومت کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔ ’ڈان‘ اخبار کے ایڈیٹر نے حکومت پاکستان کے دباؤ سے اوپر اٹھ کر 10 اکتوبر کی اشاعت میں حکومت کے رد عمل پر بیباکی کے ساتھ تبصرہ کیاجس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے ؂
آئین جوانمردی حق گوئی و بیباکی ۔۔۔ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ایڈیٹر نے اپنے تبصراتی نوٹ میں لکھا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اخبارات کی تاریخ تھی کہ وہ صحافت کے اصولوں پر ڈٹے رہتے تھے اور ان کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ عوام و خواص کو معروضی انداز سے مکمل طور پر بغیر کسی خوف و خطر کے حالات حاضرہ سے آگاہ کرتے تھے، اپنا تبصرہ اور تجزیہ نڈر ہوکر پیش کریں۔ اس اخبار نے گورنمنٹ اور انٹلیجنس آفیشیل کے درمیان غیر معمولی میٹنگ جس میں خارجہ سکریٹری نے پاکستان کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی بات کی اور اس بحث کو اجاگر کیا جس میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے روک تھام کے طور طریقہ پر بات چیت ہوئی۔ ایڈیٹر نے کہاکہ اس خبر کو مختلف ذرائع سے صحافت کے اصولوں پر پرکھنے اور تصدیق کرنے کے بعد ہی اخبار کے صفحات پر پیش کیا گیا۔ ایڈیٹر نے نامہ نگار کی رپورٹ کی پوری ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان و اظہار کیا اور لکھا کہ ’’قومی مفاد‘‘ کی تعریف یا Difinition اپنے آپ کو بچانے کیلئے بدلتے رہتے ہیں۔ اخبار مذکور نے امریکہ کے اخبار ’پنٹاگون‘ (Pentagon) کا حوالہ دیا کہ اس نے حکومت امریکہ کی ویتنام کی پالیسی کی جب جنگ جاری تھی تو سخت مخالفت کی اور اسے امریکہ کی زیادتی اور ناانصافی سے تعبیر کی۔ عراق کے ابو غریب جیل میں امریکی فوجیوں نے عراقی قیدیوں کے ساتھ وحشیوں اور جنگلی جانوروں جیسا سلوک کیا جس کی تصویر کو اخبار مذکور نے طشت ازبام کیا۔ ڈان نے یہ بھی لکھا کہ صحافت کے ایک حصہ نے کس طرح آزاد اور بیباک صحافت کیلئے ایماندارانہ جدوجہد کی۔ آخر میں حکومت سے اخبار نے مطالبہ کیا کہ اس کے نامہ نگار پر سے پابندی ختم کی جائے اور اس کے وقار اور عزت کو بحال کیا جائے۔
انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کلکتہ نے Dawn اخبار کی زبردست پزیرائی کرتے ہوئے اپنے ملک کی میڈیا کو سبق لینے کی تلقین کی ہے۔ پاکستان کی ایسی صحافت کو سلام کرتے ہوئے اس کے حریف اخبار ’دی نیشن‘ (The Nation) کی بھی تعریف کی ہے جو ’ڈان‘ کی رپورٹ اور تبصرے کی تائید و حمایت کی ہے۔ ٹیلیگراف کے ہندستان کی میڈیا کا حال برا بتایا ہے اور سابق وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ پی چدمبرم کی اس بات کو صحیح قرار دیا ہے کہ میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ہے۔NDTV کے رویہ اور کردار کی مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ NDTVنے راہل گاندھی کے اس بیان کو جس میں انھوں نے نریندر مودی کو فوجیوں کے خون کی دلالی کا الزام عائد کیا ہے، Coverage دینے سے پرہیز کیا اور چدمبرم کی پریس کانفرنس کو بھی اپنے چینل میں جگہ دینے سے راہ فرار اختیار کیا جبکہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی پریس کانفرنس کو مکمل Coverage دیا۔ ٹیلیگراف نے لکھا ہے کہ سامعین اور ناظرین کو تعجب ہے کیا حکومت نے جنگ کا اعلان کر دیا ہے یا غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جس کا جواب اس چینل کے پاس نہیں ہے۔
"Viewers were left wondering if the country had declared war or was under some new kind of Emergency – but no answers were forthcoming. The bewilderment only got confounded the next day when the channel broadcast live BJP president Amit Shah’s press conference where he spoke at great length on national security. Shah, it might be added, heads a political party and not some army or paramilitary unit.”
’دی ٹیلیگراف‘ نے پی چدمبرم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ آخر یہ ہندستانی میڈیا پر حکومت کا دباؤ یا مطالبہ ہے کہ حکومت کی زبان اور لب و لہجہ میں میڈیا بات کرے، رپورٹ پیش کرے اپنی شناخت اور تشخص کو فنا کر دے۔
"Chidambaram is right. No one knows whether the powers that be made any demand, no one knows if the Indian media has been asked not to ask any questions or has chosen on their own to become a sword arm of the government even when there is no official war, no one knows whether the external affairs ministry forbade Indian channels to take up Pakistan’s offer to take some of them to their side of the LoC – just as they took western journalists to bolster their claim that no surgical strikes had taken place – or whether the channels unilaterally turned down such an "unpatriotic” assignment.”
"No one knows any more the difference between censorship and self-censorship, between truth and propaganda, between journalism and jingoism.” (The Telegraph. 13th October 2016)
روزنامہ ٹیلیگراف نے آخر میں سوال کیا ہے کہ کیا اندرا گاندھی کی حکومت کا زمانہ واپس آگیا ہے؟ اندرا گاندھی نے عدالت کیلئے Committed Judiciary کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ کیا ہم لوگ Committed Media کے دور میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ حکومت نے ایمرجنسی جیسے حالات کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ہندستان کے ایک مشہور صحافی نے لکھا ہے ’’ہمارے فوجی جوان ہندستانی سرحد پار کرکے دہشت گردوں کے کیمپوں کو تباہ و برباد کرکے سلامتی کے ساتھ واپس آگئے، نہ کوئی زخمی ہوا اور نہ مرا لیکن ہندستانی میڈیا زخمی اور لہولہان ہوگئی۔ اس کی صدائے حق پر زبردست اثر پڑا۔ کچھ ایسا اثر جس سے اس کی غیر جانبداری اور ایمانداری پر حرف آتا ہے‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔