ہندوستانی سماج کی ترقی بھائی چارگی میں مضمر ہے!

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

 اس وقت ہندوستانی سماج میں بے چینی اور عجیب طرح کے اذیتناک دور سے گزررہا ہے۔  اگر ملک کے منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ کہیں مسلم اقلیت کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے تو کہیں دلتوں پر آلام و مصائب کی نا ختم ہونے والی رات شروع ہوچکی ہے۔  ادھر مہنگائی نے انسانی زندگی کو بری طرح متائثر کر رکھا ہے۔  افسوس کی بات یہ ہیکہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں مذہب اور فرقہ پرستی کو بنیاد بناکر نوع انسانیت کو تباہ کرنے کی سازش حکومت کی پشت پناہی میں چل رہی ہے۔  اسی طرح سماج دشمن عناصر آئے دن ملک میں اشتعال انگیز بیان دیکر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو داغدار کررہے ہیں طرفہ تماشہ یہ ہیکہ ان تمام شرمناک اور خوفناک حالات کو قابو میں کرنے کے لئے ریاستی اور مرکزی حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؛  بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ حکومتوں  کے ایماء پر ہی انسانیت سوز مظالم انجام دیئے جارہے ہیں؛  اس لئے آج ہندوستانی سماج کی ہم آہنگی اور اس کی تہذیب و شناخت کو باقی رکھنے کے لئے لازمی ہیکہ ہم ملک میں مسلسل انسان دوستی اور بھائی چارگی کو فروغ دینے والے اعمال کریں؛   اس وقت ہندوستان میں  سیاسی ماحول عروج پر ہے اور اس کے لئے سیاسی جماعتیں پورے طور پر کمر بستہ ہیں-

ادھر حکمراں جماعت کے سربراہ بڑے غرور سے کہ رہے ہیں کہ ہم ملک پر حکومت پچاس سال تک کرینگے ان کہنا یہ بھی ہے کہ ہجومی تشدد جیسے دلدوز سانحات بھی ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے وہیں انہوں نے اپنے بیان میں یہ تک کہدیا کہ کسی بھی صورت میں بنگلہ دیشیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔  ان کے اس بیان سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ وہ اگلا لوکسبھا الیکشن ہندومسلم نفرت کے بل بوتے پر جیتنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔  اس ضمن میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر سیکولرجماعتوں کا اتحاد ہوگیا اور اس میں استقامت برقرار رہی تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اب کا پچاس برس تک حکومت کرنے کا خواب کبھی بھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو پائے گا  –

ہندوستانی معاشرہ مذہبی تنوع اور تکثیریت جیسا امتزاج رکھتا ہے اگر ملک کے  باشندوں میں باہم ایک دوسرے کے دین و مذہب کو لیکر غلط تصور پیدا ہونے لگے اور مذاہب کا احترام کرنے کے بجائے دوسرے کے دین کو سب و شتم کرنے لگیں تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ اپنی صدیوں پرانی تہذیب و تاریخ کو بے حیثیت بنانے پر تلا ہوا ہے۔  اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ہندوستان میں ہمیشہ ایسی سعید روحیں رہیں ہیں جنہوں نے وطن میں مذہبی ہم آہنگی اور مذہبی احترام کو فروغ دیا ہے اس سلسلہ میں بر صغیر میں سب سے نمایاں نام بانئی دانشگاہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی  سر سید کا ہے  انہوں نے مذہبی اقدار کو فروغ دینے کے لئے کئی کتابیں تحریر کیں بائبل کی تفسیر تبیین الکلام،  تحقیق لفظ نصاری  اور اسی طرح رسالہ احکام طعام مع اہل کتاب ؛ واضح رہے کہ سرسید نےان کتابوں کے ذریعہ ملک میں انسان دوستی اور بقائے باہم کے درخشاں اصول کع مزید تابناک بنایا۔

  لھذا آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں بھائی چارگی اور رواداری کی جڑیں مستحکم کیجائیں اور باہم ایک دوسرے کے دین دھرم کا احترام کیا جائے جب تک ہر ہندوستانی کے دل میں   یہ احساس موجزن نہیں ہوگا اس وقت تک نہ ہندوستانی معاشرہ سے بد امنی دور ہوگی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔  کیونکہ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ  کوئی بھی ملک سماج اور معاشرہ اسی وقت  عروج و ارتقاء کی منازل طے  کرتا ہے جب  کہ وہاں کی عوام باہم ادیان کا احترام کرے  اور دیگر مذاہب کے افراد سے انسانیت کی بنیاد پر رشتہ استوار کرے۔  اس لئے ریاستی اور مرکزی حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہیکہ ملک میں انسانیت  اور مذاہب کا احترام باقی رکھنے کے لئے  انٹر فیتھ ڈائیلاگ اور مکالمہ بین المذاہب کے مراکز قائم کئے جائیں؛  جب ملک میں مفاہمت بین المذاہب کا روشن سلسلہ شروع ہوگا تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے  ملک کی تہذیبی اور آئینی قدروں کا بھی تحفظ ہوگا۔

باہم ادیان کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے  سماج میں کئی طرح کی برائیاں جنم  لے لیتی ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان یہ  ہوتا ہے کہ معاشرہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگتے ہیں ؛  جو  ملک اور قوم کی سلامتی کے لئے مضر ثابت ہوتے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہیکہ اب   نام نہاد مذہب کے رکھوالوں نے  ہندوستان  جیسے تکثیری سماج میں   مذہب کے نام پر؛ قوم اور برادری کی بنیاد پر۔  نسلی تفاخر و امتیاز کے بل بوتے پر،  ملک کو توڑنے کی مستقل سازش رچی جارہی ہے۔  اسی پر بس نہیں بلکہ افسوس تو اس بات کا بھی ہےکہ اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو زدو کوب کیا جارہا ہے- حتی کہ گزشتہ ایام میں ملک کے طول وعرض میں   کئی ہلاکتیں واقع ہوچکی ہیں ان ہلاکتوں کے پس پردہ جو بھی وجوہات رہی ہوں لیکن فسادیوں کے لئے صرف اتنا کافی تھا کہ وہ مسلمان ہے؛  گویا ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عوام کو اکساتا رہتا ہے اور عوام کے ذہن ودماغ میں مذہب اسلام کے خلاف نت نئی چیزوں کی آبیاری کررہا ہے؛  اس لئے ایسے لوگوں اور ان کی منفی فکر و خیال سے احتراز کرنا ضروری ہے  نیز ہندوستانی معاشرہ کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اب ضرورت ہیکہ ملک کے اندر مذہبی رواداری اور انسانی ہمدردی کو فروغ دیا جائے اور جو لوگ ملک میں مذہب کے نام پر عوام کو ورغلا رہے ہیں ان سے ہوشیار رہا جائے؛ اگر ملک میں کہیں بھی مذہب کی بنیاد پر تنازع ہوجاتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کو روکنے کے لئے صوبائی حکومتیں اور خصوصا مرکزی حکومت سخت کاروائی کرے نیز مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے حکومت اور پولس مخلصانہ و ایماندارانہ جتن کرے تاکہ کوئی بھی ہندوستانی باشندہ ہجومی تشدد کا شکار نہ ہو سکے۔

اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی گوش گزار کرتا چلوں کہ ہندوستان میں بیشتر افراد ایسے ہیں جنہوں نے باہم ادیان کا نہ صرف احترام کیا ہے بلکہ اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کی توصیف و توثیق میں کتابیں تک لکھی ہیں؛  مالک رام؛ شردھے پرکاش،  سندر لال، تارا چند؛  اور سوامی لکشمن پرشاد وغیرہ نے اسلام اور رسالتمآب پر کتابیں لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات نوع انسانیت کی فلاح کی ضامن ہیں۔ اسی طرح بہت سے مسلم اسکالر نے بھی ہندوازم اور دیگر مذاہب کے سلسلہ میں کافی لکھا ہے،  ابوریحان البیرونی؛ ابن بطوطہ،  وغیرہ ضمن میں یہ بھی بتادوں کہ راقم بھی اس وقت” اسلام اور ہندو ازم مہں یکسانیت کے تصور ” کے موضوع پر یوجی سی کے پروجیکٹ پر کام کررہا ہے۔

آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسلام اور اور مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کا ہر ہندو نہیں ہے، بلکہ بہت سے افراد کا خیال اور فکر مثبت ہے ایسے نازک وقت میں ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نیز اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے ہیکہ ملک میں افہام و تفہیم پر زیادہ زور دیا جائے تاکہ ہندوستانی سماج میں ایک دوسرے کے لئے نفرت نہیں بلکہ محبت کی فضا ہموار ہوسکے جب ملک میں امن؛  سکون  اور محبت کا فروغ ہوگا تو یقینا ہندوستا ن مضبوط و مستحکم ہو سکے گا –

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔