ہندوستان: ابتدائی مسلم مورخین کی نظروں میں

سہیل انجم

جب بھی بر صغیر کا نام لیا جاتا ہے تو ہندوستان کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ 1947 کی تقسیم سے قبل یہ پورا علاقہ ایک تھا اور ہندوستان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کاابتدائی نام ’’ہند‘‘ ہے۔ ہندوستان بعد میں پڑا۔ برصغیر پندرہ لاکھ مربع میل سے بھی زیادہ علاقے پر محیط ہے۔ اس کے مغرب میں ہندوکش اور بلوچی پہاڑیوں کا سلسلہ واقع ہے اور مشرق میں برما کی پہاڑیاں ہیں۔ ان دونوں کناروں کو ملاتے ہوئے شمال میں عظیم کوہ ہمالہ پتھر اور برف کی دیوار بن کر کھڑا ہے جو اس وسیع ملک کو قطب شمالی کی برفیلی ہواؤں اور شمال کے حملہ آوروں سے محفوظ رکھتا ہے۔ قدیم زمانے میں جب بھی کوئی قوم یہاں آتی تو اس کی وسعت، زرخیزی اور اس کی دولت مندی دیکھ کر ششدر رہ جاتی تھی۔ جو بھی قوم آئی اس نے سب سے پہلے اپنے سامنے دریائے سندھ کی عظیم الشان وسعت پائی۔ شمال سے جنوب مغرب کی طرف بہنے اور بحیرہ عرب میں گرنے والے اس دریا نے نووارد سنسکرت بولنے والے آریاؤں کو حیرانی و خوف و ہراس سے پکارنے پر مجبور کر دیا ’’سندھو!!!‘‘۔ اگر چہ انھوں نے اس طرح سنسکرت زبان میں صرف ’’دریا‘‘ کہا تھا مگر اس خطے کا نام ہی ’’سندھ‘‘ پڑ گیا۔ بعد میں اس کے کئی نام پڑے۔ جیسے کہ یونانیوں نے انڈوس، رومنوں نے انڈس، عربوں اور ایرانیوں نے ہند اور یورپ والوں نے انڈیا کہا۔

یہ خلاصہ سید عثمان شیر کی کتاب ’’ہندوستان: ابتدائی مسلم مورخین کی نظروں میں ‘‘ سے پیش کیا گیا ہے۔ عثمان شیر بہار کے باشندہ اور مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ بعد میں وہ پاکستان چلے گئے جہاں انھوں نے بہت اہم منصبوں پر خدمات انجام دیں۔ ان کی یہ کتاب پہلے انگریزی میں آئی تھی جسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی افادیت کے پیش نظر ملک کے معروف دانشور، صحافی، انگریزی اخبار ملی گزٹ کے ایڈیٹر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے اشاعتی ادارے ’’فاروس میڈیا، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی‘‘ نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔

اس کتاب میں ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ سے لے کر ا س کے شہروں ، دریاؤں ، آب و ہوا، حیوانات، پیداوار، پھل پھول، باشندے اور بود و باش، مذہبی فلسفہ، عقائد و رسوم و رواج، اس کی ثروت مندی، تہذیب و ثقافت، ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور دیگر بہت سی چیزوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

کتاب سے اس الزام کی ترید ہوتی ہے کہ مسلم بادشاہ ہندووں کا مذہب تبدیل کراتے تھے۔ ’’سندھ آنے والے عرب ہندووں پر شدت پسند نہیں کرتے تھے۔ کافروں کو قتل کرنے یا ان کا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے انھیں ذمی کا درجہ دے دیا گیا جس کے لیے ہندووں پر جزیہ کی ادائیگی لازم ہو گئی۔ ہندووں کی مذہبی کتابوں کو متبرک مانتے ہوئے ان عربوں نے سندھ کے ہندووں کو بھی اہل کتاب کا مرتبہ دے دیا‘‘۔

یہ کتاب قرون وسطیٰ کے ہندوستان کی معاشرتی و ثقافتی تاریخ بیان کرتی ہے۔ اس کی بہت خاص بات یہ ہے کہ اس میں جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں وہ سب مسلم مورخین کی کتابوں سے اخذ ہیں۔ ان کتابوں میں شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی بابر نامہ، شہنشاہ نور الدین محمد جہاں گیر کی تزک جہاں گیری، ابو ریحان البیرونی کی الہند، مرچنٹ سلیمان کی سلسلۃ التواریخ، چچ نامہ یا تاریخ ہند، شرف الدین علی یزدی کی ظفر نامہ، پروفیسر محمد حبیب کی پالیٹکس اینڈ سوسائٹی ان میڈیول پیریڈ، احمد ابن یحییٰ ابن جابر البلاذری کی فتوح البلدان، امیرتیمور کی تزک تیموری یا ملفوظات تیموری، ابو نثر محمد ابن محمد الجبار العتبیٰ کی تاریخ یمنی یا کتاب الیمنی، امیر خسرو کی تغلق نامہ، رشید الدین کی جمیع التواریخ او رابن بطوط اور کچھ غیر مسلم مورخین کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔

 مسلم مورخین کی کتابوں کے مطالعہ سے مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہندوستان کے بارے میں ان کے بیانات میں عشق و محبت ہے جبکہ دوسروں کے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار ہوتا ہے۔ کتاب کے مطابق یہا ں کے باشندے مختلف برفانی ادوار کے درمیان دو لاکھ سے چار لاکھ سال قبل مشرقی اور وسطی ایشیا سے ہمالہ اور ہندوکش پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے یہاں آئے تھے۔آریاؤں کے یہاں قدم جمانے سے قبل دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک دریائے سندھ کے آس پاس موجود تھی جس کو ہم وادی سندھ کی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ تہذیب بر صغیر ہند کی تاریخ میں ایک انمول ہیرے کی مانند جگمگا رہی ہے۔ اس کا دورانیہ تقریباً دو ہزار برسوں کا ہے۔ یہ تہذیب اس وقت دریافت ہوئی جب 1920 کی دہائی کے اوائل میں شمال مغربی ہندوستان میں ، جو اب پاکستان کا حصہ ہے، آثار قدیمہ کی کھدائی دو مقامات موہن جودڑو اور ہڑپا میں ہوئی۔ وادی سندھ کی تہذیب کب شروع ہوئی اس بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن زیادہ تر مورخین کو یقین ہے کہ 3500قبل مسیح کے لگ بھگ اس کا آغاز ہوا۔

یوں تو یہ پوری کتاب قابل مطالعہ، دلچسپ اور معلومات افزا ہے لیکن اس کا دوسرا باب ’’باشندے اور بود و باش‘‘ راقم کو زیادہ پسند آیا۔ اس میں برہما او رمنو کے ذکر میں لکھا ہے کہ ’’بائبل میں مذکور طوفان نوح کے زمانے میں دنیا کو ایک عظیم طغیانی سے واسطہ پڑا تھا۔ پُران کی روایتوں کے مطابق برہما کے بیٹوں منو سوام اور بھووا کے خلف منو دیواسوتا نے جبکہ اس کی حکمرانی تھی، ایک بار ایک چھوٹی سی مچھلی پکڑی مگر اس پر رحم کھا کر پانی میں واپس چھوڑ دیا۔ غالباً وہ وشنو کی اوتار تھی۔ عظیم طوفان جب آنے والا تھا تو اس ننھی مچھلی نے منو کو خبردار کر دیا اور ساتھ میں نصیحت کی کہ وہ ایک کشتی بنا لے۔ بہر کیف اس کشتی میں وہ داخل ہو گیا اور آخر میں وہ کشتی شمال میں پہاڑ کی چوٹی پر جا رکی۔ منو دیواسوتا تنہا بچ گیا اور اس طرح انسانی زندگی کا سلسلہ ناپید ہونے سے رہ گیا۔

واضح رہے کہ طوفان نوح کے بارے میں بھی تقریباً ایسی ہی تفصیلات آئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جا کر ٹکی تھی۔ جو ان پر ایمان لائے تھے وہ اس کشتی میں سوار ہو گئے تھے اور جو ایمان نہیں لائے تھے وہ طوفان کی نذر ہو گئے تھے جن میں نوح علیہ السلام کا نافرمان بیٹا کنعان بھی تھا۔

 کتاب میں ہندووں اور مسلمانوں کے انداز بود و باش اور عقائد میں فرق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مصنف لکھتے ہیں کہ ہندو پگڑی کو پاجامے (دھوتی) کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جو کم لباس پہننا چاہتے ہیں وہ دو انگل چوڑے کپڑے کے ٹکڑے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ جس کو وہ دو دھاگوں سے جانگھ کے اوپر باندھ لیتے ہیں۔ لیکن جو زیادہ کپڑے پہننا چاہتے ہیں وہ اتنے زیادہ کپڑوں کا پاجامہ پہنتے ہیں کہ کئی پلنگ پوش اور زین کے کھیس کے لیے کافی ہوں۔

گجرات کے کھانے کی خاص چیز باجرا کی کھچڑی ہے۔ اس کو وہ لذیذہ بھی کہتے ہیں۔ شہنشاہ نور الدین محمد جہاں گیر نے تزک جہاں گیری میں لکھا ہے کہ چونکہ میں نے پہلے اسے کبھی نہیں کھایا تھا اس لیے میں نے حکم دیا کہ وہ اس کو پکا کر میرے پاس لائیں۔ اس کی خوشبو اچھی ہے اور یہ مجھے موافق آیا۔ میں نے حکم دیا کہ پرہیز والے دن جب میں گوشت سے بنے سالن نہیں کھاتا ہوں ، وہ میرے لیے اکثر یہ کھچڑی لایا کریں۔

کتاب میں برہمنوں کا بطور خاص ذکر ہے۔ ان کی علمیت اور اسی کے ساتھ برادری کی بنیاد پر خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنے کی ان کی روایت کا بھی ذکر ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ مذہب کے بھی گرویدہ ہیں اور سائنس کے بھی آدمی ہیں۔

زبان کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ہند کی زبان عربی کی طرح ہے۔ اس طرح کہ دونوں میں کسی کو بھی مرکب منظور نہیں۔ اگر عربی میں قواعد اور ترکیب نحوی ہیں تو ہندی میں ان سے ایک حرف بھی کم نہیں۔ یہاں کی مختلف زبانوں کے ذکر میں سنسکرت کا خاص طور پر ذکر ہے۔ اسے دوسری زبانوں کے مقابلے میں معتبر بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کو سارے برہمن استعمال کرتے ہیں۔ پرانے وقتوں سے اس کا نام سنسکرت ہے مگر عام آدمی اس کو بالکل نہیں جانتا۔

کتاب میں ہندوستان کے مذہبی فلسفے سے بھی بحث کی گئی ہے۔ وشنو سہشرانامہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’’ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جو ابد سے ہے اور ازل تک رہے گا۔ لا انتہا ہئیت ترکیبی والا، بے اندازہ استحکام کا آقا، لامحدود بصیرت کا مالک، عالم مطلق، اپنے بازووں میں سب کو تھامے ہوئے، ان گنت اوصاف والا، ساری زندگیوں کا ابدی شاہد، زمانے وقت اور گزرتے دنوں کو دائمی طور پر پکڑے رہنے والا۔ ہماری بندگی اسی کے لیے ہے‘‘۔

سیر کمار مترا ’’دی ویژن آف انڈیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہندو مذہبی فلسفہ منطق سے پُر ہے۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ہر شے میں خدا کا عنصر شامل ہے۔ ابد میں کچھ نہیں تھا سوائے خدا کے۔ اور عدم وجود سے عالم وجود میں وہ جو کچھ بھی لاتا ہے تو لازم ہے کہ ان پر اسی کا جز ہوگا‘‘۔ اس تسلسل میں منصور حلاج کے نعرہ انا الحق اور غالب کے تین اشعار بھی پیش کیے گئے ہیں۔

یہاں مصنف کتاب کی جانب سے عقائد کے سلسلے میں وضاحت ہے اور خدائے تعالیٰ کی حیثیت، حساب بعد الموت اور عقائد سے متعلق دیگر کچھ باتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں مسلمانوں کا عقیدہ کیا ہے۔

اسی طرح مادہ، روح، تناسخ یا آواگون اور عقائد سے متعلق دیگر کئی باتوں کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔

قدیم ہندوستان میں کن جانوروں کو ہندو مار کر کھاتے تھے اور کن کی پوجا کرتے تھے اس کا بھی ذکر ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ ہندو گائے کے پیشاب کی چسکی لگاتے ہیں لیکن اس کا گوشت نہیں کھاتے۔ وہ گائے کو پوجتے ہیں اور اس کے گوبر سے دسترخوان بناتے ہیں۔ (ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں گاؤں میں گوبر سے مٹی کے فرش اور دیواروں کی لپائی دیکھی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم گھروں میں بھی گوبر سے لپائی ہوتی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس سے صفائی ستھرائی رہتی ہے اور دھول مٹی نہیں جمنے پاتی)۔

کتاب کے آخر میں سترہویں صدی کے چند یوروپی سیاحوں کے بیانات پیش کیے گئے ہیں اور آخر میں حوالہ کی کتابوں اور ان کے مصنفین کا مختصر تعارف بھی دیا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر 360 صفحات پر مشتمل یہ کتاب انتہائی دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ اس کی قیمت تین سو روپے ہے اور اسے ’’فاروس میڈیا اینڈ پبلشنگ پرائیویٹ لمٹیڈ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ مگر، نئی دہلی‘‘ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ رابطے کا نمبر: 09818120669, 011-26947483 ہے۔

تبصرے بند ہیں۔