ہندوستان میں اسلامی فائنانس کا معرکہ

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

صفحات: 296
قیمت: 300روپے

ناشر: انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس، نئی دہلی
رابطہ: ایچ عبد الرقیب
ای میل: [email protected]
موبائل: 9444075501۔ 91+

عبدالرقیب صاحب سے میں نے عرض کیا کہ انسان کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کے لئے تعلیم، تلقین اور ترغیب کی ضرورت نہیں۔ جس طرح کھانے، پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی، ہر انسان خود آمادہ رہتا ہے۔ اسی طرح کمانے اور مال جمع کرنے کے لئے وعظ و تلقین کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس میدان میں کیا حلال ہے اور کیا حرام ؟ کن ذرائع سے کمایا جائے اور کن ذرائع سے نہ کمایا جائے؟ لیکن عبدالرقیب صاحب میری بات پر توجہ نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ مسلمان معاشی میدان میں بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے زہد اور فقر کی اتنی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ مال کمانے پر دھیان نہیں دیتے۔ اس لئے کسبِ معاش پر زور دینے کی ضرورت ہے۔

ایچ، عبد الرقیب صاحب جماعت اسلامی ہند کی سرپرستی میں قائم ‘ انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس’ نئی دہلی کے سکریٹری ہیں۔ ہر وقت متحرّک اور رواں دواں رہتے ہیں۔ تواضع اور خاک ساری ان کی پہچان ہیں، لیکن وہ علمی شخصیت کے بھی مالک ہیں۔ اسلامی معاشیات اور فائنانس کے میدان میں بہت سرگرم ہیں اور عملی تجربات بھی رکھتے ہیں۔

عبدالرقیب صاحب ہندوستان میں اسلامی فائنانس کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اور خاص طور پر مغربی ممالک کے بینکوں میں ‘ اسلامی ونڈوز ‘ کھل گئے ہیں۔ ہندوستان کے اربابِ حَلّ و عقد کو بھی اس کا قائل کیا جا سکتا ہے۔ عبد الرقیب صاحب میرے اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ دنیا کے تمام ممالک میں اسلام کے اجتماعی نظام کے تمام پہلو اعتراض، تنقید اور دشمنی کی زد پر ہیں تو اسلام کے معاشی نظام سے ہی ان کو اتنی دل چسپی اور محبت کیوں ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا کے سرمایہ دار ہر حال میں پیسہ سمیٹنا اور گھسیٹنا چاہتے ہیں، چاہے وہ سود کے نام پر ملے یا اس پر ‘غیر سودی’ کا لیبل لگا دیا گیا ہو ؟ میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے وہ بس یہ کہتے ہیں کہ اگر دنیا اسلام کے معاشی نظام پر عمل کرنے کے موڈ میں ہے تو ہم کیوں نہ اسے رہ نمائی فراہم کریں؟

کچھ عرصہ قبل ہندوستان میں اسلامی فائنانس کا معاملہ زیرِ بحث آیا تھا۔ حکومتِ ہند کے پلاننگ کمیشن کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی میں اسلامی بینکاری کی سفارش کی گئی تھی۔ ریزرو بینک کی ایک کمیٹی نے بھی بینکوں میں اسلامی ونڈو کی سفارش کی تھی۔ پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انشورنس کی رپورٹ میں ‘تکافل’ کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ لیکن معلوم نہیں کیوں، حکومت کے بعض ذمہ داروں کے اشارے پر اچانک پوری بساط سمیٹ دی گئی۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل کیرلا ہائی کورٹ میں اسلامی سرمایہ کاری کے موضوع پر شریعت اور سیکولرزم کی دل چسپ بحث سامنے آئی تھی۔ فریقین کے دلائل تفصیل سے سننے کے بعد کیرلا ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں اسلامی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ عبدالرقیب صاحب ان تمام معاملات میں سرگرم رہے۔ انہوں نے حکومت کے ذمہ داروں، پارلیمنٹ کے ارکان، ججز اور ماہرینِ معاشیات کو اسلامی فائنانس کے موضوع پر مواد فراہم کیا، انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ وہ اب بھی برابر اس میدان میں سرگرمِ عمل ہیں۔

عبدالرقیب صاحب نے اسلامی معاشیات اور فائنانس کے موضوع پر اپنا حاصلِ مطالعہ، اپنے افکار و نظریات اور اپنی عملی جدّوجہد کو ایک کتاب کی صورت میں مدوّن کر دیا ہے، جس کا نام ہے : ‘ہندوستان میں اسلامی معاشیات اور مالیات : موانع اور مواقع’۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول کا عنوان ہے: ‘اجتماعی نظم زکوۃ ‘۔ اس میں شامل مضامین میں مصنف نے زکوۃ کے اجتماعی نظام پر زور دیا ہے، اس کی اہمیت بتاتے ہوئے اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایتائے زکوۃ کی مہم چلاکر اور اس کا اجتماعی نظام قائم کر کے مسلمانوں کی غربت اور ان کی پس ماندگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے عہدِ نبوی میں نظم زکوۃ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ایک مضمون میں یہ بیان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے 15 سالہ پائیدار ترقی کے اہداف میں زکوۃ کو شامل کیا گیا ہے۔

دوسرے باب میں انہوں نے اسلامی معاشیات کے دیگر پہلوؤں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد کو خدمتِ خلق کا مرکز بنانا چاہیے، جس طرح کہ عہدِ نبوی میں صورتِ حال تھی۔ ان کا مضمون ‘مدینہ مارکیٹ’ اسلامی معاشی سرگرمیوں پر اہم روشنی ڈالتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے معاشی میدان میں منصوبہ بندی کرکے یہود کا زور توڑ دیا تھا، جو مدینہ کے بازار پر قابض تھے۔ ایک مضمون میں انھوں نے مروّجہ انشورنس کے مقابلے میں اسلامی ‘تکافل’ کا نظریہ پیش کیا ہے اور اس کی تفصیل بیان کی ہے۔

اگلے دو ابواب (سوم اور چہارم ) ہندوستان میں اسلامی معاشیات اور مالیات کی صورت حال، مسائل اور امکانات سے متعلق ہیں۔ ان میں مصنف نے ملت اسلامیہ ہندیہ کی معاشی صورتِ حال کا تجزیہ کیا ہے اور اس میں تبدیلی لانے اور اسے ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کے لئے ایک جامع لائحۂ عمل کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستان میں اس راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں ؟ اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے ؟ اس پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ہے۔

کتاب کا پانچواں باب کیرلا ہائی کورٹ میں اسلامی سرمایہ کاری سے متعلق مقدمے کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ اس موضوع پر کیرلا ہائی کورٹ میں کیا بحث ہوئی ؟ فریقین نے کیا کیا دلائل دیے ؟ آخر میں ہائی کورٹ کے فاضل جج نے کیا فیصلہ کیا ؟ یہ باتیں ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہیں۔

کتاب کے آخر میں مصنف نے کچھ ضمیمے شامل کیے ہیں۔ ان میں انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس کے قیام کی تاریخ، اھداف، موجودہ صورت حال اور ٹرسٹیز کا تذکرہ کیا ہے۔ گزشتہ دس سال کے عرصے میں اس سنٹر کی کیا کارکردگی رہی ؟ اور اس نے کیا سرگرمیاں انجام دیں ؟ اس کو بیان کیا ہے، نیز حکومتِ ہند کے مختلف اداروں میں اسلامک بینکنگ کے بارے میں کیا سفارشیں کی جاتی رہیں ؟ مختلف رپورٹوں سے ان کے اقتباسات بھی پیش کیے ہیں۔ آخر میں اسلامی معاشیات اور مالیات کے موضوع پر چند ماہرینِ معاشیات ( پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر اوصاف احمد اور جسٹس محمد تقی عثمانی ) کی تحریروں کے چند اقتباسات بھی شامل کیے ہیں۔ کتاب کے آغاز میں پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی اور سینٹر کے چیئرمین پروفیسر جاوید احمد خان ( جو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر بھی ہیں) کی تعارفی تحریریں بھی شامل ہیں، جن میں انہوں نے مصنف کی خدمات کو سراہا ہے اور اس کتاب کی تعریف و تحسین کی ہے۔ ان تحریروں نے اس کتاب کو اعتبار و استناد بخشا ہے۔

یہ کتاب ہندوستان میں اسلامی معاشیات ومالیات کے میدان میں جاری معرکہ کی دل چسپ روداد پیش کرتی ہے۔ امید ہے، علم معاشیات سے دل چسپی رکھنے والوں میں اسے قبولِ عام حاصل ہوگا۔

تبصرے بند ہیں۔