ہندوستان میں اسلامی معاشیات اور مالیات: موانع اور مواقع

سہیل بشیر کار

ایچ عبدالرقیب کی زیر تبصرہ کتاب نہایت ہی پریٹکل اور سلگتے ہوئے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ مصنف نے کچھ ایسے پہلوؤں کی طرف قاری کی توجہ مبزول کی ہے جس پر بہت کم لکھا اور بولا جاتا ہے، کتاب کے مصنف کے بارے میں چوٹی کے ماہر اقتصادیات اور مفکر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں: "انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس (ICIF) کے روحِ رواں جناب ایچ۔ عبدالرقیب بھلے ہی کسی درس گاہ سے فارغ نہ ہوں مگر اسلامی معاشیات کی نسبت سے کام کرنے والے ادارے اور افراد ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ قابل تعریف ہیں وہ لوگ جنھوں نے انھیں یہ کتاب مرتب کرنے پر آمادہ کیا۔” (صفحہ 5) محترم جاوید احمد خان لکھتے ہیں: "موجودہ ہندوستان میں اسلامی معاشیات اور مالیات کی آبیاری میں مجھے جناب ایچ عبدالرقیب صاحب سے زیادہ انہماک اور جان و دل سے کام کرنے والے بہت کم لوگ ملے ہیں۔ ” (صفحہ 6) مزید لکھتے ہیں: "مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ موجودہ ہندوستان میں اسلامی بنکنگ کے نفاذ کی کوششوں میں عبدالرقیب صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ "(صفحہ 7)

زیر تبصرہ کتاب کو فاضل مصنف نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے:

1:اجتماعی نظم زکواۃ،

2: اسلامی معاشیات کے چند اہم پہلو

3:اسلامی معاشیات و مالیات کی صورتحال

4: معاشی و مالیاتی مسائل و امکانات

5: کیرالہ ہائی کورٹ میں اسلامی سرمایہ کاری کا فیصلہ۔

باب اول اجتماعی زکواۃ میں 5 مضامین ہیں، اس باب میں مصنف نے اجتماعی نظم زکواۃ کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، اس سلسلے میں انہوں نے اہل علم کی آراء پیش کرکے یہ بتایا ہے کہ کس طرح زکواۃ اجتماعی طور پر دینا ضروری ہے۔ زکواۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ نماز اور زکوٰۃ ایمان کے عملی مظاہر ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں نماز پر بہت زور دیا گیا ہے وہیں زکواۃ کی تاکید کی گئی ہے لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک زکواۃ کے حوالے سے امت مسلمہ میں وہ بیداری نہیں ملتی جو نماز کے بارے میں ملتی ہے۔ مصنف چاہتے ہیں کہ ایک ہمہ گیر کوشش ہو جس کے ذریعہ امت مسلمہ میں یہ بیداری پیدا کی جائے لکھتے ہیں:

’’آج سے چند سال پہلے مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے میوات سے کلمہ اور نماز کے لیے ایک مخلصانہ مہم چلائی تھی جس کی وجہ سے نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں کلمہ پر محنت اور نماز کے قیام اور مسجدوں کے آباد کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ اسی طرح سماج کے ہر طبقہ میں اجتماعی نظم زکوۃ کی ہمہ گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ چند سالوں میں اس کے مفید اور موثر نتائج سامنے آئیں گے اور اس طرح اقامت الصلوۃ اور ایتاء الزکوۃ سے ایک متوازن اور متمول اسلامی معاشرہ ملک میں وجود میں آئے گا جو اپنی مثال آپ ہوگا اور خیر امت کی حیثیت سے یہ دوسرے معاشروں کے لیے بھی دعوت دین کا باعث ہوگا۔‘‘(صفحہ 63)

 زکواۃ کے بارے میں اسلام کا حکم ہے کہ یہ اجتماعی طور پر دی جائے جس طرح نماز فرض اجتماعی طور پر ادا کرنا ضروری ہے؛ اسی طرح زکواۃ اجتماعی طور پر دینا لازم ہے۔ جہاں اسلامی نظام ہو وہاں حکومت کو دینا لازمی ہے اور جہاں حکومت نہیں ہے وہاں ایسا نظام قائم کرنا لازمی ہے جہاں زکواۃ کا نظم اجتماعی طور پر ادا کیا جائے۔ مصنف نے کتاب کے بارے میں اجتماعی نظم زکواۃ کی اہمیت اور اس کے ثمرات پر بہترین بحث کی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اموی دور میں امرا زکواۃ کا صحیح استعمال نہیں کرتے تھے اس کے باوجود لوگ زکواۃ اجتماعی طور پر دیتے تھے؛ لکھتے ہیں :”خلفائے راشدین کے بعد اموی دور میں نظام خلافت بدل گیا اور حکام ظلم و تشدد پر اتر آئے، تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ زکوۃ کیسے دی جائے اور انہیں زکوۃ کا امین کیسے بنایا جائے؟ لیکن صحابہ کرام نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوۃ انہی کو دینی چاہیے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے طور پر خرچ کر ڈالو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھا : اب زکوۃ کسے دیں؟ کہا: وقت کے حاکموں کو۔ اس نے کہا: وہ زکوۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔ فرمایا: اگر چہ ایسا کرتے ہوں، مگر دو انہی کو کیونکہ زکوٰۃ کا معاملہ بغیر نظام کے قائم نہیں رہ سکتا۔ ‘(صفحہ 28)

اجتماعی طور پر زکواۃ نہ دینے کی وجہ سے ہی زکواۃ کے ثمرات معاشرے میں محسوس نہیں ہوتے۔ مصنف نے تاریخ اسلام میں اجتماعی نظم زکواۃ کے عملی اثرات دکھائے ہیں؛ لکھتے ہیں:”حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں مصر کے گورنر نے انہیں لکھا کہ صدقہ و زکوۃ کی رقم لینے والا وہاں کوئی نہیں ہے۔ وہ مال زکوۃ اب کیا کریں؟ حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا: غلاموں کو خرید کر آزاد کرو، شاہ راہوں پر مسافروں کے لیے آرام گا ہیں تعمیر کرو اور ان نوجوان مردوں اور عورتوں کی مالی امداد کرو جن کا نکاح نہیں ہوا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ خلیفہ نے ایک شخص کا خصوصی طور پر تقرر کیا تھا، جو شہر کی گلیوں میں ہر روز یہ اعلان کرتا تھا: کہاں ہیں وہ لوگ جو مقروض ہیں اور قرض ادا نہیں کر سکتے ؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ کہاں ہیں محتاج و حاجت مند اور کہاں ہیں یتیم اور بے سہارا ؟ یہ معاملہ چلتا رہا کہ سوسائٹی میں تمام لوگ مال دار ہو گئے اور غربت و افلاس کا کوئی نام و نشان نہیں رہا۔ (ابو عبید : کتاب الاموال )”(صفحہ 49)

اس باب میں مصنف نے امت مسلمہ کی غربت کی موجودہ صورتحال کا بھی ذکر کیا ہے لکھتے ہیں: "۳۰ جولائی ۲۰۱۶ کو یہ افسوس ناک خبر میڈیا کے ذریعہ موصول ہوئی کہ مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق ملک کے کل فقیروں کا چوتھائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ان میں مسلم خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ دسمبر ۲۰۱۴ کو آگرہ کے وید نگر میں ایک درد ناک واقعہ پیش آیا جو پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ہوا یہ تھا کہ بنگال اور آسام سے آئے غریب مسلمان جو زیادہ تر ردی کے ڈھیر کو صاف کرنے والے، پرانی چیزوں کا کاروبار کرنے والے اور بعض مزدور پیشہ اور رکشا چلانے والے تھے انھیں ورغلا کر اور بعض مراعات کا لالچ دے کر ہندومت میں لانے کی کوشش بعض فرقہ پرست تنظیموں نے کی اور جسے گھر واپسی کا نام دیا گیا۔ کیا مذکورہ دونوں خبریں ملت اسلامیہ ہند کے زعماء، علماء اور دردمندوں کو کچھ کرنے اور اپنے اندرون میں جھانکنے اور خور دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس کو حل کرنے پر مجبور نہیں کرتے ؟” (صفحہ 35)

کتاب کے دوسرے باب اسلامی معاشیات کے مختلف پہلو میں 5 مضامین ہیں۔ پہلے مضمون آج کے معاشی مسائل اور ان کا حل میں مصنف نے معیشت کے حوالے سے جو مسائل ہے ان کو بیان کیا ہے، ساتھ ہی ان مسائل کے حل کے لیے اسلام کا موقف بھی پیش کیا ہے۔ مصنف نے اس باب میں اسلام میں رزق حلال پر اچھی بحث کی ہے لکھتے ہیں:

"علماء نے تشریح کی ہے کہ پاکیزہ چیزوں کا حصول عمل صالح سے مقدم رکھا گیا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ کی قبولیت کا دار ومدار رزق حلال اور جائز مال کے ذریعہ ہی سے ہوگا۔ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ عام طور پر ہم اور ہمارے سماج کے بیشتر احباب عبادات کی طرف تو بڑی توجہ دیتے ہیں لیکن جن پر عبادات کی قبولیت کا دار مدار ہے یعنی معاملات اس کی طرف سے ہم غفلت کا شکار ہیں۔ ” (صفحہ 83)

اس باب کے دوسرے مضمون "معاشی جدوجہد کا صحیح تصور” میں اسلام کے تصور کو پیش کیا ہے، عام طور پر مذاہب معاشی جدوجہد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے؛ اس کے برعکس اسلام معاشی جدوجہد کی نہ صرف تحسین کرتا ہے بلکہ عبادت قرار دیتا ہے۔ اس باب میں مصنف نے اس سلسلے میں بہت سی روایات بیان کی ہیں، اسلام میں مساجد کی کافی اہمیت ہے یہ نہ صرف عبادت کے مراکز ہیں بلکہ کمیونٹی سینٹر بھی ہے، دین چاہتا ہے کہ مساجد خدمت خلق کے مراکز بن جائیں۔ اس باب کے تیسرے مضمون "مسجد کو خدمت خلق کا مرکز بنائے ‘میں مصنف نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے، مضمون میں مصنف نے مسجد کی دس اہم سرگرمیوں کو پیش کیا ہے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو سب سے پہلا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کروائی اس کے بعد جو دوسرا کام آپ نے کیا وہ یہودیوں کی استحصالی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے مدینہ مارکیٹ کا قیام عمل میں لایا۔ چوتھے مضمون "مدینہ مارکیٹ (سیرت نبوی صلی اللہ علیہ) کا ایک گم نام گوشہ)” میں مصنف نے اس مارکیٹ کے چند نمایاں پہلو کو اجاگر کیا ہے، اس مارکیٹ میں جہاں مرد کاروبار کرتے؛ وہیں خواتین کا نام بھی آتا ہے لکھتے ہیں: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مارکیٹ کی نگرانی اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے محتسب مقرر فرمائے جو اشیائے خرید و فروخت کے علاوہ ناپ تول پر بھی نظر رکھتے تھے محتسبین میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔ مردوں میں حضرت سعید بن العاص امیہ تھے، عبد اللہ بن سعید بن امیہ اور عمر بن خطاب اور عورتوں میں سمرہ بنت جندب السعدیہ اور شفاء بنت عبد اللہ کا نام آتا ہے۔” (صفحہ 112)

عصر جدید میں معاشی اور مالی امور کے جو نئے طریقے اختیار کئے گئے ہیں ان میں ایک انشورنس بھی ہے؛ پانچویں مضمون” انشورنس کی حیثیت اور تکافل کی ضرورت "میں مصنف نے قیمتی بحث کی ہے۔ انہوں نے انشورنس کی مروجہ شکلوں پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسلامی نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے، ساتھ ہی اس باب میں تکافل پر نہایت ہی عمدہ گفتگو کی گئی ہے۔

کتاب کے تیسرے باب "اسلامی معاشیات و مالیات کی صورت حال "میں مصنف نے 5 مضامین جمع کیے ہیں۔ پہلے باب "ہندوستان میں معیشت اور بنک کاری” پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ہمہ گیر مہم چلائی گئی نہ صرف عوام الناس کو قائل کیا گیا بلکہ زبردست لابنگ کے علاوہ سیاسی جدوجہد بھی کی گئی، اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بنک کاری کے سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی، چونکہ یہ مضمون 2010 میں لکھا گیا لہذا آج اس کی پیش رفت پر بات کرنا مشکل ہے۔ اس باب کے دوسرے مضمون ملت کی معاشی پالیسی (تبدیلی کا راستہ) "میں ملت اسلامیہ ہند کی صورتحال پیش کی گئی ہے۔ اس باب میں مصنف نے دکھایا ہے کہ اسلام کس طرح حصولِ معاش کو احسن طریقے سے دیکھتا ہے لکھتے ہیں:”ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ہمارے پاس سے ایک پھرتیلا جوان گزرا، جو غنیمت میں حصے کے طور پر ملے مویشی کو لیے جار ہا تھا، تو ہم بول پڑے کہ اگر اس کی جوانی وسرگرمی اللہ کی راہ میں صرف ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ ہماری یہ بات رسول اللہ تک پہنچی تو آپ صلی یا یہ ہم نے پوچھا: تم کیا بول رہے تھے ؟ ہم نے بتایا کہ یہ اور یہ۔ آپ مسی یا کہ تم نے فرمایا: اگر وہ اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے لیے بھاگ دوڑ کرے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہوگا، اور اگر وہ اپنے اہل وعیال کے لیے تگ و دو کر رہا ہو، تاکہ ان کی کفالت کر سکے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا اور اگر اپنی ذات کے لیے کام کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہو گا۔ (بہیقی)۔ "(صفحہ 173)

 اسی طرح وہ لوگ جو تجارت کرتے ہیں ان کے بارے میں بشارت دی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جو ہماری مارکیٹ (مدینہ مارکیٹ) میں خرید و فروخت کرے گا وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے۔ ” تیسرا مضمون طلبہ مدارس کے سامنے ایک خطاب ہے جس میں انہیں بتایا گیا کہ آج کے دور میں معاشی ترقی کے نئے محاذ کیا کیا ہیں؛ لکھتے ہیں: "آخر میں یہ بات عرض کرنی ہے کہ ان تینوں امور : زکوۃ کے اجتماعی نظم، تجارت دانٹر پرینیورشپ اور اسلامی سرمایہ کاری اور بنک کاری میں جہاں مردعلماو فارغین مدارس کو بھر پور حصہ لینا ہے اور اس کے لیے خصوصی تعلیم و تربیت کے ذریعہ اپنا رول ادا کرنا ہے، وہیں خواتین عالمہ اور فاضلہ بھی شریعت کے حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں اور انہیں بھی معاشی ترقی کے لیے تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں آگے بڑھنا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیں۔ جس کے لیے نبی کریم کے قائم کردہ مدینہ مارکیٹ میں خواتین تاجرات کی موجودگی اور ان کے کاموں کی نگرانی کے لیے خواتین محاسبوں کا تقرر مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ کیا ۸۱ (صرف خواتین کے لیے مخصوص مارکیٹ) اور گھر بیٹھے (Networking) کے Women Market مراکز قائم کر کے اس کا آغاز کر سکتے ہیں؟” (صفحہ 193) چوتھے مضمون اسلامی سرمایہ کاری میں مصنف نے انفرادی، معاشرتی اور ملکی سطح کے کرنے کے کام کی نشاندہی کی ہے۔ پانچواں مضمون مصنف کے ایک انٹرویو پر مشتمل ہے جس میں ہندوستان میں اسلامی بنکنگ کے امکانات کس مرحلے میں ہے کا جائزہ لیا گیا ہے، یہ انٹرویو بھی پرانا ہے جس سے آج کی صورتحال واضح نہیں ہوتی۔

کتاب کے چوتھے باب "معاشی و مالیاتی مسائل اور امکانات” میں 5 مضامین ہے۔ پہلے مضمون "ہندوستان میں اسلامی فئنانس -مسائل اور امکانات میں بھی انفرادی، معاشرتی اور ملکی سطح کے کرنے کے کاموں کی نشاندہی کی ہے؛ اس باب کا دوسرا مضمون ایک مقالہ ہیں جو اسلامی فقہ اکیڈمی کے سمینار برائے ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی ترقی امکانات اور مواقع میں اکتوبر 2009 میں پیش کیا گیا جس میں ہندوستان میں اسلامی بنکاری پر گفتگو کی گئی ہے، انڈین فیڈریشن آف چمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FICCI) کے ایک دو روزہ سمینار میں مصنف نے نے ایک مقالہ پیش کیا جس کا خلاصہ انہوں نےتیسرے مضمون میں شامل کیا ہے۔ چوتھے مضمون "پارلیمنٹ میں داخل انشورنس بل میں تکافل کی شمولیت” میں مصنف نے شب ICIF کی ان کوششوں کی تفصیل پیش کی ہے جو پارلیمنٹ میں داخل انشورنس بل پیش کرنے کے بعد کی گئی، جس طرح کی سرگرمیاں IC IF نے کی ہے وہ ہم کم وسائل میں وہ قابل تعریف ہے، جسٹس مفتی تقی عثمانی مفتی اعظم پاکستان جہاں جید عالم دین ہے وہی انہوں نے اسلامی ایکنامکس پر کافی علمی کام کیا ہے اس باب کے پانچویں مضمون "جسٹس مفتی تقی عثمانی سے اپنی ایک اہم ملاقات” میں مصنف نے اپنی ملاقات کا احوال پیش کیا ہے۔ مفتی صاحب تمل ناڈو میں ایک نجی دورہ پر آئے تھے؛ اس موقع پر انہوں نے جو خطاب کیا اس کے اقتباسات کو مصنف نے پیش کیا ہے۔

کیرلا ہائی کورٹ میں شریعت اور سکولرزم پر ایک خوبصورت بحث چلی ہے، اس حوالے سے نہایت ہی اہم معلومات کو مصنف نے پانچویں باب کے تین مضامین میں شامل کیا ہے۔ یہ بحث تب شروع ہوئی جب ایک کمپنی ‘البرکہ فائنانشیل سرویس’ لمیٹڈ کے نام سے قائم ہوئی تو اس کے خلاف ڈاکٹر سبرامنیم نے کیرالا کورٹ میں ایک کیس داخل کیا۔ اس کیس کے بارے میں مصنف نے دلچسپ جانکاری پیش کی ہے۔ اس باب سے جہاں اس مقدمہ کے بارے میں جانکاری ملتی ہیں وہی سکولرزم پر بھی خوبصورت بحث ہے۔

کتاب میں 9 ضمیمہ جات بھی شامل کیے گئے ہیں، کتاب کے آخر میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر اوصاف احمد اور جسٹس تقی عثمانی صاحب کے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جن سے اسلامی معاشیات پر اہم معلومات فراہم ہوتی ہے۔ جسٹس تقی عثمانی کے اقتباس میں لکھا گیا ہے:

"ایک عالم کے لیے جس طرح قرآن وسنت کے احکام سے واقف ہونا ضروری ہے، اسی طرح اس کے لیے زمانہ کے عرف اور زمانہ کے حالات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر وہ شرعی مسائل میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔ حضرت امام محمد بن الحسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ملتی ہے کہ فقہ کی تدوین کے دوران وہ با قاعدہ بازاروں میں جا کر تاجروں کے پاس بیٹھتے، اور ان کے معاملات کو سمجھتے تھے اور یہ دیکھا کرتے تھے کہ کون سے طریقے بازار میں رائج ہیں؟” (صفحہ 295)

296 صفحات پر مشتمل کتاب اگرچہ 2018 میں شائع ہوئی ہے تب سے اب تک حالات بہت تبدیل ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ہندوستان میں اسلامی معاشیات پر اس کے اثرات پڑے ہونگے، لیکن اس کے باوجود کتاب بہت اہم ہے۔ اس میں معیشت کے ان مسائل پر آسان زبان میں لکھا گیا ہے جن میں اردو میں اس سے پہلے نہیں لکھا گیا ہے۔ یہ کتاب انڈین سنٹر فار اسلامک فئنانس نئی دہلی نے عمدہ طباعت سے شائع کی ہے، کتاب کی قیمت 300 روپے بھی مناسب ہے۔ کتاب فون نمبر 01126985947 پر حاصل کی جا سکتی ہے۔

2 تبصرے
  1. عمر فاروق راتھر کہتے ہیں

    اسلامی معاشیات کے اہم موضوع پر لکھی جاچکی اس کتاب پہ محترم سہیل بشیر کار صاحب کا یہ مضمون اس کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کرتا ہے۔

    مبصر موصوف ہمیشہ ہم قارئین کو نئی کتب سے روشناس کراتے ہیں ۔اللہ سے دعا ہے کہ مصنف کی جملہ دینی ،علمی اور فکری خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور انہیں مزید خدمات کی توفیق سے بھی نوازے ۔آمین یا رب العلمین

    1. سہیل بشیر کار* کہتے ہیں

      بہترین شکریہ عمر صاحب

تبصرے بند ہیں۔