ہندوستان میں گائے کی قربانی

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

    ﻣﻮﻻﻧﺎ سید ابو الاعلی ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ رحمہ اللہ نے آج سے تقریباً 70 سال قبل اپنے رسالے ترجمان القرآن میں گائے کی قربانی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا :

        "ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ہندوستان ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﮐﻮ ﺭﺍﺿﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺗﺮﮎ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﺎﺋﻨﺎﺗﯽﻗﯿﺎﻣﺖ ﻧﮧ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ہندوستان ﮐﯽﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔ ……..        ﺟﺲ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﭘﻮﺟﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﻮ ﻣﻌﺒﻮﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟﺷﺎﻣﻞ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱﮐﮯ ﺗﻘﺪّﺱ ﮐﺎ ﺑﻬﯽ ﻋﻘﯿﺪﻩ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮ، ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﺋﺰ ﻓﻌﻞ ﮨﮯ ، ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﻧﮧﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻀﺎﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﺋﮯ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﮨﻮ ﺍﻭﺭﺗﻘﺪّﺱ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺭﮐﻬﺘﯽ ﮨﻮ، ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﺎﮐﮧ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ – ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﺪﺕﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺼﻠﺤﺘﺎً ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖﺑﻬﯽ ﻧﮧ ﮐﻬﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ہم سایہ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺎﺅ ﭘﺮﺳﺘﺎﻧﮧ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺋﮯﮐﮯ ﺗﻘﺪّﺱ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﻮﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺲﻃﺮﺡ ﻣﺼﺮ ﮐﯽ ﮔﺎﺅ ﭘﺮﺳﺖ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎﺣﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ کہ وَ اُشرِبُوا فِی قُلوبِهِم العِجل۔  ﭘﻬﺮ ﺍﺱ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻨﺪﻭ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﯿﮟ ، ﻟﯿﮑﻦ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺲ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺪﺳﺘﻮﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﮯﮔﯽ – ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺟﺐﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﮐﺴﯽ ﻧﻮ ﻣﺴﻠﻢ ﮨﻨﺪﻭ ﮐﺎﺍﺳﻼﻡ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﻧﻬﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺍﯾﮏﻣﺮﺗﺒﮧ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﻧﮧ ﮐﻬﺎ ﻟﮯ – ﺍسی ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﺷﺎﺭﮦﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ” ﺟﺲ نے ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻢ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺫﺑﯿﺤﮧ ﮐﻬﺎﯾﺎ ﻭﮦ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ” – ﯾﮧ ” ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺫﺑﯿﺤﮧ ﮐﻬﺎیا ” ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﺍﻭﮨﺎﻡ ﻭ ﻗﯿﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﺷﻮﮞ ﮐﺎﺗﻮﮌﻧﺎ ﺑﻬﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺﭘﺎﺑﻨﺪ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ -"

           (ترجمان القرآن، جولائی اگست 1945۔ اسے ﺗﻔﮩﯿﻢ ﺍﻻﺣﺎﺩﯾﺚ ، ﺟﻠﺪ 4، ص 332پر بھی نقل کیا گیا ہے۔ )

         مولانا مودودی کی یہ تحریر ہر سال قربانی کے موقع پر سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہے۔ مولانا مرحوم کی عظمت کے اعتراف کے باوجود میرے نزدیک ان کی یہ تحریر یک طرفہ اور یک رخی ہے۔ اس میں صرف ایک پہلو پر پُر زور انداز میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے اور دوسرے متعدّد پہلو یک سر نظر انداز ہوگئے ہیں۔ اس لیے اپنے موضوع پر یہ غیر متوازن ہوگئی ہے۔ جو پہلو اس تحریر میں نظر انداز ہوے ہیں وہ یہ ہیں :

            (1) اسلام میں جن جانوروں کی قربانی کو مشروع کیا گیا ہے ان میں سے ایک گائے ہے۔ بہ الفاظ دیگر گائے کی قربانی واجب نہیں ہے۔ آدمی اپنی سہولت سے مشروع جانوروں میں سے جس کی چاہے قربانی کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر کبھی گائے کی قربانی نہ کرے، دیگر جانوروں میں سے کسی کی قربانی کرتا رہے تو وہ حکم الہی پر عمل کرنے میں کوتاہی کرنے والا قرار نہیں پائے گا۔

         (2) تحریر کی ابتدا میں کہا گیا ہے کہ ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے مسلمانوں کا گائے کی قربانی ترک کرنا درست نہیں ہے۔  یہاں مسئلہ کسی کو راضی کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا کسی فتنہ کو دفع کرنے کے لیے کسی جائز عمل کو ترک کیا جا سکتا ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت سے ہمیں اس کا جواب اثبات میں ملتا ہے۔

         عہدِ جاہلیت میں ایک موقع پر خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آیی تو قریش نے ٹھیک انہی بنیادوں پر اس کی تعمیر نہیں کی جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی، بلکہ کچھ حصہ چھوڑ دیا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :”اگر تمھاری قوم کا کفر و جاہلیت کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کو ڈھاکر از سرِ نو اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر تعمیر کرتا۔ ”                    (بخاری:1585،مسلم:1333)

              اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اندیشہ ہوا کہ کعبہ ڈھانے کو مشرکین فتنہ کا ذریعہ بنالیں گے، اس لیے آپ نے اس کی ازسرِ نو تعمیر کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود اس کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عمل کے صحیح اور جائز ہونے کے باوجود اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اسے ترک کردینا اولى ہے۔

               (3) مسلمان جس ملک میں رہتے ہوں، ان پر لازم ہے کہ وہاں کے قوانین کی پابندی کریں۔ اگر وہ قوانین ظالمانہ ہوں اور ان کے دین و شریعت سے ٹکراتے ہوں تو انھیں بدلنے کی کوشش کریں۔ لیکن جب تک وہ انھیں بدلنے پر قادر نہ ہو سکیں، اس وقت تک ان سے بغاوت نہ کریں، ورنہ وہ مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اسوہ نبوی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔                اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے توحید کا نعرہ بلند کیا، اس وقت 360 بت خانہ کعبہ اور حرم میں رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے توحید کی دعوت دی، اس کی معقولیت واضح کی، شرک و بت پرستی کی مذمّت کی اور ان پر سخت ترین تنقیدیں کیں، لیکن بتوں سے کوئی تعرّض نہیں کیا۔ آپ نے مکّی زندگی میں کبھی کوشش نہیں کی کہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیں۔ اس لیے کہ اس وقت مکہ کا قبائلی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا تھا اور آپ اسے بدلنے پر قادر نہ تھے۔ لیکن جب مکہ فتح ہوا اور اقتدار آپ کے ہاتھ میں آیا تو آپ نے پہلا کام کعبہ کی تطہیر کا انجام دیا۔

             واضح الفاظ میں سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان کی حکومت نے گاوکشی پر پابندی عائد کر رکھی ہو تو ایک مسلمان کیا کرے، جب کہ اسلام میں گائے کا گوشت کھانا حلال ہے؟ کیا وہ اس پابندی کو قبول نہ کرے اور گائے کو علانیہ ذبح کرکے اس کا ثبوت پیش کرے کہ وہ اس قانون کو نہیں مانتا، کیوں کہ اس کا مذہب گائے کا گوشت کھانے کی اجازت دیتا ہے؟ یا وہ اس قانون سے عدمِ موافقت کا برملا اظہار کرے او ر اسے بدلوانے کی ہر ممکن تدابیر اختیار کرے، لیکن عملا گائے ذبح نہ کرے، کیوں کہ اس سے قانون کی مخالفت لازم آئے گی اور اسے اس کے عواقب جھیلنے ہوں گے؟ میری نظر میں اسلامی شریعت کی رو سے دوسرا موقف درست ہے۔

               مولانا مودودی نے پُر زور اسلوب میں جو بات کہی ہے اس کا سیاق دوسرا ہے۔ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو قوانین کی بندشوں میں جکڑے ہوئے نہ ہوں اور آزاد ماحول میں رہتے ہوں، لیکن اپنے سابقہ مشرکانہ پس منظر کی وجہ سے ان کے دل میں گائے کی عقیدت اور تقدّس پایا جاتا ہو۔ بنی اسرائیل کو جب مصر کے ظالمانہ قوانین سے نجات مل گئی تھی اور وہ حضرت موسی علیہ السلام کی سربراہی میں آزادانہ طور پر زندگی گزار رہے تھے تب انھیں گائے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔