دین میں غلو

    ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی    

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) عقبہ کی صبح (یعنی 10 ذی الحجۃ کو ، جب صرف جمرۃ العقبۃ پر کنکریاں ماری جاتی ہیں) رمی جِمار(کنکریاں مارنے) کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے کنکریاں لانے کا حکم دیا۔ اس وقت آپ سواری پر تھے۔ میں نے آپ کو سات چھوٹی چھوٹی کنکریاں لاکر دیں۔ آپ نے انھیں اپنے ہاتھوں میں لیا اور فرمایا : "اتنی ہی چھوٹی کنکریاں  استعمال کرنی چاہئیں۔ ” اس کے بعد آپ ص نے ارشاد فرمایا :

” اِیّاکُم وَ الغُلُوُّ فی الدِّینِ ، فَإنَّمَا اَھلَکَ مَن کانَ قَبلَکُم الغُلوُّ فِی الدِّینِ "(نسائی: 3057 ،ابن ماجہ :3029 )

” دین میں غلو سے بچو، اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں غلو کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئے۔ "

           اس حدیث سے دین کا مزاج بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ عقائد کا معاملہ ہو، یا عبادات کا، یا تہذیب و معاشرت کا، اسلام اعتدال کی روش پر چلنے کا حکم دیتا ہے اور غلو اور انتہا پسندی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔

        عیسائیوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معاملے میں غلو کرکے انہیں خدا بنالیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :”میرے بارے میں ویسی مبالغہ آمیزی نہ کرو، جیسی نصارٰی نے عیسی کے معاملے میں کی۔ میں صرف اللہ کا بندہ ہوں، لہذا مجھے صرف اس کا بندہ اور رسول کہو۔ "(بخاری :3445)

      آپ ص نے ایک موقع پر دیکھا کہ ایک شخص وضو کرتے ہوئے بہت زیادہ پانی بہا رہا ہے آپ ص نے فرمایا:”فضول خرچی نہ کرو”اس نے کہا :”اے اللہ کے رسول! کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے؟” آپ ص نے فرمایا :”ہاں، تم بہتی نہر کے کنارے بیٹھے ہو، تب بھی ضرورت سے زائد پانی کا استعمال نہ کرو۔ "(ابن ماجہ:425)

        ایک مرتبہ آپ ص نےدیکھا کہ مسجد نبوی میں ایک رسّی بندھی ہوئی ہے۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ اسے ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بندھوایا ہے۔ رات میں نفل نمازوں کی کثرت سے جب وہ تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں۔ آپ نے رسّی کھلوادی اور فرمایا :  "جب تک آدمی نشاط محسوس کرے تب تک نماز پڑھے، جب تھک جائے تو سو جائے۔ ” (بخاری:1150،مسلم:784)

           آپ ص نے دیکھا کہ ایک شخص تیز دھوپ میں میدان میں کھڑا ہے پتہ چلا کہ اس نے نذر مانی ہے کہ وہ روزہ رکھے گا اور اس حال میں نہ کسی سے بات چیت کرے گا نہ سایہ میں بیٹھے گاآپ نے فرمایا :”اس سے کہو کہ وہ بات چیت کرے، سایہ حاصل کرے، بیٹھ  جاءے، البتہ اپنا روزہ پورا کرے۔ "

           اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ کھانے کی فلاں چیز میں ناپسند کرتا ہوں۔ آپ ص نے فرمایا :”تمھارے دل میں کوئی ایسی چیز نہ پیدا ہونے پائے جس سے تمھارا عمل نصرانیت کے مشابہ ہوجائے۔ "(ابوداؤد 3784،احمد5/226 )

         ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی پہلو میں غلو پسندیدہ نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے سختی سے روکا ہے اور میانہ روی کی تاکید فرمائی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔