ہندوستان کی دینی جماعتوں کاالگ الگ نصب العین؟

عبدالعزیز

 ’’نمازقائم کرواورزکوٰۃ دو‘‘  ایمان کے بعدنماز اورزکوٰۃ دین کے سب سے اہم ستونوں میں سے ہیں ۔نمازکی اہمیت زکوٰۃ سے بھی زیادہ ہے۔

 ’’ یہی وجہ ہے کہ اس امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کاعہدنمازکے ذریعہ سے قائم ہے ۔ جب تک ہم نمازپرمضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارارشتہ مضبوط رہے گا۔ اس وقت تک ہم اپنے دشمنوں پرغلبہ پائیں گے اوراس دشمن ازلی (شیطان) سے بھی مامون رہیں گے جوہمارے اپنے پہلومیں موجودہے جیساکہ قرآن مجیدمیں اجمالاًوتصریحاً اس کاوعدہ کیاگیاہے  :

’’نمازبے حیائی اروبُرائی سے روک دیتی ہے۔ ‘‘ (سورہ عنکبوت  45)

اورترک نمازکی وجہ سے بعض ملتوی کی گمراہی کاذکران لفظوں میں ہواہے  :

’’ان کے بعدان کے ایسے جانشین آئے جنہوں نے نمازضائع کردی اورشہوتوں کے پیچھے لگ گئے ، وہ بہت جلداپنی گمراہی سے دوچارہوں گے ۔‘‘ (سورہ مریم  56)

یہ آیت انبیاء کرام اوران کی انعام یافتہ جماعت کے ذکرکے بعدآئی ہے جس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ نمازکاترک اللہ تعالیٰ کی مُنْعَمْ علیہم جماعت سے نکل جانے کے مترادف ہے ۔

 نمازرب واحدکاشکرہے ۔ بندہ اپنی دعامیں اگرخداکے ساتھ کسی اورکوشریک کرے تویہ کفرہے ۔اسی طرح اگرنمازترک کردی جائے اورخداکے ذکرسے منھ موڑلیاجائے تویہ بھی کفرہے ۔ بعض جگہ قرآن مجیدمیں نمازکی تعبیرہی شکرکے لفظ سے کی گئی ہے ۔ مثلاً  :

’’سوتم مجھے یادرکھومیں تمہیں یادرکھوں گا۔ میری شکرگزاری کرتے رہنا، ناشکری نہ کرنا۔ ‘‘  (سورہ بقرہ   152)

 شکرخاص طورپرہمارے اوپراس لئے واجب ہے کہ خداہی نے فرشتوں کوحکم دیاکہ وہ آدم کوسجدہ کریں ۔ اس موقع پرشیطان نے جوکرداراداکیاوہ یہ تھاکہ اس نے تکبّراورخودپسندی کی بناپرخداکاحکم نہ مانااورآدم کوسجدہ نہ کیا۔ اب ہم نمازکوترک کردیں توہمارایہ کفرشیطان کے کفرسے تین لحاظ سے زیادہ ہوگا۔ ایک اس لئے کہ نمازہی ہماری فطرت ہے ۔ دوسرے اس لئے کہ ہم نے خداسے اس کی عبادت کرنے کاعہدکررکھاہے ۔اورتیسرے اس لئے کہ خداکاشکراداکرنا ہمارے  اوپراس لئے واجب ہے کہ اس نے ہمیں فرشتوں سے سجدہ کروایا۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ نمازکاذکرپہلے کیاگیااورزکوٰۃ کاذکراس کے بعدہے۔ نمازہرشخص کے لئے فرض ہے ، زکوٰۃ صرف صاحب نصاب کیلئے ہی فرض ہے مگردونوں کاایک ساتھ ذکرایک دوسرے سے گہری مناسبت اورتعلق کی نشاندہی کرتاہے ۔ دونوں کی ایک دوسرے سے جدائی دونوں کے لئے کمزوری کاباعث ہوگا۔دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ، دونوں ایک دوسرے کمال کوپہنچتی ہیں ، دونوں ایک ہی جڑ سے پھوٹی ہیں ۔نمازکی حقیقت بندہ کاخداکی طرف محبت اورخشیت سے مائل ہوتاہے اورزکوٰۃ کی حیقیقت بندہ کی طرف محبت اورشفقت سے مائل ہوناہے ۔ پس کمال سعادت کے لئے دونوں لازم ٹھہریں اوران دونوں کی روح محبت ہے ۔ اگران میں سے ایک پرتوجہ مرکوز ہوگی اوردوسری چیزسے غفلت اورعدم توجہی برتی جائے گی توعمل ناقص اورنامکمل ہوگا، بے اثرہوتاچلاجائے گا۔ مثلاایک شخص نمازپابندی سے پڑھتاہے  مگرصاحب نصاب ہونے کے باوجودوہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرکے بندے کاحق ادانہیں کرتاتواس کی نمازاللہ کے نزدیک ناقص اوربے معنی ہوگی کیونکہ ایک حکم کومانتاہے اوردوسرے حکم کوٹھکرادیتاہے ۔ ایسامالک جواپنے نوکرکودوکاموں کاایک ساتھ حکم دیتاہے مگراس کانوکرایک کام کوتوبڑی مستعدی سے کرتاہے مگردوسرے کام پرتوجہ تک نہیں دیتا۔کیاکوئی مالک ایسے نوکرسے خوش رہے گا؟اسے نوکری سے ہٹانہیں دے گا؟ اس طرح بندہ یعنی خداوندقدوس کاملازم اگرایسی روش جاری رکھتاہے توکیاوہ خداوندقدوس کی خوشنودی حاصل کرسکتاہے ؟کیابندہ کے ا س عمل پراس کومحض اس لئے چھوڑدیاجائے گاکہ ایک حکم کوبڑی مستعدی سے کرتاہے ؟

 ہندوستان کی ایک دینی جماعت جسے شہرہ آفاق ہے کہناچاہئے وہ نمازکے قیام کے سلسلہ میں غیر معمولی اندازسے مستعیدہے جوقابل تحسین وقابل تعریف ہے مگرنمازکے بعدزکوٰۃ یادیگرچیزوں کاجوقرآن میں حکم ہے اس پراس کی توجہ کسی وجہ سے مرکوزنہیں ہے ۔ کیوں نہیں ہے؟ اس کاجواب یااس کی وجہ لوگوں کوبتاناچاہئے کہ وہ مکمل دین چیزکی چل پھرکردعوت کیوں نہیں دیتا؟

  دوسری جماعت کانصب العین قیام دین ہے اوروہ کہتی ہے کہ وہ دنیاکودین کے کل حصہ کی دعوت دیتی ہے اوردین کوبغیرکسی کم وبیش لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے اس کے بانی جماعت محض دین کے کسی ایک حصہ پرعمل کواوردوسرے حصہ کوچھوڑدینے کوکسی کام کونہیں سمجھتے  :

’’اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے نہ وہ محض چند’’مذہبی‘‘اعمال اوررسموں کامجموعہ ہے ، بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لئے ایک مفصل اسکیم ہے ۔اس میں عقائد، عبادات اورعملی زندگی کے اصول وقواعد الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سب مل کرایک ناقابلِ تقسیم مجموعہ بناتے ہیں جس کے اجزاء کاباہمی ربط بالکل ویساہی ہے جیساکہ ایک بندہ جسم کے اعضاء میں ہوتاہے ۔

  آپ کسی زندہ آدمی کے ہاتھ کاٹ دیں ، آنکھیں اورکان اورزبان جداکردیں ،معدہ اورجگرنکال دیں ، پھیپھڑے اورگُردے الگ کردیں ۔ دماغ بھی پورایاکم وبیش کاسۂ سے خارج کردیں اوربس ایک دل اس کے سینے میں رہنے دیں ۔ کیایہ باقی ماندہ حصۂ جسم زندہ رہ سکے گا؟ اوراگرزندہ بھی رہے توکیاوہ کسی کام کاہوگا؟

  ایساہی حال اسلام کابھی ہے ۔ عقائد اس کاقلب ہیں ۔ وہ طریقِ فکر(Attitude of Mind) نظریۂ حیات(View of Life) مقصدزندگی اورمعیارِقدر(Stantdard of values) جواِن عقائدسے پیداہوتاہے اس کادماغ ہے ۔ عبادات اس کے جوارح اورقوائم ہیں جن کے بل پروہ کھڑاہوتاہے اورکام کرتاہے ۔ معیشت ، معاشرت ، سیاست اورنظمِ اجتماعی کے تمام وہ اصول جوزندگی کے لئے اسلام نے پیش کئے ہیں وہ اس کے لئے معدے اورجگراوردوسرے اعضائے رئیسہ کاحکم رکھتے ہیں ۔ اس کوصحیح وسالم آنکھوں اوربے عیب کانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ زمانے کے احوال وظروف کی ٹھیک ٹھیک رپورٹیں دماغ تک پہنچائیں اوردماغ ان کے متعلق صحیح حکم لگائے، اس کواپنے قابوکی زبان درکارہے تاکہ وہ اپنی خودی کاکماحقہ اظہارکرسکے ، اس کوپاک صاف کی حاجت ہے جس میں وہ سانس لے سکے ۔ اس کوطیّب وطاہرغذامطلوب ہے جواس کے معدے سے مناسبت رکھتی ہواوراچھاخون بناسکے ۔ اس پورے نظام میں اگرچہ قلب (یعنی عقیدہ)بہت اہمیت رکھتاہے ۔مگراس کی اہمیت اسی لئے توہے کہ وہ اعضاء وجوارح کوزندگی کی طاقت بخشتاہے ۔ جب اکثروبیشتراعضاء کٹ جائیں ، جسم سے خارج کردیئے جائیں یاخراب ہوجائیں تواکیلاقلب تھوڑے بہت بچے کھچے خستہ وبیماراعضاء کے ساتھ زندہ رہ سکتاہے ؟ اگرزندہ بھی رہے تواس زندگی کی کیاوقعت ہوسکتی ہے؟    (تنقیحات  صفحہ 242-243)

  قرآن میں کہاگیاہے کہ اگرتم دین کے ایک حصہ پرعمل کروگے اوردوسرے حصہ کوچھوڑدوگے توتمہیں دنیامیں بھی ذلت ورسوائی اُٹھانی پڑے گی اورآخرت میں سخت ترین عذاب کی طرف پھیردیئے جاؤگے۔     (جاری)

تبصرے بند ہیں۔