ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

تنویرعالم

(صدراے ایم یوالومنائی ایسوسی ایشن،مہاراشٹر)

ملک میں عام انتخابات کا بگل بج کاہے،ہر طرف چناوی ہنگامے ہیں اور ان ہنگاموں میں روزایک نیاایشواور اس پر بحث سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایک تازہ واقعہ گجرات کے وڈگام سے آزادایم ایل اے جگنیش میوانی سے جڑا ہواہے،جگنیش میوانی بائیں بازوکے سیاسی طرزِفکر سے متاثرہیں اور دہلی سے لے کرملک بھر میں آئیساسے لے کر دلت۔ مسلم تنظیموں کے درمیان بھی ان کی مقبولیت رہی ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ 2017 میں جگنیش وڈگام سے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے حمایت کردہ آزادامیدوار تھے اور انھیں گجرات کے اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

جگنیش جے این یو طلبہ یونین کے سابق صدر اورآنے والے جنرل الیکشن میں بیگوسرائے سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے امیدوار کنہیاکمار کے دوست بھی ہیں ،جگنیش میوانی،کنہیاکمار اور عمر خالد کئی بار مختلف پروگراموں میں اسٹیج بھی شیئر کرتے رہے ہیں۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جگنیش کنہیاکمار کے لیے کمپیننگ کرنے پہنچے،ان کے لیے چناؤ پرچار بھی کیا۔ ادھر31؍مارچ کو سیوان میں چندرشیکھر چندو کایوم شہادت بھی منایاجانا تھا،جس میں حصہ لینے کے لیے جگنیش اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیوان پہنچے۔ سوشل میڈیاکے ذریعے دہلی میں بیٹھے جگنیش کے مسلم ساتھیوں کواس کی اطلاع ملی کہ جگنیش سیوان جارہے ہیں اور وہ وہاں سی پی آئی(ایم ایل)کے امیدوار کے لیے انتخابی کمپیننگ کریں گے،سیوان سے ہی عظیم اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی راجد سے حنا شہاب الیکشن لڑرہی ہیں۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ 31؍مارچ1997ء کوچندرشیکھر چندو کا قتل حناشہاب کے شوہر اور گینگسٹر شہاب الدین نے اس وقت کروادیاتھا،جب وہ سیوان میں ایک مجمع کو خطاب کررہے تھے۔ دہلی اور ملک بھر کے مختلف خطوں میں بیٹھے دلت مسلم اتحاد اور سیاست سے وابستہ ان کے ساتھی، جو حناشہاب کی عظیم اتحاد کی امیدوار کے روپ میں حمایت کررہے تھے،انھیں جگنیش کا سیوان میں جاکر مہاگٹھ بندھن سے باہر کے امیدوار کے لیے انتخابی مہم چلانا دلت مسلم اتحاد کے خلاف لگااور تنازع یہیں سے شروع ہوگیا؛حالاں کہ جگنیش نے بعد میں صفائی بھی دی کہ میں چند رشیکھر کے یومِ شہادت کی مناسبت سے منعقد ہونے والے پروگرام میں حصہ لینے آیاہوں ،کسی کے لیے کمپیننگ کرنے نہیں آیا۔

        اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جگنیش میوانی نے کمپیننگ والی بات چھپانے یا اس پر اپنی صفائی دینے کی کوشش ہی کیوں کی؟ہمارے ملک کا دستور کسی بھی شہری کو اس بات کی آزادی دیتاہے کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی یا اپنی ہم فکر سیاسی جماعت کے لیے کہیں بھی،کسی کے بھی خلاف انتخابی کمپیننگ کرے۔ یہ غیر اخلاقی بات ہوگی کہ ایک سیاسی بندہ جس سیاسی پارٹی سے وابستہ ہو یا اس سے فکری قربت رکھتاہو،وہ الیکشن کے دوران کسی خاص علاقے میں جائے اوراس پارٹی کے لیے کمپیننگ نہ کرے،چاہے اس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے،یہاں تک کہ کسی عہدے سے دست بردار بھی ہوجانا پڑے یا الیکشن میں شکست سے دوچار ہونا پڑے۔

        دوستانہ تعلقات الگ بات ہے اور سیاسی فکرالگ معاملہ ہے،ایک شخص اپنے دوست کے ساتھ اٹھ بیٹھ سکتاہے،اس کی خوشی و غم میں شریک ہوسکتا ہے،اس کے ساتھ کھاپی سکتا ہے؛لیکن اگر دونوں کے سیاسی افکار الگ الگ ہیں ،توان میں سے کسی پراس بات کے لیے زبردستی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے دوست کے طرزِ فکر کو اختیار کرلے۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے،تویہ غیر اخلاقی سوچ ہے۔ ایک انسان کوبولنے کی آزادی،کہیں بھی جانے کی آزادی،کوئی بھی سیاسی یا مذہبی فکر اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی ہمارے ملک کے دستور کی روح ہے،اس پر پابندی لگانے کی ہر کوشش غیر دستوری اور غیر اخلاقی قرار دی جائے گی،تعلقات کی بنیاد غیر مشروط ہونی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے،تو ایسے تعلق میں خود غرضی اور غیرپختہ سوچ کارفرماہے۔

         جگنیش کے سیوان جانے کے معاملے میں سوشل میڈیاپر جو ہنگامہ مچاہواہے،اس سے ہر اس انسان کو تکلیف ہونی چاہیے،جو ’آزادی‘کی وکالت کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جس قسم کا ردِ عمل دیکھنے کو ملاہے،وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ مسلم نوجوانوں کے طرزِ فکر پر سوالیہ نشان ہے۔ جگنیش یاکسی بھی نیتا کے

 حوالے سے مسلم سماج کے کچھ لوگ کس حیثیت سے اپنی سیاسی آزادی کی بات کرسکتے ہیں ؟ایسے لوگ کیسے مبینہ سیکولر پارٹیوں کے نیتاؤں کو گونگا بہرا کہہ سکتے ہیں ؟یہ لوگ جیسے جگنیش کو سیوان میں کمپیننگ سے روکنا چاہتے ہیں ،کسی بھی مسلم امیدوار کے خلاف کمپینگ نہ کرنے کا دباؤ بنانا چاہتے ہیں ،اسی طرح کیامبینہ سیکولر پارٹیوں کااعلیٰ کمان مسلم سماج کے لوگوں کے قتل پر،ان کے گھروں کے جلانے پر،فساد پر،بہوبیٹیوں کی آبرو ریزی پر ایسے ہی لوگوں کوخاموش نہیں کرنا چاہتا ہوگا؟بلکہ جگنیش کے اس معاملے نے بحث کے ایک نئے دروازے کو کھول دیاہے کہ لالو،ملایم،مایا،ممتا اور کانگریس جیسی پارٹیوں کے مسلمان نیتا جگنیش جیسے Victimہوں گے۔

        ان مسلم نوجوانوں کے خلاف بھی ایک سوال اٹھتاہے۔ ہندوتووادی انتہاپسند جماعتوں ،ہندوقاتلوں اور مجرموں کے الیکشن میں کھڑے ہونے اور جیتنے پر ان کے اندر ایک بے چینی بنتی ہے، خوف کا ماحول بنتا ہے؛لیکن اس کے برخلاف اسی قسم کے بعض مسلم امیدواروں کے لیے ان کے دل میں ہمدردی ہوتی ہے،یہ ان کے تئیں پرجوش ہوتے ہیں اور کھلے عام ایسے لوگوں کی حمایت میں اترجاتے ہیں ،یہ ہمدردی اور حمایت کیاہے؟کیایہ فرقہ پرستی نہیں ہے؟ اوراگر یہی فرقہ پرستی ہے، تومسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ ردعمل والی فرقہ پرستی کوکون بڑھاوا دے رہاہے؟

        اس پورے سلسلۂ واقعات کے دوران جگنیش کی سیاسی فکرپر بھی سوال اٹھایاجارہاہے۔ ایک طرف جگنیش کانگریس کی حمایت سے آزاد امیدوار کے طورپر اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ،دوسری طرف وہ عظیم اتحاد میں شامل پارٹیوں کے امیدواروں کے خلاف بائیں بازوکے امیدواروں کے لیے انتخابی کمپینگ کرنے جاتے ہیں ،جبکہ بہار میں کانگریس بھی مہاگٹھ بندھن کا حصہ ہے،مزید یہ کہ جس طرح انھوں نے الیکشن کمپیننگ پر صفائی دینے کی کوشش کی،اس سے ان کی غیر پختہ سیاسی سوجھ بوجھ ظاہر ہوتی ہے۔

        جگنیش کو پورا اختیار ہے کہ وہ کس کے لیے کمپیننگ کرے اور کس کے خلاف کرے،اس سے کسی بھی قسم کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ جگنیش کوبھی اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ وہ اگر دلت مسلم سیاسی اتحاد کی بات کرتے ہیں ،توان کے کسی قدم سے اس اتحاد کو چوٹ نہ پہنچے۔ پھرانھوں نے اپنے او پر سوال اٹھانے والے مسلم نوجوانوں کے لیے جس قسم کے غیر دستوری لب و لہجے کا استعمال کیاہے،وہ ایک ممبر اسمبلی اور سماجی خدمت گار کوزیب نہیں دیتا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ اپنے اندرغیر محسوس طورپر پنپ رہی فرقہ واریت کو کچل کرنظریاتی و اعلی اخلاقی سیاست کو اپناناہے یا’تیری مرغی مرغی اور میری مرغی نورجہاں ‘کی مثال پیش کرتے ہوئے ملک میں تیزی سے بڑھ رہی فرقہ واریت کو مزید بڑھاوادینے کا ذریعہ بنے رہناہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔