اس دل کی باتوں میں آ کر افسوس یہ ہم کیا کر بیٹھے
اختر مسلمی
اس دل کی باتوں میں آ کر افسوس یہ ہم کیا کر بیٹھے
جو چیز نہ ملنے والی تھی ہم اس کی تمنا کر بیٹھے
…
معلوم تھا پہلے ہی سے ہمیں پھر بھی یہ تمنا کر بیٹھے
تھی جس سے نہ کچھ امیدِ وفا ہم اس پہ بھروسا کر بیٹھے
…
کہتے ہیں جسے جذبِ دل کی تاثیر اسی کا نام ہے کیا
نفرت تھی جنھیں اب مجھ سے وہ خود ملنے کی تمنا کر بیٹھے
…
وہ روٹھے ہوئے تھے جب ہم سے ہم روٹھ گئے تھے دنیا سے
پاتے ہی انھیں کیا جانیے کیوں پھر خواہشِ دنیا کر بیٹھے
…
ہے ذوقِ طلب دل میں جو ترے کچھ اس کو بلند اتنا کردے
تو جس کی تمنا کرتا ہے وہ تیری تمنا کر بیٹھے
…
کس طرح کی باتیں کرتے ہو، کیا تم بھی ہوئے ہو دیوانے
خود بات بگاڑی اور اخترؔ تقدیر کا شکوا کر بیٹھے
تبصرے بند ہیں۔