انسان اور زمین کی حکومت (قسط 108)

رستم علی خان

اب کچھ بات قبل از اسلام عرب میں موجود مذاہب کے بارے؛ عرب میں اسلام سے قبل مختلف مذاہب تھے، کچھ کا خیال تھا کہ جو کچھ ہے زمانہ یا فطرت (قانون قدرت) ہے، خدا کوئی چیز نہیں- انہی لوگوں کی نسبت قرآن مجید میں ارشاد ہے؛ ("اور یہ لوگ کہتے ہیں جو کچھ ہے یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، اور ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو مارتا ہے تو زمانہ مارتا ہے-") بعض خدا کے تو قائل تھے لیکن قیامت اور جزا و سزا کے منکر تھے- ان کے مقابلہ پر قرآن نے قیامت کے ثبوت پر اس طرح استدلال کیا ہے؛ ("کہہ دو کہ (ہڈیوں کو) وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں بنایا-") بعض خدا کے اور جزا و سزا کے بھی قائل تھے لیکن نبوت کے منکر تھے’ ان کا زکر اس آیت میں ہے؛ "اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے کھاتا پیتا ہے اور بازار میں چلتا ہے-(” پھر فرمایا؛ "اور کہتے ہیں کہ خدا نے آدمی پیغمبر بنا کر بھیجا”) ان کا خیال تھا کہ اگر کوئی پیغمبر ہو سکتا ہے تو اس کو فرشتہ ہونا چاہیے تھا جو حاجات انسانی سے منزہ ہو- عموما لوگ بت پرست تھے وہ بتوں کو خدا نہیں کہتے تھے مگر کہتے تھے کہ یہ خدا تک پنہچنے کا زریعہ اور وسیلہ ہیں- چنانچہ ارشاد ہے؛ ("اور کہتے ہیں کہ ہم بتوں کو اس لیے پوجتے ہیں کہ ہمیں خدا سے قریب کر دیں”)

قبیلہ حمیر جو یمن میں رہتا تھا آفتاب پرست تھا- کنانہ چاند کو پوجتے تھے- بنی تمیم وبران کی عبادت کرتا تھا- اسی طرح قیس شعری کی، قبیلہ اسد’ عطارد کی، اور لخم و جذام’ مشتری کی پرستش کرتے تھے-

مشہور بت اور ان کی پرستش کرنے والے قبیلے یہ ہیں؛ قبیلہ ثقیف’ لات کی پرستش کرتا تھا جو طائف میں رکھا تھا- قریش و کنانہ’ عزی’ کی جو مکہ معظمہ میں تھا- اوس، خزرج اور غسان والے منات کی جو مدینہ منورہ میں تھا- قبیلہ کلب والے ود بت کی جو دومتہ الجندل میں تھا- قبیلہ ہذیع والے سواع بت کی، مذحج اور قبائل یمن یغوث کی اور  قبیلہ ہمدان والے یعوق بت کی اور یہ تینوں یمن میں تھے-

سب سے بڑا بت "ہبل” تھا جو کعبہ کی چھت پر تھا اور قریش مکہ لڑائی اور جنگ میں اس کی جے پکارتے تھے- عربوں میں بت پرستی کا بانی ایک شخص عمرو بن لحئی تھا- اس کا اصل نام ربیعہ بن حارثہ تھا، عرب کا مشہور قبیلہ خزاعہ اسی کی نسل سے ہے- عمرو سے پہلے جرہم کعبہ کے متولی تھے- عمرو نے لڑ کر جرہم کو مکہ سے نکال دیا اور خود کعبہ کا متولی ہو گیا- وہ ایک دفعہ شام کے ایک شہر میں گیا تو وہاں لوگوں کو بتوں کی پرستش کرتے دیکھا تو پوچھا کہ تم انہیں کیوں پوجتے ہو- انہوں نے کہا یہ ہمارے حاجت روا ہیں، لڑائیوں میں فتح دلاتے ہیں، قحط پڑتا ہے تو بارش برساتے ہیں- عمرو نے چند بت ان سے لے لیے اور لا کر کعبہ کے آس پاس قائم کیے- کعبہ چونکہ عرب کا مرکز تھا اس لیے تمام قبائل میں بت پرستی کا رواج ہو گیا- ان میں سب سے قدیم بت منات تھا یہ سمندر کے کنارے قدید کے قریب نصب تھا- اوس اور خزرج یعنی مدینہ کے لوگ اسی پر قربانی چڑھاتے تھے- اور جب کعبہ کا حج کر کے آتے تھے تو احرام یہیں پر اتارتے تھے- اس کے علاوہ ہذیل اور خزاعہ بھی اسی کی پرستش کرتے تھے- یاقوت تموی نے معجم البلدان (ذکر کعبہ) میں لکھا ہے کہ عرب میں بت پرستی کی عام اشاعت کی وجہ یہ ہوئی کہ قبائل عرب جو تمام اطراف سے حج کو آتے تھے واپس جاتے ہوئے حرم کے پتھروں کو اٹھا لیتے تھے اور ان کو اصنام کعبہ کی صورت پر تراش کر ان کی عبادت کرتے تھے-

اللہ کے بارے عربوں کا اعتقاد: عرب گو تقریبا سب کے سب بت پرست تھے- لیکن اس کے ساتھ ان کے دلوں سے یہ اعتقاد کبھی نہیں گیا کہ اصلی خدائے بزرگ و برتر اور چیز ہے اور وہی تمام عالم کا خالق و مالک ہے اور اس خالق اکبر کو "اللہ” کہتے تھے- چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے؛ "اور اگر ان لوگوں (کافروں) سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا، چاند اور سورج کو کس نے تابعدار بنا رکھا ہے، تو بول اٹھیں گے کہ اللہ، پھر یہ کدھر بہکے جا رہے ہیں؟ پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو خلوص کیساتھ پکارتے ہیں، پھر جب اللہ ان کو نجات دیکر خشکی کیطرف پنہچا دیتا ہے تو شرک کرنے لگتے ہیں-"

قرآن مجید نے چودہ سو برس قبل جس حقیقت کا اظہار کیا آج تحقیقات آثار قدیمہ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے- مذاہب و اخلاق کی انسائیکلوپیڈیا میں مشہور مستشرق نولدیکی کا جو قول نقل کیا ہے اس کے اقتسابات یہ ہیں؛ "اللہ جو صغا کے کتبوں میں "علہ” لکھا ہوا ہے، نباتی اور دیگر قدیم بشندگان عرب شمالی کے نام کا ایک جز تھا- مثلا "زید الہی”….نباتی کتبوں میں اللہ کا نام بطور ایک علیہدہ معبود کے نہیں ملتا لیکن صنعاہ کے کتبات میں ملتا ہے- متاخرین مشرکین میں اللہ کا نام نہایت عام ہے’ ولہاسن نے عرب قدیم کے لٹریچر میں بہت سی عبارتیں نقل کی ہیں جن میں اللہ لفظ بطور ایک معبود اعظم کے مستعمل ہوا ہے- نباتی کتبات میں ہم بار بار کسی دیوتا کا نام پاتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کا لقب شامل ہے اس سے ولہاسن نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ کا لقب جو پہلے مختلف معبودوں کے لیے استعمال ہوتا تھا، رفتہ رفتہ زمانہ مابعد میں ایک عظیم ترین معبود کے لیے بطور علم کے مخصوص ہو گیا.

نصرانیت، یہودیت اور مجوسیت؛ اگرچہ زمانہ اور مدت کا تعین مشکل ہے، لیکن یہ تینوں مذہب ایک مدت دراز سے عرب میں رائج ہو چکے تھے- علامہ ابن قتیبہ نے معارف میں لکھا ہے کہ قبائل ربیعہ و غسان نصرانی تھے- قضاعہ میں بھی اس مذہب کا اثر پایا جاتا تھا- نصرانیت کو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ خود مکہ معظمہ میں ایسے لوگ موجود تھے مثلا "ورقہ بن نوفل” جو عبرانی زبان میں انجیل کو پڑھ سکتے تھے- متعدد ایسے لوگ تھے جنہوں نے شام میں جا کر تعلیم پائی تھی-

"حمیر، بنو کنانہ، بنو حرث بن کعب، کندہ” یہ قبائل یہودی تھے، مدینہ منورہ میں یہود نے پورا غلبہ پا لیا تھا اور تورات کی تعلیم کے لیے متعدد درسگاہیں قائم کی تھیں جن کو بیت المدارس کہتے تھے- حدیث کی کتابوں میں اسی نام سے ان کا زکر آتا ہے، قلعہ خیبر کی تمام آبادی یہودی تھی، امراء العقیس کا ہمعصر مشہور شاعر سمویل بن عادیا جس کی وفاداری آج تک عرب میں ضرب المثل ہے” یہودی تھا-

اہل کتاب کی روایتیں مکہ معظمہ میں اس قدر رواج پا چکی تھیں کہ آنحضرت صلعم پر جب قرآن نازل ہوتا تھا اور اس میں بنی اسرائیل کے واقعات مذکور ہوتے تھے تو کفار بدگمانی کرتے تھے کہ کوئی یہودی یا عیسائی آپ کو سکھاتا ہے- خود قرآن مجید میں اس بات کا ذکر ہے؛ "اور ہم جانتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ محمد صلعم کو کوئی آدمی سکھاتا ہے-” قرآن مجید میں اس خیال کا اجلال بھی کر دیا ہے جس کی تفصیل مناسب موقع پر آئے گی- ان کے علاوہ قبیلہ تمیم مجوسی تھا- زرارہ تمیمی نے جو اس قبیلہ کا رئیس تھا اس بنا پر اپنی بیٹی سے شادی کر لی تھی گو اس پر اس کو ندامت ہوئی- اقرع بن حابس بھی مجوسی تھا-

دین ابراہیمی کا ام الاصول توحید خالص تھی- زمانہ کے اعتداد اور جہالت کے شیوع سے یہ اصول اگرچہ شرک آلود ہو گیا تھا- یہاں تک کہ خود خانہ خدا میں بتوں کی پرستش ہونے لگی تھی- تاہم بلکل فنا نہیں ہو سکتا تھا، عرب میں کہیں کہیں اس کا دھندلا سا نشان نظر آتا تھا- جو لوگ صاحب بصیرت تھے ان کو یہ منظر نہایت نفرت انگیز معلوم ہوتا تھا کہ انسان عاقل جماد الایعقل کے سامنے سر جھکائے- اسی بنا پر بت پرستی کی برائی کا خیال بہتوں کے دل میں آیا- لیکن اس کا تاریخی زمانہ آنحضرت صلعم کی بعثت سے کچھ ہی پہلے شروع ہوتا ہے- ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلا میں ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن حجش، عثمان بن الحویرث، زید بن عمرو بن نفیل شریک تھے- ان لوگوں کے دلوں میں دفعتہ یہ خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہے کہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں جو نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے، نہ کسی کو فائدہ پنہچا سکتا ہے- یہ چاروں قریش کے خاندان سے تھے- ورقہ بن نوفل ام المونین حضرت خدیجتہ الکبری کے چچا زاد بھائی تھے- زید حضرت حضرت عمر فاروق رض کے چچا تھے، عبداللہ بن حجش حضرت حمزہ رض کے بھانجے تھے، عثمان عبدالعزی کے پوتے تھے-

زید دین ابراہیمی کی تلاش میں شام گئے اور وہاں یہودی اور عیسائی پادریوں سے ملے لیکن کسی سے تسلی نہ ہوئی- اس لیے اس اجمالی اعتقاد پر اکتفا کیا کہ میں ابراہیم کا مذہب قبول کرتا ہوں- صحیح بخاری میں [باب بنیان الکعبہ سے پہلے] حضرت اسماء بنت ابوبکر رض سے روایت ہے کہ؛ میں نے زید کو اس حالت میں دیکھا کہ کعبہ سے پیٹھ لگائے لوگوں سے کہتے تھے؛ "اے اہل قریش! تم میں سے کوئی شخص بجز میرے ابراہیم کے دین پر نہیں ہے-"

عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے- زید ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس رسم کی ممانعت کی- جب کوئی شخص ایسا ارادہ کرتا تو وہ جا کر اس لڑکی کو مانگ لیتے اور پھر خود اس کی پرورش کرتے- صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلعم نے نبوت سے پہلے زید کو دیکھا تھا اور ان سے صحبت رہی تھی- ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن حجش اور عثمان بن الحویرث بت پرستی چھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے-

اسی زمانہ کے قریب امیہ بن ابی صلت نے جو طائف کا رئیس اور مشہور شاعر تھا بت پرستی کی مخالفت کی- حافظ ابن حجر نے اعصابہ میں زبیر بن بکار کی سند سے لکھا ہے کہ امیہ نے زمانہ جاہلیت میں آسمانی کتابیں پڑھی تھیں اور بت پرستی چھوڑ کو کر دین ابراہیمی اختیار کر لیا تھا- امیہ کا دیوان آج بھی موجود ہے اگرچہ اس کا بڑا حصہ جعلی ہے تاہم اصلی کلام بھی اس میں پایا جاتا ہے- وہ غزوہ بدر تک زندہ رہا اور عتبہ جو رئیس مکہ تھا امیہ کا ماموں زاد بھائی تھا- امیہ نے جب اس کے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی خبر سنی تو سخت صدمہ ہوا اور نہایت پردرد مرثیہ لکھا- غالبا اسی کا اثر تھا کہ اسلام قبول نہ کر سکا-

شمائل میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی آنحضرت صلعم کے ہم ردیف تھے انہوں نے امیہ کا ایک شعر پڑھا- آپ نے فرمایا "اور” انہوں نے "سو” شعر پڑھے- ہر شعر کے ختم ہونے پر آپ فرماتے جاتے تھے "اور” اخیر میں آپ نے فرمایا کہ؛ "امیہ مسلمان ہوتے ہوتے رہ گیا.

تبصرے بند ہیں۔