ہوس کی دھوم دھام ہے نگر نگر گلی گلی!

لقمان عثمانی

اس جہانِ رنگ و بو کی رنگینیوں میں پڑنے کو سفاہت نہیں تو اور کیا کہیے، کائناتِ آب و گل کے سرابوں کا تعاقب کرنے کو جہالت نہیں تو اور کیا سمجھیے، کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں شمعِ دینِ حق جلا کر نورِ توحید و رسالت سے پوری دنیا کو بہرہ ور کرنے والے نبیِ آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی بجائے مغربی تہذیب کا قلادہ اپنے گلے میں ڈال لینے کو ضلالت نہیں تو اور کیا جانیے، ربِ کریم کی طرف سے عطا کردہ نعمتِ عظیم (قران کریم) اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرموداتِ گراں مایہ کو حرزِ جاں نہ بنا کر مغرب سے آنے والی ہر تعفن زدہ رسم و رواج کو اپنی ترقی کا پیش خیمہ اور اپنی کامیابی کا زینہ تصور کرنے کو رکاکت نہیں تو اور کیا گردانیے؟ یقینا یہ جہالت و سفاہت ہی ہے جو دشمنانِ اسلام کے بیہودہ خرافات سے خود کو روک پانے میں آڑے آرہی ہے، یہ ضلالت و رکاکت ہی ہے جو بدی کے پھول بوٹوں سے سجے ہوئے پر فریب منارات و دیدہ زیب عمارات کی رعنائیوں میں مست و مگن ہونے اور گناہوں کے ڈھیر پر بنائے ہوئے بھول بھلیوں کے پر پیچ راستوں میں کھوتے چلے جانے پر مجبور کررہی ہے؛ گویا مغربی اقدار و روایات کے عقیدت مندوں کا حال "اسکا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے“ سے بقدرِ ذرہ بھی مختلف نہیں ـ

یورپ سے برپا ہونے والے طوفانِ بدتمیزی کے باب میں ”ویلنٹائنس ڈے“ بھی وہاں کے بدبودار جھونکے کا ایک نمونہ ہے؛ جس کی افزائش اسلامی ممالک میں بھی روز افزوں ہے اور اسکو ”یومِ محبت“ کے طور پر سلیبریٹ کیا جاتا ہے ـ اسکی ابتدا کے سلسلے میں تو مختلف واقعات لکھے اور بتائے جاتے ہیں؛ البتہ ان تمام واقعات سے جو پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ بے حیائی کا یہ شرمناک دن تیسری صدی عیسوی کے کسی ”سینٹ ویلنٹائن“ نامی شخص کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو اعلی درجے کا بدچلن اور زانی تھا ـ

ویلنٹائنس ڈے کی قباحت ثابت کرنے کیلیے یہی کیا کم ہیکہ اسکو ایک زانی شخص کی یاد میں منایا جاتا؛ چہ جائیکہ اس دن ہونے والے خرافات کو بھی لفظوں کے کوزے میں سمیٹ کر اپنی توانائی صرف کی جائے؛  لیکن پھر بھی ”اظہارِ محبت میں مضائقہ ہی کیا ہے؟“ کی دلیل کا سہارا لیے پھرنے والوں کیلیے یہ ناکافی ہے ـ

 محبت میلانِ قلب کا نام ہے جو دو دلوں کے بیچ قرب و الفت پیدا کرتی ہے، ایک احساس اور پاکیزہ جذبہ ہے جو ماں باپ، بھائی بہن، شوہر بیوی اور دوستوں کے مقدس رشتوں کی پاکیزگی کا احساس دلاتا اور پاکیزہ جذبات وابستہ رکھنے کی ہدایت دیتا ہے اور توفیقِ خداوندی ہے جو ہر کسی کو نہیں ملتی اور یہ تمام چیزیں کسی خاص دن یا کسی مخصوص موقع کی قطعا محتاج نہیں؛ چناں چہ:

مقرر کیوں کریں میعاد اسکی کوئی مجبوریِ اوقات ہے کیا

بھلا یومِ محبت کیا منائیں محبت ایک دن کی بات ہے کیا؟

کہنے کو تو یہ ”یومِ محبت“ ہے؛ جس میں اپنی محبوبہ سے اظہارِ محبت کیا جاتا ہے؛ لیکن اس دن ”یومِ محبت“ کے نام پر اپنی ہوس کو محبت کے قالب میں ڈھال کر محبت جیسے پاکیزہ جذبے کو رسوا سرِ بازار کیا جاتا ہے، حرصِ جسم کے جنون میں کسی کی بہن بیٹی کے آبگینۂ عفت کو چور چور کیا جاتا ہے، ابھرتی ہوئی شہوت اور مچلتی ہوئی خواہشات کی تکمیل کیلیے عشق و وفا کے دعوے کیے جاتے، دبے کچلے ارمانوں کو پورا کرنے کیلیے کسی کے نورِ نظر، لختِ جگر کو پیار و محبت کا شیش محل دکھا کر اسکی آنکھیں نوچ لی جاتی ہیں؛ قصۂ مختصر یہ کہ اظہارِ محبت کے نام پر تذلیلِ محبت کی جاتی ہے، گویا:

معیار زندگی کو بڑھانے کے شوق میں

کردار پستیوں سے بھی نیچے گرادیا

در اصل یہ محبت نہیں، love سے lust  تک کا گھناؤنا سفر ہے؛ جو پارکوں میں چاہت کا گلاب پیش کرنے سے شروع ہوکر خواب گاہ میں ذلت کی چادر تاننے پر ختم ہوجاتا ہے، یہ یومِ محبت نہیں، یومِ تذلیلِ محبت ہے؛ جو کسی کی عزت و آبرو سے کھیلنے والی تمام ذلیل حرکتوں کا مجموعہ ہے، یہ محبت کے پاسدار نہیں، محبت کے سودا گر ہیں جو ہوس کی بھوک مٹانے کیلیے اس مقدس جذبے کی حرمت کو پامال کرتے اور ”الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرة“ (جو لوگ مومنوں کے بیچ فاحشات کو عام کردینا چاہتے ہیں، انکے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے) کا مصداق بنتے ہیں ـ

بے حیائی کے اس بڑھتے چلن اور مغربی تہذیب کے مہلک جراثیم کی ترویج کا ذمہ دار صرف مردوں کو ہی نہیں ٹھہرایا جا سکتا، بلکہ فیشن کے نام پر طوائفوں کی ادائیں چرانے والی ان عورتوں کا بھی برابر کا حصہ ہے؛ جو اپنے سرمایۂ عفت کو ایک پھول اور چند چکنی چپڑی باتوں کے بدلے بیچ دیتی اور خود کو نیلام ہونے دیتی ہیں ـ

ان محبت کے دعویدار اور عشق کے بیوپار سے کوئی پوچھے تو سہی کہ اگر تمہارے ہی جیسا کوئی منچلا اوباش و بدقماش جنسی بے راہ روی کی سرحد کو پھلانگ کر تمہاری ہی بہن بیٹی کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھانس کر اپنی عیاشی کا سامان بنالے تو کیا جب بھی تمہاری غیرت و حمیت تمہیں ڈوب مرنے پر نہیں ابھاریگی، کیا اس وقت بھی تم ”اظہارِ محبت میں مضائقہ ہی کیا ہے؟“ کی دلیل اپنے دل و دماغ میں پیوست کیے پھروگے؟ اگر نہیں تو پھر تم خود کیوں کسی کی ردائے پارسائی سمجھی جانے والی ناقص العقل بیٹی کے لباسِ پاکدامنی کو چاک کردینے کے درپے ہو، کیا خود کسی کے کاکلِ پیچاں سے کھیل کر اپنے گھر کی عزت کی سلامتی چاہنا خار دے کر گل کی توقع رکھنے جیسا نہیں؟ حد ہیکہ:

کانٹوں کو بچھا کر یار مرے گلشن کی توقع رکھتے ہیں

شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔