میں اسے سمجھوں ہوں دشمن، جو مجھے سمجھائے ہے

حفیظ نعمانی

بعض حضرات کو ہر مسئلہ میں اپنی رائے دینے کا شوق ہوتا ہے خدا خوش رکھے مولانا سلمان حسینی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے تبلیغی جماعت کے نئے نصرت جی مولانا سعد کاندھلوی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کو مرجع بنانے کے بجائے ایک عالمی شوریٰ بنائیں جس میں سعودی عرب کے علاوہ عالم اسلام کے متعدد ملکوں میں سے ایک ایک عالم کو مجلس شوریٰ کا ممبر بنائیں۔ پورے خط کا حاصل یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی عظمت اور برتری کو اہمیت نہ دیں۔ جبکہ جماعت کے بانی اور اسے اس مقام تک لانے والے مظاہرالعلوم سہارنپور اور علماء دارالعلوم دیوبند ہیں۔ مولانا سلمان حسینی نے اگر یہ بتا دیا ہوتا کہ انہوں نے اپنے ذاتی ادارہ  شباب الاسلام کے لئے ایسی ہی ملکوں ملکوں کے ماہرین کی مجلس شوریٰ بنائی ہے تب ان کو دوسروں کو مشورہ دینے کا حق تھا۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور اساتذہ نے جو سخت موقف اختیار کیا ہے وہ شرک کو چھونے والے اور بدعت کو فروغ دینے والے ان بیانات پر کیا ہے جو تبلیغی کام کے نام پر ان لوگوں کو بلانے کے لئے دیئے گئے ہیں جو ملک کے شہروں شہروں میں بنے مزارات کی زیارت اور ان کو معبود سمجھ کر ان پر سجدہ کرتے اور ہر مراد ان سے مانگتے ہیں۔ اجمیر والے خواجہ یا حاجی وارث علی شاہ کے مزار پر جو جاکر سجدہ کرتے ہیں وہ اسے نعوذ باللہ، چھوٹا کعبہ سمجھتے ہیں اور لاکھوں جاہل اجمیر کے عرس کو چھوٹا حج کہتے ہیں۔ اب اگر جماعت میں آنے والے بے علم بھولے بھالے مسلمانوں کو بتایا جائے کہ نظام الدین کی طرف رجوع کرنا اللہ کی طرف سے ہے یا نظام الدین کے بارے میں غلط سوچنا مکہ مدینہ کے بارے میں غلط سوچنا ہے اور اسی طرح کی مشرکانہ باتوں کے بعد کیا بنگلہ والی مسجد اور مرکز کی ایک ایک اینٹ سونے کی اینٹ یا خانۂ خدا کی اینٹ سمجھ کر کیوں نہیں لے جائیں گے اور پھر وہ شہروں شہروں نظام الدین کی اینٹ دکھاکر کیوں کاروبار نہیں کریں گے؟

کیا مولانا سعد کو یہ نہیں معلوم ہے کہ جس مبارک مکان میں حضوؐر اکرم کی ولادت باسعادت ہوئی ہے اسے ایک لائبریری بنا دیا گیا ہے تاکہ مسلمان شرک نہ کرسکیں۔ حضرت عمرؓ نے صلح حدیبیہ والے تاریخی درخت اور ہر اس چیز کو جس کے بارے میں یہ خطرہ ہوا کہ مسلمان اس کی پرستش کرنے نہ لگیں اس کے نشانات بھی نہیں رہنے دیئے ہیں۔ نظام الدین ایک بستی کا نام ہے مسجد بنگلہ والی ہے اور مکان میں حضرت مولانا الیاسؒ رہتے تھے۔ آج اگر مرکز وہاں سے ہٹاکر جامع مسجد میں آجائے تو نظام الدین صرف ایک بستی رہ جائے گی۔ مولانا سعد کی شکل صورت لباس جیسا بھی ہو وہ صرف حضرت مولانا یوسفؒ کے پوتے ہیں جن کو ان کے والد ماجد کی دعوت اور آگ پروردگار نے شاید منتقل کردی تھی۔ یا وہ چھپے رستم تھے کہ اپنے والد بزرگوار کی زندگی میں انہوں نے ایک بھی تقریر نہیں کی اور ان کے وصال کے بعد وہ کھل کر سامنے آگئے۔

ہم محترم قاضی عدیل عباسی صاحب کو بہت بڑا آدمی مانتے ہیں وہ جس دن سے کانگریس میں آئے تو بڑے بڑے مسلمان اسے چھوڑکر نکل آئے لیکن وہ آخری سانس تک کانگریسی رہے۔ یہ ان کی مستقل مزاجی تھی اور وہی قاضی صاحب جو تبلیغی جماعت کو کلمہ نماز کی اور گاوئوں والوں کیلئے اچھی جماعت مانتے تھے ان کو جب لوگ حضرت مولانا یوسفؒ کی تقریر میں لے گئے تو عمر بھر یہ کہتے رہے کہ وہ عالم یا مقرر نہیں جادوگر ہیں اور جب وہ تقریر کررہے تھے تو ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ میدانِ حشر میں کھڑے ہیں وہاں کا عالم بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ پروردگار کے جمال کا نمونہ ہے اور یہ ان کے جلال کا نمونہ ہے۔ اور مجھے جنت بھی دکھائی دے رہی ہے اور جہنم بھی اور محسوس ہوتا تھا کہ وہ کمنٹری کررہے ہیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہے۔ اس لئے کہ ایک سے ایک بڑے عالم کی تقریر سنی مگر یہ یقین کسی کے پاس نہیں دیکھا۔

مولوی سلمان حسینی کو معلوم ہونا چاہئے کہ مولانا منظور نعمانی اپنے دَور میں مسلک ِ دیوبند کے سب سے بڑے وکیل تھے اور آخر عمر تک ان کے زمانہ میں ان سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔ اور وہ برسوں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں میں رہے۔ اگر وہ باتیں جواب جماعت یا نظام الدین کے بارے میں کہی جارہی ہیں کسی نے ایک جملہ بھی کہا ہوتا تو وہ وہیں جواب دیتے اور پھر اس وقت تک الفرقان میں لکھتے رہتے جب تک توبہ نہ کرالیتے۔ انہیں مولانا سعد کے پردادا حضرت مولانا الیاس اور میاں جی عیسیٰ نے مسلسل دعائیں کرکے اللہ تعالیٰ سے بلوایا تھا۔ وہ عمر میں مولانا یوسف صاحب سے کافی بڑے تھے لیکن وہ بھی یہ کہتے تھے کہ اللہ نے ان کو وہ دیا ہے جو ہم میں سے کسی کو نہیں دیا۔ ابتدائی دَور تھا مدرسہ شاہی مراد آباد میں جماعت ٓائی ہوئی تھی ایک جماعت بجنور بھیجنے کے لئے مولانا یوسف صاحب تقریر کررہے تھے ایک گھنٹہ کی تقریر کے بعد بھی کوئی تیار نہیں ہوا۔ حضرت مولانا نے مائک چھین کر ہاتھ میں لے لیا اور غصہ میں فرمایا آج 50  میل دور بجنور جانے کے لئے تم تیار نہیں ہوتے یاد رکھو ایک دن وہ آئے گا کہ تم برطانیہ، چین، جاپان اور امریکہ جانے کی ضد کروگے اور ہم کہیں گے کہ جماعت پوری ہوگئی اب اگلے سال چلے جانا۔ مولانا نعمانی نے کہا تھا کہ ہم سوچنے لگے کہ یہ کس دنیا کی بات کررہے ہیں؟ اور جب دنیا کے ہر ملک میں جماعت جانے لگی تو خیال آیا کہ پروردگار نے واقعی انہیں وہ نگاہ دی ہے جس کا قاضی عدیل نے ذکر کیا ہے۔

مولانا سلمان حسینی ہوں یا کوئی اور اگر جماعت نے دیوبند اور سہارنپور سے منھ پھیرا اور نظام الدین کو ایک عام عمارت سے رتی برابر بھی زیادہ اہمیت دی تو پھر ’کلُّ بدعۃٍ ضلالۃ کلّ ضلالۃٍ فی النار‘ کے بارے میں وہ سوچ لیں۔ مولانا سلمان بھی ان لوگوں میں ہیں جو دیوبند کے بارے میں دوسری وجوہات کی بناء پر الگ سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن آج بھی دارالعلوم اور مظاہرالعلوم ہی مرجع ہیں اور مرجع رہیں گے۔ اور پاکستان میں یا بنگلہ دیش میں جو عالم بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ ان مدارس کے شاگرد ہیں یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں سلسلہ وہی ہے اور مولانا سعد کو اگر اپنے بزرگوں کا کچھ بھی خیال ہے تو ان شریف غنڈوں کو کچھ لے دے کر چلتا کردیں اور اگر یہی گروپ ان کو اچھا لگتا ہے تو پھر کھل کر ڈھولک بجوائیں اور قوالی شروع کردیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. Zafar ahmad کہتے ہیں

    اچھا لکھا ہے آپ نے ماشاءاللہ بہت خوب لکھا
    "كل بدعة ضلالة "

  2. منصور قاسمی کہتے ہیں

    آئینہ دکھا دیا ہے آپ نے سلمان ندوی صاحب کو ، اللہ ان کو فکر سلیم دے ۔

تبصرے بند ہیں۔