ناپ تول میں کمی: ایک قبیح عمل

پروفیسر حکیم سید عمران فیاض

ناپ تول میں کمی ایک غیر اخلاقی اور غیر شرعی فعل ھے۔ دین اسلام میں اس کی ممانت کی گٸی ھے۔ لیکن ھمارے معاشرے میں شاید دین سے دوری یا کم علمی کی وجہ یا ناجاٸیز منافع خوری  اور دنوں میں دولت مند بننے کی ہوس نے بعض لوگوں کی نظرورں کے سامنے دوسری تمام باتوں کی اھمیت کو ختم کر دیا ھے۔  ناپ تول میں کمی۔ ناجاٸیز منافع خوری۔ جھوٹ۔ بغض۔ عہد شکنی۔ بے حیاٸی و فحاشی۔ حق تلفی۔ عیب جوٸی  کرنے کی اسلام نے ممانت فرماٸی ھے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد  کو پورا کرنے کی تلقین فرماٸی ھے۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ ھود میں  ارشاد فرمایا :

’’ حضرت شعیبؑ نے کہا  اے میری قوم !بندگی کرو اللہ کی، کوئی نہیں معبود تمہارا اس کے سوا اور نہ گھٹاؤ ناپ اور تول کو، میں دیکھتا ہوں تم کو آسودہ حال اور ڈرتا ہوں تم پر عذاب سے ایک گھیر لینے والے دن کے اور اے قوم پورا کرو ناپ اور تول کو انصاف سے اور نہ گھٹا کر دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت مچاؤ زمین میں فساد‘‘۔(ھود:۸۴-۸۵)

مذکورہ آیت کریمہ میں حضرت شعیبؑ نے پہلے تو اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی کیونکہ یہ لوگ مشرک تھے، درختوں کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے اس کفرو شرک کے ساتھ ان میں ایک عیب یہ تھا کہ بیوپار اور لین دین کے وقت ناپ تول میں کمی کرکے لوگوں کا حق مارلیتے تھے، حضرت شعیبؑ نے  ان کو  اس مبغوض ترین  عمل سے منع فرمایا، سب سے پہلے اپنی قوم کو پیغمبرانہ شفقت کے ساتھ یہ سمجھایا کہ میں تمہیں اس وقت خوشحالی میں دیکھتا ہوں(کوئی فقرو فاقہ او رمالی تنگی نہیں ہے، اس خوشحالی اور مال و دولت میں فراوانی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ تم اللہ کی مخلوق پر ناپ تول میں کمی زیادتی کرکے ظلم نہ کرو) اور پھر آگے فرمایا کہ اگر تم نے میری بات نہ سنی اور اس عمل خبیث سے باز نہ آئے تو مجھے خطرہ ہے کہ خدا کا عذاب تمہیں گھیر لے۔

اس ممانعت کے بعد پورا پورا ناپنا تولنا خود ہی ضروری ہوجاتا ہے لیکن مزید تاکید کے لئے حضرت شعیبؑ نے فرمایا: اے میری قوم تم ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزوں کو کم نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو، پھر بڑی شفقت کے ساتھ فرمایا : لوگوں کے حقوق ناپ تول پورا کرا کے ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچ رہے تمہارے لئے وہی بہتر ہے تم میری بات مانو اور اگرمیری بات نہ مانو گے تو یاد رکھو میں اس کا ذمہ دار ن ہیں کہ تم پر کوئی عذاب آجائے۔

حضرت شعیبؑ کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ خطیب الانبیاء ہیں، آپ نے اپنے حسن بیان سے اپنی قوم کو سمجھانے اور ہدایت پر لانے کی پوری کوشش کی مگر یہ سب کچھ سننے کے قوم نے وہی جواب دیا جو جاہل قومیں اپنے مصلحین کو دیا کرتی ہیں، ان پر پھبتیاں کسیں اور استہزا کیا، کہنے لگے

’’یعنی کیا تمہاری نماز تمہیں یہ بتلاتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے آباء و اجداد کرتے چلے آئے ہیں اور ہم اپنے مملوک اموال میں خود  مختار نہ رہیں کہ جس طرح ہمارا جی چاہئے معاملہ کریں، بلکہ اپنے معاملات بھی آپ سے پوچھ پوچھ کر کیا کریں کہ کیا حلال ہے کیا حرام ؟‘‘ (ھود:۸۷)

حضرت شعیبؑ کی نماز پوری قوم میں معروف تھی بکثرت نوافل اور عبادت میں لگے رہتے تھے، اس لئے ان کے ارشادت کو بطور استہزا کے نماز کی طرف منسوب کیا کہ تمہاری یہ نماز ہی تمہیں (معاذ اللہ) ایسی غلط باتیں بتاتی ہے، ان کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی یوں سمجھتے تھے کہ دین و شریعت کا کام صرف عبادات تک محدود ہے، معاملات میں اس کا کیا دخل ہے، ہر شخص اپنے معاملات میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس پر کوئی پابندی لگانا دین کا کام نہیں جیسا کہ اس زمانہ میں بھی بہت سے بے سمجھ ایسے خیالات رکھتے ہیں۔

قوم نے خالص ہمدردی دل سوزی اور نصیحت کا جواب اس قدر تلخ دیا، مگر حضرت شعیبؑ شان پیغمبری رکھتے تھے، یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اسی ہمدردی کے ساتھ راہ ہدایت پر لانے کی سعی پیہم کرتے رہے لیکن جب نہیں مانے تو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔

’’یعنی تم سوچو سمجھو ایسا نہ ہو کہ میری مخالفت اور عداوت تم پر کوئی ایسا عذاب لا ڈالے کہ تم سے پہلے  قوم نوح، قوم ہود یا  قوم صالح پر آچکا ہے اور لوط ؑ کی قوم اور ان کا عبرتناک عذاب تو تم سے کچھ دور نہیں۔(ھود:۸۹)

یعنی مقامی اعتبار سے بھی قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں مدین کے قریب ہی ہیں اور زمانہ کے اعتبار سے بھی تم سے بہت قریب زمانہ میں ان پر عذاب آیا ہے، اس سے عبرت حاصل کرو او راپنی ضد سے باز آجاؤ۔

ان کی قوم اس نصیحت کو سن کر اور بھی زیادہ اشتعال میں آگئی  اور کہنے لگی کہ اگر آپ کے خاندان کی حمایت آپ کو حاصل نہ ہوتی تو ہم آپ کو سنگسار کردیتے، حضرت شعیبؑ نے اس پر بھی ان کو نصیحت کی کہ تم کو میرے خاندان  کا تو خوف ہوا مگر کچھ  خوف نہ آیا جس کے قبضہ میں  سب کچھ ہے۔

بالآخر قوم نے کوئی بات نہ مانی تو حضرت شعیبؑ نے فرمایا کہ اچھا تم عذاب کا انتظار کرو، پھر حق تعالیٰ نے مومنین کو بچا کر سب کو ہلاک کردیا۔(مستفاد:معارف القرآن۴/۶۶۱-۶۶۴)

مذکورہ آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوا ناپ تول میں کمی کرنا اللہ کے نزدیک نہایت مبغوض عمل ہے، مفسرین نے لکھا ہے کہ قوم شعیبؑ پر عذاب آنے کا ایک سبب ان کا ناپ تو ل میں کمی زیادتی کرنا بھی، آج کل ہم لوگوں سے بھی اس حکم کے بارے میں کافی کوتاہی ہورہی ہے، جس کی بناء پر  امت افلاس اورگرانی اشیاء کے عذاب میں مبتلا ہے۔

ہر حق تلفی کمی زیادتی میں داخل ہے

ان تمام آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ تطفیف و تخسیر یعنی دوسروں کے حقوق میں کمی و کوتاہی کرنا حرام ہے، چونکہ معاملات اور لین دین  میں زیادہ تر وزن و پیمائش ہی کو دخل ہے اس لئے آیات و روایات میں ایسے موقع پر انہیں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ورنہ تطفیف و تخسیر کا مفہوم ہر حق تلفی کو عام ہے، محققین علماء نے اس تصریح فرمائی ہے۔

بعض اکابر ملت سے منقول ہے کہ یہ الفاظ وسیع المعنی ہیں، ناپ تول کی خیانت کو بھی شامل ہیں اور ہر قسم کی خیانت و خست کے لئے استعمال ہوتے ہیں مثلاً اپنے عیبوں کو چھپانا دوسروں کے عیبوں کو ظاہر کرنا، اپنے لئے انصاف طلب کرنا اور دوسروں کے ساتھ نا انصافی کرنا، اپنے عیبوں کو نظر انداز کرنا اور دوسروں کی عیب جوئی کرنا، اسی طرح خادموں، نوکروں، مزدوروں، ملازموں سے خدمت اور کام ٹھوک بجا کر لینا اور ان کا حق الخدمت اور اجرت کم دینا اور خادموں اور نوکروں کا ڈیوٹی کے کام اور خدمت میں کمی اور سستی کرنا یا وقت کم لگانا اور حق الخدمت مزدوری و اجرت پوری وصول کرنا اسی طرح حق تعالیٰ سے عزت و راحت اور عافیت چاہنا اور اس کی اطاعت، عبادت فرماں برداری میں کوتاہی کرنا وغیرہ یہ سب چیزیں تطفیف و تخسیر میں داخل ہیں۔ (خلاصہ تورات۱۲۳)

مئوطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع و سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا جلدی جلدی نماز ختم کر ڈالتا ہے، تو اس کو فرمایا ’’ تونے اللہ کے حق میں تطفیف کر ڈالی ‘‘۔ حضرت فاروق اعظمؓ کے قول کو نقل کرکے حضرت امام مالکؒ نے فرمایا  ’’ بپورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے، یہاں تک کہ نماز، وضو، طہارت میں بھی اور اسی  طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے، اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے، وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے، مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے  وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے، وقت کے اندر جس طرح  محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے، اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے۔(معارف القرآن۸/۶۹۳)

اللہ ہماری حفاظت فرمائے، اس میں عوام و خواص میں کافی غفلت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مذکورہ تعلیمات و ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائیں،آمین

کم ناپنے اور تولنے کا وبال

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا پانچ گناہوں کی سزا پانچ چیزیں ہیں:

(۱) جو قوم عہد شکنی کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمن کو مسلط فرمادیتے ہیں۔

(۲)جو قوم اللہ کے حکم کو چھوڑ کر دوسرے قوانین پر عمل کرتی ہے، ان میں افلاس ضرور پھیل جاتا ہے۔

(۳) جس قوم  میں بے حیائی و بدکاری عام ہوجاتی ہے، ا س پر اللہ تعالیٰ ظالموں اور دوسرے وبائی امراض مسلط کردیتے ہیں۔

(۴)جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو قحط میں مبتلا کردیتے ہیں۔

(۵)جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے بارش روک دیتے ہیں۔(معارف القرآن۸/۶۹۴)

طبرانی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس قوم میں مال غنیمت کی چوری رائج ہوجائے  اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دشمن کا عرب اور ہیبت ڈال دیتے ہیں اور جس قوم میں ربا یعنی سود خوری کا رواج ہوجائے ان میں موت کی کثرت ہوجاتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا رزق قطع(تنگ) کردیتے ہیں، اور جو لوگ حق کے خلاف فیصلے کرتے ہیں، ان میں قتل و خون عام ہوجاتا ہے اور جو لوگ معاہدات میں غداری کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن کو مسلط فرمادیتے ہیں۔ ( معارف القرآن۸/۶۹۴)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ناپنے اور تولنے والوں سے ارشاد فرمایا تمہارے ہاتھ میں دو ایسے کام ہیں جن کے سبب تم سے پہلے قومیں ہلاک ہوئیں(یعنی پورا وزن نہ ناپنے اور کم دینے کے سبب ہلاک ہوئیں تم ایسا نہ کرنا)(ترمذی شریف۱/۱۴۶)

صحیح ناپ تول کا بہترین  انجام

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور جب ناپ کردو تو پورا ناپو اور تولنے کی چیزوں کو صحیح ترازو سے تو کر دو(یہ فی نفسہ بھی) اچھی بات ہے، اور انجام بھی اس کا اچھا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل:۲۵)

اس آیت کریمہ میں  ناپ تول پورا پورا کرنے کا حکم دے کر آخر میں فرمایا یہ عمل فی نفسہ بہتر عمل ہے، کیونکہ انسانیت اور عقل صحیح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انصاف کیا جائے، کسی کے حق میں کمی نہ کی جائے، اسی لئے کوئی شریف آدمی ناپ تو ل میں کمی زیادتی کو اچھا نہیں سمجھتا اور شرعی حکم بھی یہی ہے کہ انصاف کے ساتھ پورا پورا حق حقدار کو دے دیا جائے، دوسری بات یہ فرمائی کہ مال اور انجام بھی اس کا بہت بہتر ہے مثلاًآخرت میں حصول ثواب رضائے الٰہی اور جنت کا داخلہ  تو ہے ہی، ان فوائد کے علاوہ دنیا میں بھی لوگوں کا اعتبار و اعتماد  حاصل ہوگا جو تجارت میں ترقی اور فروغ کا ذریعہ بنے گا، کاش ہم ان فضیلتوں کے حصول کی سعی کریں اور فلاح دارین کے مستحق بن جائیں۔

تبصرے بند ہیں۔