ہوش مندی کی ضرورت

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

  ہم سب جانتے ہیں کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی تھی اور ان کے دشمن بدترین شکست سے دوچار ہوئے تھے، حالاں کہ دشمن کے مقابلے میں ان کی تعداد صرف ایک تہائی تھی اور ان کے مقابلے میں دشمن ہر طرح کے سامانِ جنگ سے لیس تھا۔ مسلمانوں کی کام یابی کی بہت سی وجوہ بیان کی جا سکتی ہیں ، مثلاً نصرتِ الٰہی، مسلمانوں کا ذوقِ شہادت، ان کا بہتر تنظیمی ڈھانچہ، قریش کی صفوں کا انتشار اور ان کا کبر و غرور وغیرہ۔ لیکن مسلمانوں کی کام یابی کا ایک اور بھی اہم سبب تھا۔ وہ یہ کہ انھوں نے جنگ اپنے پسند کردہ میدان میں لڑی تھی۔ مسلمان بدر کے میدان میں پہلے پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے میدان کا باریکی سے جائزہ لےکر اندازہ لگا لیا تھا کہ ان کے پڑاؤ کے لیے کون سی جگہ بہتر ہوگی؟ اور کس جگہ رہ کر دشمن پر بہتر وار کیا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں کا پڑاؤ بلندی پر تھا، جس کی وجہ سے قریش ان کی صحیح تعداد کا اندازہ نہ لگا سکے۔ لڑائی کے وقت سورج قریش کے سامنے پڑتا تھا، جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں ۔ جنگ سے چند گھنٹے پہلے بارش ہوگئی، چنانچہ قریش کے پڑاؤ کے قریب کیچڑ ہوگئی، جس سے انھیں بہت زحمت ہوئی، جب کہ مسلمانوں نے جس جگہ پڑاؤ کیا تھا وہ ریتلی زمین تھی۔ بارش سے ریت جم گئی، جس سے انھیں آسانی ہو گئی۔

 اس سے ہمیں ایک بہت اہم سبق ملتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگ میں اس فریق کو کام یابی ملتی ہے جو اپنے پسند کردہ میدان میں لڑتا ہے اور ناکامی اس فریق کا مقدّر ٹھہرتی ہے تو دوسرے کے پسند کردہ میدان میں لڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

گزشتہ ایک عشرہ سے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں انتشار برپا ہے ۔ اس کا آغاز اس طرح ہوا کہ علی گڑھ میں ہندوتوا حامی پارٹی بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ نے یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ یونی ورسٹی یونین ہال میں آویزاں محمد علی جناح کی تصویر ہٹائی جائے، اس لیے کہ جناح ملک کی تقسیم کے ذمے دار تھے، ان کی تصویر آویزاں کرنے کا مطلب ان سے محبت ہے، جو دیش دروھ کی علامت ہے۔ پھر 2 مئی کو، جب ملک کے نائب صدرِ جمہوریہ جناب محمد حامد انصاری یونی ورسٹی کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے، جس میں ان کو اسٹوڈینٹس یونین کی لائف ممبرشپ دی جانی تھی، شہر کے کچھ غنڈے یونی ورسٹی کیمپس میں داخل ہوئے۔ وہ کٹّوں اور پستول سے لیس تھے۔ انھوں نے جلوس نکالا، فرقہ واریت پر مبنی نعرے لگائے، سر سید اور جناح کے پتلے جلائے اور فائرنگ کرکے دہشت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یونی ورسٹی طلبہ کو معلوم ہوا تو وہ موقع پر پہنچے اور انھوں نے چند شرپسندوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا، لیکن پولیس نے تھوڑی دیر کے بعد انھیں چھوڑ دیا۔ یونی ورسٹی کے پُر امن ماحول کو پراگندہ کرنے کی یہ ایک مذموم کوشش تھی، اس لیے اسٹوڈینٹس یونین کے عہدہ داران دوسرے طلبہ کو لے کر اس معاملے کی ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچے۔ ایف آئی آر تو درج نہیں کی گئی، الٹے پولیس نے طلبہ پر زبردست تشدّد کیا۔ اس نے ان پر جم کر اندھادھند لاٹھیاں برسائیں ، جس سے کئی طلبہ کے سر پھوٹ گئے اور بڑی تعداد میں وہ زخمی ہوئے۔

اس وقت سے اب تک طلبہ برابر احتجاج کر رہے ہیں ۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ اور دیگر جمعیتیں ان کا سپورٹ کر رہی ہیں ۔ میڈیا میں بھی اس پر زور دار بحث جاری ہے۔ مختلف چینلس پر گرما گرم مباحثے ہو رہے ہیں۔

  یونی ورسٹی میں جو کچھ ہوا اس کا مرکزی نکتہ کیا ہے؟

  جناح کی تصویر؟ یہ تو 1938 سے لگی ہوئی تھی؟ جناح کی تصویر تو اب بھی پارلیمنٹ، گاندھی آشرم، جناح ہاؤس اور دیگر مقامات پر لگی ہوئی ہے۔

  یا مرکزی نکتہ یونی ورسٹی میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے ؟ مرکزی نکتہ ہے غنڈوں کا ہتھیاروں کے ساتھ کیمپس میں گھسنا ؟ ان کا کٹّوں اور پستولوں سے لیس ہونا ؟ ان کی وجہ سے نائب صدر جمہوریہ کا مجوّزہ پروگرام نہ ہوپانا ؟ ان کا جلوس نکالنا ؟ فرقہ واریت پر مبنی نعرے لگانا ؟ سر سید اور جناح کے پتلے جلانا ؟ فائرنگ کرکے دہشت پیدا کرنا ؟ پولیس کا پکڑے گئے شرپسند عناصر کو چھوڑ دینا؟ اسٹوڈینٹس یونین کے عہدہ داران کے  مطالبے پر تھانے میں اس معاملے کی ایف آئی آر درج نہ ہونا ؟ الٹے پولیس کا طلبہ پر زبردست تشدّد برپا کرنا  اور اندھادھند لاٹھیاں برسانا؟

 مجھے لگتا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ماحول گرم رکھنے کے خواہش مند اور مسلمانوں اور مسلم یونی ورسٹی کے بدخواہ شرپسند عناصر اپنی حکمت عملی میں کام یاب ہو رہے ہیں ۔  اس لیے کہ ٹی وی چینلس پر مباحثے پہلے ایک سیاسی پارٹی کی شہ پر، پھر ریاستی مشنری کے ذریعے یونی ورسٹی کیمپس میں ہونے والی دہشت گردی پر نہیں ہورہے ہیں ، بلکہ وہ محمد علی جناح کے گرد گردش کر رہے ہیں ۔  فتنہ پردازوں نے بہت کام یابی کے ساتھ ‘نان ایشو’ کو ایشو بنا دیا ہے اور اصل ‘ایشو’ سے توجہ ہٹادی ہے۔

 مجھے تعجّب ہوتا ہے ان دینی جماعتوں کے سربراہوں پر جو اس طرح کے بیانات جاری کر رہے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو محمد علی جناح سے اختلاف تھا اور ہم بھی ان کے مخالف ہیں۔

 مجھے تعجّب ہوتا ہے ان بے شعور مفتیوں پر جو محمد علی جناح پر نشانہ سادھ رہے ہیں اور ان کے خلاف بدزبانی کر رہے ہیں۔

 مجھے تعجّب ہوتا ہے ان دانش وروں پر جو جناح کے موضوع پر ہونے والے ٹی وی مباحثوں میں شریک ہو رہے ہیں اور حمایت یا مخالفت میں دلائل پیش کر رہے ہیں۔

   مجھے تعجّب ہوتا ہے ان اصحابِ قلم پر جو ایسی فہرستیں پیش کر رہے ہیں کہ جناح کی تصویریں ملک میں اب بھی کہاں کہاں لگی ہوئی ہیں ، یا یہ کہ جناح کی شخصیت ملک کی تاریخ کا حصہ ہے، اس لیے ان کی تصویر مسلم یونی ورسٹی اسٹوڈینٹس یونین ہال میں لگے رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

  بیانات ہوں یا فتاوی، تقریریں ہوں یا تحریریں ، ٹی وی مباحثے ہوں یا مضامین، ان میں یہ سوالات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے ہیں کہ:

 مسلم یونی ورسٹی میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ کیوں پیدا کیا گیا ؟

 اس کے امن کو غارت کرنے کی کوشش کیوں کی گئی؟

غنڈے ہتھیاروں کے ساتھ کیمپس میں کیسے گھسے ؟

وہ کیمپس میں جلوس نکالنے، فرقہ واریت پر مبنی نعرے لگانے، سر سید اور جناح کے پتلے جلانے اور فائرنگ کرکے دہشت پیدا کرنے میں کیسے کام یاب ہوئے ؟

پولیس نے پکڑے گئے شرپسند عناصر کو کیوں چھوڑ دیا ؟    

  اسٹوڈینٹس یونین کے عہدہ داران کے  مطالبے پر تھانے میں اس معاملے کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی ؟

 کس کی شہ پر الٹے پولیس نے طلبہ پر زبردست تشدّد کیا  اور ان پر اندھادھند لاٹھیاں چلائیں ؟

 شر پسندوں کی کام یابی یہ ہے کہ وہ نان ایشو کو ایشو بنا رہے ہیں اور ہماری توجہ اصل ایشو سے توجہ ہٹا رہے ہیں۔ ہماری ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بحث کو اصل ایشو پر مرکوز رکھیں اور اِدھر اُدھر نہ ہٹنے دیں۔

 کام یابی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب جنگ اپنے پسند کردہ میدان میں لڑی جائے، نہ کہ دشمن کے تیار کردہ میدانِ جنگ میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔