سیدنا خالد ابن ولیدؓ

ریاض فردوسی

سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کنیت ابو سلیمان (فرزند کی وجہ تسمیہ پر) آنحضرت ﷺ نے ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ چھ بھائی اور دو بہنیں تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائیوں میں ہشام اور ولید مسلمان ہوئے۔ بہنوں میں سے ایک کی شادی حضرت صفوان بن امیہ کے ساتھ اور دوسری کی حارث بن ہشام کے ساتھ ہوئی۔ خالد رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام لبابہ صغریٰ بنت الحارث ہے۔ آپ حضرت ام المومنین بنت حارث رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں، اس طرح آنحضرت ﷺ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے حقیقی خالو ہیں۔ حضرت خالد رضی اللہ کے والد’ ولید‘ مکہ کے رئوسا میں شمار ہوتے تھے۔ مکہ مکرمہ سے لے کر طائف تک ان کے باغات تھے، آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ’ بنو مخزوم‘ بنوہاشم کے بعدمرتبہ میں دوسرے مقام پرتھا۔ والد کے ثروت کا یہ عالم تھا کہ ایک سال بنو ہاشم مل کر غلاف کعبہ چڑھاتے اور ایک سال تنہا ولید غلاف چڑھا تے تھے۔ سیدنا خالد بن ولید کے چہر ے پر چیچک کے نشان تھے۔ جسم مضبوط اور گٹھا ہوا اور سینہ بہت کشادہ تھا۔ حضرت خالد کی پرورش، شمشیر آرائی، جنگجوباز سرگرمیاں، نیزہ بازی، شہواری، اورجنگی دائو پیچ کے ماحول میں ہوئی۔ جس طرح قبیلہ قریش کی مذہبی قیادت بنو ہاشم کے ہاتھ میں، سیاسی قیادت بنو امیہ کے ہاتھ میں اور اسی طرح عسکری قیادت حضرت خالد بن ولید کے قبیلہ بنو مخزوم کے پاس تھی۔ آپ بچپن ہی سے نڈر اور صاحب تدبر اور بہادرتھے۔ آپ کی جسمانی طاقت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت خالد رضی اللہ نے کشتی لڑی اور حضرت خالد رضی اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پنڈلی کی ہڈی توڑ ڈالی جوکافی عرصہ علاج کے بعد ٹھیک ہوئی۔  (کتاب خالد بن ولید، سید امیر احمد)

جوان ہو کر آپ کی شجاعت کا رنگ نکھرا اور آپ قریش کے منتخب جوانوں میں شمار ہونے لگے۔ دنیا کی تاریخ اس عظیم فاتح، اسلام کے عظیم سپاہی، عظیم سپہ سالار، رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی خالد رضی اللہ عنہ اور تاریخ ساز فاتح سے خالی نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ نے آپ کے متعلق کیا خوب ارشاد فرمایاتھا، خالد! تمہاری عقل ودانش اور فہم وفراست کی بنا پر مجھے بہت امید ہے کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور اسلام قبول کر لوگے۔ حضرت خالد بن ولید نے ۶۲۸ء میں صلح حدیبیہ سے قبل حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضری دے کر اسلام قبول کیا۔

   سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے خلاف دو بڑی جنگیں لڑیں، جنگ احد اور جنگ احزاب میں آپ رضی اللہ عنہ  کفار و مشرکین کے شانہ بہ شانہ تھے۔ جنگ احد میں آپ نے اپنی جنگی حکمت عملی سے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا۔ جنگ کا نقشہ بدلنے میں آپ کا بہت بڑا کردار تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کو مکہ شریف میں ظلم وستم کو برداشت کر تے صبرو استقلال، پیکر تسلیم ورضا کی زندہ جاوید تصویر پایا۔ آپ ﷺ کی شرافت ودیانت داری، امانت داری کی بے مثال شخصیت کا مشاہدہ کیا۔ لیکن اب رسول کریمﷺ کی ایک نئی تصویر، نئی فکر، نئی طرز زندگی آپ کے سامنے ہے۔ کہیں پیغمبر اسلام ﷺ صف بندی میں اور معرکہ آرائی میں نظر آتے ہیں، جنگی سرگرمیوں میں سرگرم نظر آتے ہیں، جنگ احزاب میں سیدنا خالد باربار کو ششوں کے بعد بھی خندق کو پار نہ کرسکے، خالد رضی اللہ عنہ کی تمام جنگی چالیں سرور دوعالم ﷺ کی حکمت عمل کے سامنے دم توڑ چکی ہیں۔ انسان جس ہنر کا مالک ہوتا ہے، اس ہنر کے ماہرین سے متاثرہوتا ہے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ذہن میں رسول کریم ﷺ کی جو شبیہ مکہ مکرمہ کے پر خطر ماحول میں تھی، اس سے متضاد کردار ان کیسامنے تھا، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نہ تو شاعر تھے، نہ نجومی، نہ قصہ گو، وہ صرف جنگ وجدل کی زبان ہی جانتے تھے۔ ان کے سامنے وہ شخصیت موجود ہے، جن کے جنگی دائو پیچ کی تعریف ماہرین جنگ بھی کرتے ہیں۔ دشمن جن کی مدح سرائی کرے وہ ذات مقدس ﷺ موجود تھی۔ فارنس کا تاریخ ساز جرنل نیپولیین بونا بارٹ، حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو دنیاکا سب سے بڑا سپہ سالا رتسلیم کرتاہے،(اور اس میں کوئی شک نہیں )، لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ انسان کا مل ﷺ کو دنیا کا عظیم سپہ سالار تسلیم کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ در حضور ﷺ پر سر تسلیم خم کر چکے ہیں۔ ہم نے جو تصویر پیغمبرﷺ کی اپنے دل ودماغ میں بنا رکھی  ہے،ہم اور آپ نے نبی ﷺ کی شخصیت کو ایک کردار میں باندھ دیا۔ ہمارے پیغمبر ﷺ کی ذات اقدس مکمل ہے۔ اللہ نے انکو تمام  خصوصیت سے نوازہ ہے۔ ۶۳۰ء میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمان فوج، جو چار حصوں میں تقسیم تھی، ان میں سے ایک کی قیادت حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کے ذمہ تھی۔ جنگ موتہ میں مسلسل تین جلیل القدر صحابہ (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین )کی شہادت کے بعد آخری کمان سید ناخالد کے ہاتھ میں آئی تو وہ اس بے جگر ی سے لڑے کہ دو ران جنگ ان کی نو تلوار یں ٹوٹیں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ اس خونریز معرکہ سے اپنی فوج کو بچا کر واپس مدینہ منورہ لے آئے۔ تلواریں ٹوٹنے کی،اور جنگ سے اس طرح واپس آنے کی بات حضور اکرم ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کے متعلق غلط افواہوں کو ختم کیا اور ان کو’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔ دمشق، عراق، ایران، اور پھر رومیوں کے خلاف آپ نے جو جنگی حکمت عملی اختیار کی وہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی گئی ہیں۔ نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کے خلاف خونریز جنگ کے بعد فتح حاصل کی۔ فارسی فوج اور ظالم وجابر حکمرانوں میں آپ رضی اللہ عنہ کی دحشت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ رضی اللہ کا خاص نعرہ ’’انا فارس الضدید ‘ انا خالد بن ولید۔ تو ان کی ہمت ٹوٹ جاتی اور اسلامی فوج کی وحشت ان کے دل ودماغ میں گھر کرجاتی اور وہ میدان جنگ سے فرار ہوجاتے۔

جنگ وجدل سے ان کو اس قدر انسیت تھی کہ انکا یہ قول اس کی غمازی کرتاہے۔ سردیوں کی سخت رات ہو برف باری ہورہی ہے اور میں اپنے لشکر کیساتھ دُشمن کا انتظار کر رہا ہوں یہ مجھے پہلی رات کی نئی نویلی دُلہن کے ملنے سے زیادہ عزیز ہے۔

 دنیا کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ اتنا بڑا عظیم فاتح صرف ایک الزام سے برترف کردیا جائے، آپ پر یہ الزام تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس نام کے شاعر کو بطور انعام دس ہزار درہم دی۔ اس لئے کہ اس نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی فتوحات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک قصیدہ پڑھا تھا۔ خالد امیر باپ کے فرزند تھے انہوں نے غربت وافلاس کی بوباس بھی نہیں پائی تھی۔ شہزادوں کی طرح پلے بڑھے تھے۔ یہ تو اُن کی عظمت تھی کہ صحیح معنوں میں شہزادہ ہو تے ہوئے بھی، اُنہوں نے آدھی عمر میدان جنگ میں پیش قدمیوں میں، زمین پر سوتے ہوئے اور گھوڑے کی پیٹھ پر گزار دی تھی۔ وہ طبعا ذوق تھے، فیاض تھے،اور ہر حسین چیز کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے اس شاعر کو جو انعام دیا تھا وہ اپنی جیب سے دیا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دشمن کے بے شمار سالاروں کو ذاتی مقابلوں میں قتل کیا تھا۔ ان کے مال غنیمت کی شکل میں حضرت خالد کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ پر الزام یہ عائد تھا کہ اگر آپ نے مال اپنی ملکیت سے دی تو یہ فضول خرچی ہے،

اور اگر مال غنیمت سے تویہ امانت میں خیانت ہے۔ دونوں شریعت اسلام کے منافی ہے۔ سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی تاریخ کے مشہور مؤذن سیدنا مرشدنا ومولانا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ایک تحریری حکمنامہ بھیجا۔ ’ خالد بن الولید کو مجاہدین کی جماعت کے درمیان کھڑا کرو، اُس کے سر سے دستار اتارو، دستار سے اُس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھو۔ ٹوپی بھی اُس کے سر سے اُتاردو، پھر اُس سے پوچھو کہ اُس نے ایک شاعر اشعت بن قیس کو انعام اپنی جیب سے دیا ہے، یا مال غنیمت سے، جب وہ الزام کا اعتراف کرے تو اُس کے پاد اش میں اس کے موجودہ عہدے سے معزول کر دو اور اس کی جگہ تم خود کام کرو۔ ‘ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا باضابطہ کورٹ مارشل ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال میں یہ آپ ہے کہ ایک جرنل کو معزول کیا جارہا ہو، اور وہ بغاوت نہیں کررہاہے۔ نہ فوج کچھ کہہ رہی ہے۔ تمام افواج وسالاراور خود سپہ سالار بھی امیر المؤمنین کے حکم کے پابند ہیں۔ یہ وہ خوبیاں ہے، جن سے اسلامی معاشرہ کی تعمیر ہوئی ہے۔

 سیدناخالد کو بعد میں فوج سے بھی نکال کر کسی بھی جنگ میں شامل ہونے سے منع کردیا گیا۔ آپ نے خاموشی سے اس حکم کو اپنا مستقبل مان لیا۔ خالد رضی اللہ عنہ پہلے بھی چپ رہتے تھے۔ مگر اب تو جیسے ان کی قوت گویائی ختم ہو گئی۔ حضرت خالد ۵۸ سال کی عمر میں اس اللہ کے حضور پہنچ گئے جس کی وہ شمشیر تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر بنی مخزوم کی عورتیں ماتم کرنے لگیں، یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اُٹھے، پھر بیٹھ گئے اور کہا کہ بنی مخزوم کی عورتوں کو رونے کی اجازت ہے، انہیں ابو سلمان کا ماتم کرلینے دو، ان کا رونا دکھاوے کا نہیں،  رونے والے خالد جیسوں پر ہی رویا کرتے ہیں۔ حمص میں بڑا حسین باغ ہے، پھولوں کے کیارے ہیں۔ درمیان میں راستے ہیں، درخت بھی ہے، اس میں ایک مسجد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے ایک کونے میں خالد رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔ جہاں تاریخ اسلام کا عظیم فاتح آرام کر رہا ہے۔ وہاں آج سننے والوں کو ایک پکار سنائی دیتی ہے۔

انا فارس الضدید

انا خالد بن ولید

 سیدنا خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ کا پیغام مسلم امت کے نام، موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ جب موت مقدر ہوتو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے۔ زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔

دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچادو کہ اگر میدان جہاد میں موت ہوتی تو میں خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو موت بسترپر نہ آتی!

   سوچا بھی ہے اے مرد مسلمان کبھی تو نے 

    کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار

  قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن    

 یا خالد  جانباز ہے یا  حیدر کرار

تبصرے بند ہیں۔