ہیرو اور وِلن کی تلاش سے آگے بڑھیے!

پرتاپ بھانومہتا

(وائس چانسلراشوکایونیورسٹی، ہریانہ)

ترجمانی: نایاب حسن

تقسیمِ ہندکا سانحہ نہایت تکلیف دہ تھا، اس نے دونہایت قدیم اور گہری تہذیب کے بیچ سے دوایسی اکائیاں پیدا کردیں ، جودوالگ الگ قومیں بننا چاہتی تھیں ، یہ سانحہ آج بھی ہندوپاک دونوں ملکوں کے لیے مشترکہ طورپر عدمِ تحفظ کا سبب ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی تشکیلِ نوپر ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا، مگراس کے باوجود تقسیمِ ہند آج بھی ہمارے لیے ایک قسم کی نفسیاتی بے یقینی کا سبب بنی ہوئی ہے، آج بھی نہ صرف اس واقعے کی تاریخی حیثیت پر سوال جواب کیا جاتا ہے؛بلکہ اس کی دستوری حیثیت یادونوں ریاستوں کانامکمل رہ جانا آج بھی بحث ونقاش کا موضوع بنا ہوا ہے۔ دونوں ریاستیں آج بھی حالتِ جنگ میں ہیں ، بہت سے ہندوستانی(خصوصاً ہند و نیشنلسٹ) تقسیم کواپنے لیے ایک قسم کی شکست اور ہندوستان کی مقدس سرزمین کی بے حرمتی تصور کرتے ہوئے اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اوریہ لوگ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کوتیارنہیں ، دوسری طرف پاکستان ہے، جو مسئلۂ کشمیر کو تقسیمِ ہندکی نامکمل کارروائی کے حصے کے طورپر دیکھتا ہے۔

اس طرح جس بنیادی مسئلے کے حل کے لیے ہندوستان کی تقسیم کی گئی تھی، وہ تاہنوزباقی ہے، نتیجتاً جنوبی ایشیامیں جس آزادی کا خواب دیکھاگیاتھا، اس کی بجاے اس خطے کی سیاست نے قومی شناخت کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف غیظ و غضب اور عدمِ تحفظ کے احساس کوبڑھاوادیاہے، پاکستان میں یہ احساس خوداذیتی پر مبنی عسکریت اور انتہاپسندی کی وجہ سے پنپتا رہا، جبکہ ہندوستان میں اس نقطۂ نظر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی کہ یہاں اکثریت پسندی پر مبنی سیاست و حکومت کے قیام اور ملک کی اقلیتوں کوحاشیے پرڈال کر تقسیمِ ہندکا بدلہ لیاجاسکتا ہے، جب سے بی جے پی مرکزمیں برسرِ اقتدار آئی ہے، اس نظریے کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے، جب تک کہ بی جے پی کو کسی زبردست سیاسی ردِ عمل کا سامنا نہیں ہوتا، اس وقت تک برصغیرکایہ خطہ اُس زہرناک فرقہ وارانہ دھماکے کے کنارے کھڑاہے، جس کی اکثریت پسند طبقہ اشاعت کررہاہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر کے حوالے سے جوہنگامہ کھڑاکیاگیاہے، اُسے اسی سیاق وسباق میں سمجھناچاہیے، یہ سمجھنااہم ہے کہ یہ معاملہ اے ایم یومیں جناح کی تائید وتحسین کانہیں ہے، اس کا اصل مقصد ہندو انتہا پسندجماعتوں کے ذریعے یونیورسٹی اوراس کے باہر فرقہ وارانہ کشیدگی کوہوادینا ہے۔ گڑگاؤں میں (جہاں میں رہتاہوں ) نماز پڑھنے کی جگہ کو لے کر ایک عرصے سے کشیدگی قائم ہے۔ جس طرح1930ء کی دہائی میں پورے ملک میں ثقافتی ایشوزکوبحث مباحثے کا موضوع بنا دیا گیاتھا، جس کے نتیجے میں تقسیمِ ملک کا سانحہ رونما ہوا، اسی طرح اِس وقت گائے، نماز، تاریخی آثار اور جناح کی ایک غیر متعلق تصویرکو سیاسی حربے کے طورپر استعمال کیاجارہاہے، ان چیزوں کانہ تواس ملک کے اصل مسائل سے کوئی تعلق ہے اورناایسی بحثوں سے ملک کا بھلا ہونے والاہے۔

  دوسری بات، چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ تقسیمِ ہندکے ذمے دارجناح تھے، مگراُس وقت کے سیاسی قضیے سے اب استدلال کرنا کہاں تک درست ہے؟ 1947ء سے لے کرآج تک اگرہم ایک ہی سکرپٹ کو دُہراتے جارہے ہیں ، توہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں ؟یہ ایک حقیقت ہے کہ 47ء میں دوریاستیں وجودمیں آئیں ، اگر جنوبی ایشیاکے ممالک ایک دوسرے سے قریب آسکتے ہیں ، تواس حقیقت کوکھلے دل سے ماننے کے بعد ہی آسکتے ہیں ، اس کے بغیر نہیں ۔  ہندوستان اور پاکستان دونوں کواپنے باہمی اختلافات کونظراندازکرکے مشترکہ امکانات کی جستجوکرتے ہوئے ایک نئے مستقبل کاتصورکرنے سے پہلے ایک دوسرے کوکھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا، پاکستان کشمیر کے واسطے سے ہندوستان پر انگلی اٹھاتارہاہے، جبکہ ہندوستان اپنے ہندونیشنلسٹ طبقات کے ذریعے یہ کام کرتا رہا ہے، جو تقسیمِ ہندکی حقیقت کوتسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں ، ہم لوگ محض ایک نظریاتی کنفیوژن سے کس قدر مضبوطی کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں ، یہ ایک حیرت ناک امر ہے۔ دوقومی نظریہ کا (ایک یا تین قومی نظریہ کی طرح)تنقیدی جائزہ لیاجاسکتاہے، یہی نظریہ تشکیلِ پاکستان کی بنیادتھا، مگر اس نظریے کی تنقید کرنے والے اکثر لوگ بغیرسوچے سمجھے پاکستان کی ماہیت ووجودکوکٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں ، ہم جب تک ایسا کرتے رہیں گے، دونوں طرف عدمِ تحفظ کے احساسات میں اضافے کا سلسلہ بڑھتارہے گا۔

بحث ونقاش کے اسی مرحلے میں جناح سامنے آجاتے ہیں ۔ اکیسویں صدی کی ابتدا میں غیر متوقع طورپر(اُس وقت کے بی جے پی کے صفِ اول کے لیڈران) ایل کے اڈوانی اور جسونت سنگھ دونوں کواس حقیقت کا ادراک ہوگیا تھاکہ جنوبی ایشیاکانیا مشترکہ مستقبل پاکستان کو تسلیم کیے بغیر وجودمیں نہیں آسکتا۔ ہمیں سب سے پہلے ایسے سٹیج تک پہنچنا ضروری ہے، جہاں ہندوپاکستان ایک دوسرے کوحقیقت پسندی کے ساتھ برتیں ، نہ یہ کہ دونوں کے درمیان ہونے والا ہر مذاکرہ جذباتیت اور ایک دوسرے کے وجود پر سوال اٹھانے میں ختم ہوجائے، اس ضمن میں پہلے ہمیں جناح کو تسلیم کرنا ہوگا، ایک وِلن کی حیثیت سے نہیں ؛بلکہ ایک ایسے بانیِ ریاست کی حیثیت سے، جس نے ایک نہایت پیچیدہ صورتِ حال میں ایک ملک حاصل کیا۔ اب نہ تو کسی ہندوستانی کا جناح کو تقسیمِ ہندکی وجہ سے برابھلاکہنا درست ہے اورنہ کسی پاکستانی کاگاندھی یا تقسیمِ ہندکے دوسرے مخالف سیاست دانوں کوبرابھلاکہنا درست ہے، اس ضمن میں جسونت سنگھ اور اڈوانی کی جانب سے جناح کا کھلے دل سے اعتراف کیاجاناماضی کی تلخیوں کوبھلاکرآگے بڑھنے کےProcessکاخوب صورت حصہ تھا، گرچہ ان کی یہ پیش رفت زیادہ مؤثرثابت نہیں ہوئی، مگرانھوں نے اپنے طرزِعمل سے ایک سوال ضرور قائم کیاکہ کیاہم اس موضوع پر بحث کی رائج شرطوں کو بدل نہیں سکتے؟

جناح کی تصویر کہاں ہونی چاہیے اور کہاں نہیں، اس پر ڈبیٹ ہوسکتی ہے، مگر فی الحال جولوگ جناح کو بطورحربہ استعمال کررہے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ خطہ ماضی کی طرح ہی باہمی غیظ و غضب اور کینہ و بغض کے الاؤ میں تپتارہے، اگرآپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ تقسیمِ ہندایک سیاسی غلطی تھی، توہمیں اپنے اپنے ملک میں ایسا ماحول بناناہوگا، جہاں کسی بھی فردکواس کی مخصوص شناخت کی وجہ سے نشانہ نہ بنایاجائے، افسوس کی بات ہے کہ اس وقت میڈیاڈسکشن میں تقسیمِ ہندکی غلطی کی معقولیت اور صحت کوہی ثابت کیاجارہاہے اور جناح تمام بحث مباحثے کا محوربنے ہوئے ہیں۔

بہت سارے پبلک ڈبیٹس میں دوقسم کی غلطیاں سامنے آرہی ہیں ، پہلی تویہ کہ تقسیمِ ہندکے سانحے کومخصوص مذہبی فرقہ کی نظر سے دیکھاجارہاہے، جس سے دوقومی نظریے کوتقویت پہنچتی ہے کہ میں سانحۂ تقسیمِ ہند کے ہندوولن کو تلاش رہاہوں اور آپ مسلم ولن کوتلاش کیجیے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک کے ہندو، مسلم اور سکھ؛ سب تشددسے بچنے کی کوشش کرتے، توتقسیمِ ہنداوراس کے معاً بعد رونما ہونے والے فسادات واقع ہی نہ ہوتے، اس تشددکے لیے جناح اس لیے ذمے دار تھے کہ انھوں نے اپنے مطالبے کومنوانے کے لیے دستوری راستہ اختیار نہیں کیاتھا، مگر ہندومہاسبھاجیسی تنظیموں کا جرم یہ بھی تھاکہ وہ راست طورپران فسادات کا حصہ بن گئی تھیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں تقسیمِ ہند کے اسباب کی دریافت کے سلسلے میں ہلکے پھلے اور سادہ ذرائعِ معلومات سے احتراز کرناہوگا، ہمیں اس سلسلے میں محض ایک ایسے ولن کی کھوج سے بچناہوگا، جوواقعات و نتائج کی تنہاذمے داری لے یاجس کے سریہ ذمے داری تھوپ دی جائے؛کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیامیں رونماہونے والے دیگر بہت سے حادثات وواقعات کی مانند تقسیمِ ہندکا واقعہ بھی کئی لوگوں کی کئی ساری غلطیوں اورغلط فیصلوں کانتیجہ تھا، کبھی کبھی انسان ان جانے میں اچھے ارادوں کے ساتھ ہلاکت و تباہی کے راستے پر چل پڑتا ہے، کئی بارایسا ہوتا ہے کہ مآل کارتاریخ کی بے رحم لہریں لوگوں کے سامنے بے شمارچونکانے والے حقائق کولااُچھالتی ہیں اور وہ تمام لیڈران و قائدین، جوتاریخ کوفتح کرناچاہتے تھے، سب اُس کے ہاتھوں شکست کھاجاتے ہیں۔

  اگرہم واقعی مابعداستعمارایک طاقت بنناچاہتے ہیں، توہمیں 1940ء کے اپنے ہیرواورولن کی تلاش کے کھیل سے باہر نکلنا ہوگا، ہندوپاکستان کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ وہ کیسا معاشرہ بننا چاہتے ہیں اوروہ اپنے شہریوں کوکس حد تک آزادی و برابری دے سکتے ہیں، اس سلسلے میں پاکستان توپہلے ہی مایوس کن جواب دے چکاہے، مگرہمارے یہاں کے ہندونیشنلسٹ جناح کی ایک پرانی تصویر کوحربہ بناکر ہندوستان کوبھی اسی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں، جناح کی تصویر پر ہنگامہ کھڑاکرکے وہ بالآخراُنہی کے نظریے کوصحیح ثابت کررہے ہیں۔

(اصل انگریزی مضمون ۸؍مئی کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہواہے)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔