!!ہیپی نیو ائیر

2016ء اپنے آخری سانس لے رہا ہے ،اس سال 31 دسمبر کو ڈوبنے والا سورج دوبارہ کبھی 2016ء میں طلوع نہیں ہوسکے گا۔ 2017ء کے سورج نے طلوع ہونے کے لیے یکم جنوری کو منتخب کر لیا ہے۔ 2017ء کو ویلکم کہنے کے لیے 2016ء کی آخری رات جشن کے طور پر منائی جاتی ہے۔سالوں کے الوداع اور استقبال کے اس ملاپ میں ہماری حس؛احساسِ غلامی اور احساسِ ضیاع کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ نیو ائیر نائٹ کے نام پریورپی ممالک کی طرح اب ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں بھی اب دھوم دھڑکے سے منائی جاتی ہے۔ میڈیا اپنی ’’احساس ذمہ داری‘‘ کا بھرپور ثبوت دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس !کہ ہمارے ملک میں جب سے مغربی اور یورپی تہذیب نے اپنے منحوس قدم ایسے گاڑے ہیں کہ گوروں سے زیادہ ہمارے مسلم نوجوان بھٹک کر رہ گئے ہیں۔ کبھی ویلنٹائن ڈے ، کبھی بلیک فرائیڈے اور کبھی نیو ائیرنائٹ جیسے غیر اسلامی بلکہ غیر فطری پروگرامز میں عریاں ڈانس ، جنسی اختلاط ، شراب و کباب اور ہر وہ کام جس کی اجازت نہ ہمارا اسلام دیتا ہے اور نہ ہی ہماری مشرقی تہذیب ایسے دھبوں کو اپنے اجلے دامن پر برداشت کرتی ہے۔
قارئین کرام !ذرا سوچ کر بتائیے گا کہ کیا یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دی تھی کہ تم گزشتہ اقوام کے غیر فطری رسوم و رواج کی تقلید قدم بقدم کرو گے جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ کیا یہ وہی زمانہ ہے ؟ اگر آپ کا ضمیر حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کا جواب اثبات میں دیتا ہے تو پھریہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے !!!
صبح و شام غربت ، بے روزگاری ، کرپشن ،مہنگائی اور ناانصافی کا رونا رونے والو !انصاف سے بتائیے کہ ہمارے ملکی و ملی حالات اس بات کے متحمل ہیں کہ ہم یوں خدا کی نافرمانیوں میں اس کے غضب کو مزید بھڑکائیں۔ہماری قوم کو ابھی تک دہشت گردی کے عفریت کے منہ میں دبکی ہوئی ہے ، دنیا کی سپر طاقتیں مل کر اس کے مبارک وجود کو ختم کرنی پر تلی ہوئی ہیں ، اندرونی سازشوں نے امن و امان کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا ہے ، معاشی عدم استحکام کا عالم یہ ہے کہ ہمارے پیدا ہونے والے بچہ کا بھی بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے ، بھوک و افلاس کے زہریلے تیروں نے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں اور وہ خود سوزی و خود کشیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ تعلیم کا یہ عالم ہے کہ ہمارے بچے جنہوں نے ہمارا مستقبل بننا ہے وہ بستہ اٹھانے کے بجائے کوڑا جمع کرنے والا بوریا اٹھا رہے ہیں، سکول کا یونیفارم پہننے کی بجائے ورکشاپس اور صنعتی ملوں پر چائلڈ لیبرزکی یونیفارم میں ملبوس ہیں۔
میرا سوال ان روشن خیال لبرل طبقے سے بھی ہے کہ جو خود کو لبرل بنانے اور کہلانے کے لیے اپنی غیرت و عزت کی یوں نیلامی کی جاتی ہے کہ اپنی عفت مآب بیٹیوں کوہوس ناک بھیڑیوں کی شہوت انگیز بھوکی نگاہوں کا شکار ہونے دیا جائے۔ ڈانس کلبوں میں ان کے تھرکتے جسموں سے لطف اندوز ہونے والوں کو لذت پہنچائی جائے ،صرف یہ جتلانے اور باور کرانے کے لیے کہ ہم لبرل ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں ! ! خدا کے لیے چشم بینا وا کیجئے اور زمنیی حقائق کا دل و نگاہ سے اداراک کریں کہ جن کی نقالی کرنے میں تم فخر محسوس کرتے ہو وہ خود اس تہذیب کی بد تہذیبی کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں بلکہ اپنے جلے ہوئے دل کے پھپھولے دکھلانا ہے۔ یہ نوجوان نسل میری متاع ہے ، میرا اثاثہ او رسرمایہ ہے میں اسے لٹتا ہوا دیکھ کر کیسے نہ تڑپوں؟
ع ہم نوا میں بھی کوئی گُل ہوں کہ خاموش رہوں؟
ذراٹھنڈے دل سے سوچیئے !ایک سال گزر گیا ، جو دوبارہ کبھی نہیں لوٹے گا ، اس نے ہماری اور موت کی دوری سے ایک سال کا فاصلہ ختم کر دیا ، حدیث پاک میں ہے : لوگ وقت کے بارے دھوکے کا شکار ہیں ، یعنی اس کی قدر نہیں کرتے۔ نوجوانو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ہمارے لیے غنیمت قرار دیا ہے۔ اپنی منزل کے سنگ میل کو دیکھیے ، اپنے اہداف کا تعین کریں ، 31 دسمبر کے ڈوبتے سورج کے ساتھ اپنی غفلتوں کو ڈوب جانے دیجیئے اور یکم جنوری کے طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ اپنی نئی امنگیں ، نئے ولولے اور نئے عزم وارادوں کو ابھاریئے،اس گزرنے والے سال کی ہچکیوں میں رندھی اس آواز کو کان لگا کر سنو !یہ آواز آ رہی ہے : مجھے برباد کرنے والو!اِسے برباد نہ کرنا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔