ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت

وقار احمد ندوی

ہندوستان میں مسلمان شمال اور جنوب دو سمتوں سے داخل ہوئے۔ شمال سے داخل ہونے والے گھوڑوں پر سوار ہتھیار بند عجمی فوجی تھے جن کا مقصد ہندوستان کو فتح کر کے اپنی حکومت قائم کرنا تھا اور جنوب سے داخل ہونے والے عربی تاجر تھے جن کے پیش نظر تجارت تھی۔ اس بات سے قطع نظر کہ حملہ آور کا رویہ اپنی مفتوح قوم کے ساتھ اور ایک تاجر کا برتاؤ اپنے گراہک کے ساتھ کیسا ہوتا ہے دونوں سمتوں سے داخل ہونے والوں کے اخلاق اور ایمان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ جنوب سے داخل ہونے والے عرب تابعین یا ان کی اولاد تھے، صرف تجار نہیں تھے بلکہ اعلی درجہ کے مبلغ اور داعی تھے، اپنے اخلاق واعمال سے وہ اسلام کے ترجمان تھے جبکہ شمال سے داخل ہونے والے فاتحین عجمی تھے، نرے حکمران تھے، انہیں اسلام کی تبلیغ واشاعت سے کوئی غرض نہ تھی وہ محض اپنی حکومت کا استحکام چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حکمرانوں نے حکومت قائم کرنے کے بعد اپنی زبان مسلط کی، اپنی ثقافت متعارف کروائی یہاں تک کہ کھانے پینے پہننے اوڑھنے سے لے کر رقص وموسیقی تک کو بدل ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں جو وقت کے ساتھ نفرت کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں جبکہ دوسری طرف جنوب سے داخل ہونے والے عرب تاجروں نے دلوں کو فتح کیا، زبان نہیں بدلی، لباس اور دسترخوان بھی نہیں بدلا لیکن  دنیا بدل گئی نتیجہ سامنے ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود نفرت کے سوداگر مسلم اور غیر مسلم کے درمیان دشمنی پیدا کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو پائے۔

ہندوستانی مسلمان سماجی حیثیت سے اگر کمزور ہوا ہے یا برادران وطن ہندووں اور سکھوں کے دلوں میں اس کے لیے نفرت پیدا ہوئی ہے تو اس کی بنیادی وجہ مذہب نہیں بلکہ مسلمانوں کا طرز زندگی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو خود ساختہ دائرے میں محصور کر کے اپنوں کے درمیان اجنبی بن گیا۔ اس نے اپنی زبان، لباس اور کھان پان الگ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے پڑوسی کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا بھی گناہ باور کر لیا۔ اس موقع سے مجھے حکیم حمید صاحب مرحوم مغفور بانی ہمدرد کی حیات وخدمات پر لکھی گئی پروفیسر اختر الواسع صاحب کی وہ بات یاد آ رہی ہے کہ حکیم صاحب دیوالی کے موقع سے بڑی دعوت کیا کرتے تھے جس میں غیر مسلم سیاسی قائدین، افسران اور احباب کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔ حکیم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ غیر مسلم عید میں شریک ہو کر تمہاری خوشیوں کو دوبالا کرے تو تمہیں بھی اس کے تہواروں میں شریک ہو کر اس کی خوشیوں میں اضافہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ گولڑہ شریف کے پیر مہر علی شاہ کا ایک فتوی میں نے کبھی پڑھا تھا کہ اگر کسی ہندو کی میت میں شریک ہونے سے مسلمانوں کا سماجی فائدہ ہو اور شریک نہ ہونے کی صورت میں نفرت وعداوت کے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ مسلمان بہ حیثیت مجموعی انہیں باریکیوں کو اجتماعی حیثیت میں سمجنھے کی کوشش نہیں کرتے۔ جبکہ انفرادی طور پر اسے برتنے کو دانشمندی تصور کرتے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ایک مسلمان اپنی ملازمت میں ترقی کرنے کے لیے، اپنے بیٹے کو ملازمت دلانے کے لیے یا کسی قیدی کی رہائی کے لیے متعلقہ غیر مسلم افسران کی خوشامدوں کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے اور اسے ہوشمندی خیال کرتا ہے اور اجتماعی معاملات ومسائل میں مذکورہ دانشمندی کو پس پشت ڈال کر محاذ آرائی سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوتا ہے۔ شادیوں میں ایک دوسرے کو رنگ دے نہلا دینے میں اسے شرعی قباحت محسوس نہیں ہوتی لیکن پتہ نہیں کس نے یہ پٹی پڑھا دی ہے کہ ہولی کا رنگ جسم کے جس حصہ پر پڑے گا اسے جہنم میں جلایا جائے گا۔ نتیجہ یہ کہ رنگ کے بدلے خون بہانے سے بھی پرہیز نہیں کرتا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی غیرت کا یہ عالم ہے کہ اس کے گاؤں یا محلے سے ہو کر درگا پوجا یا رام نومی کا جلوس گزرے تو بخار دماغ پر چڑھ جاتا ہے جبکہ ربیع الاول اور محرم کے جلوس کو لے کر دوسروں کے محلوں سے گزرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اذان کے وقت کوئی لاؤڈ اسپیکر بجائے تو مذہبی فریضے میں خلل ڈالنے کا الزام لگا کر مارنے مرنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن خود مغرب سے فجر تک زرخرید مقررین سے دھواں دھاڑ تقریریں کروانے میں کوئ حرج محسوس نہیں کرتا خواہ کسی کی نیند میں خلل ہو یا مریض کی اذیت میں اضافہ۔

کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ہم جس علاقہ میں رہتے ہیں وہاں کی زبان اور لہجہ نہیں جانتے۔ اردو بولنے اور سمجھنے کو مسلمان ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔ ودیا پتی اور نامدھاری سنگھ دنکر جیسے ادیب اور شاعر ہمارے لیے اجنبی ہیں۔ گورو گوبند سنگھ، مہاویر اور گوتم بدھ بہار میں پیدا ہوئے، جن میں گوبند سنگھ کی کرم بھومی پٹنہ سے پنجاب تک، مہاویر کی ویشالی سے جے پور تک اور گوتم بدھ گیا سے کشی نگر، یوپی تک اور اشوک کی کوششوں کے نتیجہ میں بالآخر  چین سے لے کر جاپان تک یہ تینوں بالترتیب سکھ، جین اور بدھ مذھب کے پیشوا اور بانی ہیں۔ لیکن ہم نے ان کے بارے میں کبھی کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ بکرمادت، چندرگپت موریہ، چانکیہ اور اشوک بھی اسی بہار یا وسیع معنوں میں شمالی ہند کی تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ہماری بلا سے، ہم ان کے بارے میں کیوں پڑھیں۔ ہم اپنے علاقائی لہجے نہیں جانتے اور ہمارے مدرسے ہمیں قومی زبان ہندی نہیں پڑھاتے گویا ہندی وسنسکرت بھی زبانیں بھی غیر شعوری طور ہمارے نزدیک پر کافر ومشرک ہیں۔ اس کے باوجود  بالکل اسی طرح جیسے امریکہ سے نفرت بھی کرتے ہیں اور تعلیم وعلاج اور روزگار کے لیے وہاں جانا باعث فخر بھی سمجھتے ہیں کہیں سے کوئی دو چار اشلوک یاد کر کے جلسوں میں ٹر ٹر کرنا سیکھ لیتا ہے تو ہم اسے چترویدی کہنے اور لکھنے لگتے ہیں اور وہ بھی پھولے نہیں سماتا۔ خیر سے یہ طوطے کی طرح رٹو چترویدی ہم نے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں فرقوں میں دیکھے ہیں۔ جس زمین کی تاریخ سے ہم نا بلد ہیں، جس کی زبان ہم نہیں جانتے، جہاں کے لوگوں سے ہمارے سماجی روابط ضرورت کی حد تک محدود ہیں بھلا ہم کیوں کر اپنی بات ان کو سمجھا سکتے ہیں یا ان کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ جبکہ الہی سنت کے مطابق ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ حاملین قرآن ہونے کے ناطے ہم ہندی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کرنا دینی فریضہ خیال کرتے تاکہ سماجی قربتیں پیدا ہوں اور دعوت وتبلیغ کی راہ آسان ہو جائے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے "ما أرسلنا من رسول إلا بلسان قومه” ہم نے ہر قوم کے پاس اس کا ہم زبان پیغمبر ہی بھیجا”۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے کیا ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہم جس قوم کے درمیان ہیں اس کو اسی کی زبان میں خدا کا آخری پیغام پہنچائیں؟

ہندوستانی مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ جس معاشرہ کا حصہ ہیں اس میں اس عنصر کا غلبہ ہے جس کے درمیان آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے 53 سال گزارے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب یا ایمان وعقائد کی بنیاد پر کبھی کسی سے نفرت نہیں کی۔ مشرکین کے درمیان اپنی حیات مبارکہ کے 53 سال گزارے، ان کی خوشیوں اور غموں میں شریک رہے، مقدمات کے فیصلے کیے، امانتیں رکھیں پھر صادق وامین بھی کہلائے اور جھٹلائے بھی گئے۔ خود اپنی ذات میں ہر طرح ستائے گئے۔ راستے میں گڈھے کھودے گئے، کانٹے بچھائے گئے، مبارک جسم پر کوڑے ڈالے گئے، پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی، گردن میں رسی کو بل دیا گیا یہاں تک کہ آنکھیں باہر آنے لگیں، سر پر کمان سے حملہ کر کے زخمی کیا گیا، پتھر مار کر لہو لہان کیا گیا، پورے خاندان کا ڈھائی سال تک بائی کاٹ کیا گیا، بلال پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، خبیب ویاسر اور ان کی اہلیہ سمیہ کو بے دردی سے قتل کیا گیا ان تمام مصائب وآلام کی جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی صعوبتوں سے گزرنے کے باوجود کبھی بھی آپ نے نہ تو خود بدلہ لینے کا سوچا نہ اپنے اصحاب کو بدلہ لینے کی ترغیب دی یہاں تک کہ بد دعا تک نہ کی بلکہ فرمایا: اللهم اهدي قومي فإنهم لا يعلمون – اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیوں کہ بے شک وہ نادان لوگ ہیں۔ خیال رہے کہ ان تمام مصائب آلام کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے باشندوں کو اپنی قوم ہی شمار کیا جیسا کہ مذکورہ بالا دعا سے آشکار ہے۔ اور جب معاملہ حد سے گزرنے لگا تو ہجرت کا حکم دیا اور خود آپ بھی ہجرت کر گئے۔ ایسے عظیم الشان نبی کی امت دوسروں کی سماجی حق تلفی کرے، اپنے اعمال سے پڑوسیوں کے آرام میں خلل ڈالے، رنگ ڈالنے کا انتقام خون بہا کر لینا دینی فریضہ سمجھے، اپنے ارد گرد دائرہ کھینچ لے، کسی کی خوشی یا غم میں شریک نہ ہو تو اسے بہتر سماجی حیثیت کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے اور اسے اپنی مذہبی نسبت کو الزام نہیں دینا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہمارے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے بلکہ اپنے اخلاق اور کارستانیوں پر از سر نو غور کرنا چاہیے۔ کانٹے کی فصل اگا کر پھول سے دامن بھرنے کی آرزو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔

رہی بات ہندوستانی مسمانوں کی سیاسی حیثیت کی تو اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں 1857 سے اب تک کی صورت حال پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔

 1857 کی پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی اس لیے باوجود اس کے کہ اس جنگ میں ہندو، مسلم اور سکھ سب شانہ بہ شانہ تھے؛ انگریز حکومت کی نگاہ غیض وغضب خاص کر مسلمانوں پر مرکوز ہو گئی اور مسلمانوں پر ظلم وستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سر سید رحمہ اللہ نے مسلمانوں کے تئیں حکومت کے جارحانہ رویہ کو ختم کرنے کے لاکھوں جتن کیے۔ مسلمانوں کو اجتماعی طور پر بے قصور ثابت کرنے اور جنگ (غدر) کو فوجیوں کی محدود تعداد کی کارستانی ثابت کرنے کے لیے دلائل وشواہد اکٹھا کرنے میں شب وروز ایک کر دیا۔ نتیجہ بار آور  ہوتا نظر آیا، دوسری طرف وہ مسلمانوں کی عصری تعلیم کے لیے بھی سعئ پیہم میں مصروف تھے اور یہ خواب  بھی حکومت کے تعاون کے بغیر تعبیر نہیں پا سکتا تھا، لہذا ضروری تھا کہ خاموشی کے ساتھ لٹے پٹے خانہ خراب مسلمانوں کو سہارا دے کر از سر نو کھڑا کیا جائے اور کوششیں بھی کی ہی جا رہی تھیں کہ 1885 میں یعنی پہلی جنگ کے صرف 27 سال بعد ہندوستانی عوام کے سماجی فلاح وبہبود کے لیے کانگریس پارٹی قائم کی کی گئی۔ مذکورہ بالا حالات میں مسلمان معاشی اور تعلیمی اعتبار سے اس قابل تھے ہی نہیں کہ وہ کانگریس میں برادران وطن کے برابر اپنا حصہ ڈال سکیں۔ ساتھ ہی انگریز حکومت کے عتاب کا خوف مستزاد تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی برسوں میں کانگریس میں مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام ہی رہی۔ اس میں شک کی قطعی کوئی گنجائش نہیں کہ جیسے جیسے  گانگریس سماجی فلاح وبہبود کے منشور سے سیاسی امور کی طرف بڑھتی گئی اس میں مسلمانوں کی نمائندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ کانگریس نے ملک کی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ آزادی کی جد وجہد میں مسلمان ہرگز ہندو سے پیچھے نہ تھے۔ دونوں کے جذبات اور قربانیاں کہیں کسی سے کم نہ تھیں۔ بات تب بگڑی جب دونوں کے درمیان ایک دوسرے سے خوف کے وسوسوں نے جنم لیا۔ ہندو اس اندیشے میں مبتلا ہو گئے کہ آزادی کے بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ  مسلمان حاوی ہو جائے، نیز ہندووں میں ایک طبقہ ایسا بھی تھا اور ہنوز موجود ہے، اور پہلے کے مقابلے زیادہ طاقتور ہو گیا ہے، جو ہندوستان پر مسلمانون کے دور حکومت کو بھی غلامی کا عرصہ قرار دیتا ہے اس طبقہ نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مزید پھیلایا۔ تاہم سیاسی بساط پر آزادی کے وقت اس طبقہ کی آواز کمزور تھی ورنہ ہندوستان کو جمہوری سیکولر اور سماجوادی آئین نہیں مل پاتا۔ دوسری طرف مسلمان بھی کچھ کم اندیشوں کا شکار نہ تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ مسلمان کم وبیش آٹھ سو سال حکومت کرتے رہے تو انہیں کبھی یہ خیال نہ آیا کہ وہ ایک قوم ہیں اور ہندو دوسری قوم، بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں 1857 کی جنگ آزادی لڑی تو بھی ہندووں کو دوسری قوم نہیں سمجھا لیکن جب برابری کی بنیاد پر جمہوری حکومت کی بات آئی تو مسلمانوں نے دوقومی نظریہ ایجاد کرلیا جو سراسر بے جا خوف کا نتیجہ تھا۔ ہندووں کے بے بنیاد اندیشوں اور مسلمانوں کے بی جا خوف نے دو قومی نظریہ کو رفتہ رفتہ مضبوط تر کر دیا۔

قیادت در حقیقت وہ ہوتی ہے قوم کو خواب دیتی ہے اور خواب کی تعبیر بھی۔ صاحب بصیرت قیادت وہ ہوتی ہے جو قوم کے منتشر شیرازے کو مجتمع کرتی ہے اور حسب ضرورت دیگر پڑوسی اقوام سے تعاون کے معاہدے کر کے اپنی قوم کو مضبوط اور سرحدوں کو محفوظ کرتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی کریم علیہ الصلوات والتسلیم کے میثاق مدینہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی قیادت اس کے برعکس کرتی ہے تو اسے قیادت عظمی کے لقب سے سرفراز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہندوستان کی مسلم قیادت نے آزادی کے وقت مسلمانوں کو یکجا اور متحد کر کے نیز  برادران وطن کے ساتھ دانشمندانہ معاہدہ کر کے اگر متحدہ ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو آج بر صغیر کا جغرافیہ ہی دوسرا نہیں ہوتا بلکہ تاریخ بھی الگ ہوتی۔ بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ قیادت عوامی جذبات کے تابع ہوکر درست فیصلہ نہیں لے سکی اور مسلمان مجتمع ہونے کی بجائے منتشر ہو گئے۔ ابتدا میں دو حصوں (ہندوستان پاکستان) میں اور پھر تیسرے حصہ (بنگلہ دیش) میں تقسیم ہوکر قوت کھو بیٹھے۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کو شکایت ہے کہ ان کو آئین  کے مطابق برابری کا درجہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ ملازمت میں سوتیلاپن برتا جاتا ہے۔ سیاست میں تعداد کے حساب سے مناسب نمائندگی مل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو میرے پیارے پیارے میٹھے میٹھے مسلمان بھائیو! بات یہ ہے کہ آپ کی شکایت صد فیصد درست ہے لیکن اس کا علاج شکایت نہیں محنت ہے۔ آپ نہ کہتے ہیں کہ ہندوستان صرف دو سو سال انگریزوں کا غلام رہا لیکن آپ کے برادران وطن تو اپنے آپ کو ایک ہزار سالہ غلامی کے بعد آزاد محسوس کر رہے ہیں۔ وہ تو آپ کو بھی غیر ملکی حملہ آوروں کی اولاد ہی مانتے ہیں۔ وہ کب یہ گوارا کریں گے کہ آپ ترقی کر کے پھر ان کے مقابل کھڑے ہوجائیں۔ لہذا آپ قانون وآئین میں موجود اپنے حقوق کو ضرور یاد رکھیں لیکن زمینی صورت حال سے کبھی غافل نہ ہوں اور برادران وطن کے مقابلے کم از کم دوگنی محنت کی عادت ڈالیں۔

⁠⁠⁠⁠ ⁠⁠⁠⁠⁠اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں ہمیں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے کہ ہندوستان کی زمین نے مذہب کے نام پر کبھی نفرت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ خواہ کوئی مذہب درآمد کیا گیا ہو یا مقامی پیداوار ہو ہندوستان نے سب کا استقبال کیا ہے۔ جین دھرم، بدھ مت، سکھ، اسلام اور عیسائیت یہ تمام جب ظاہر ہوئے یا ان کی نشر واشاعت کی کوشش کی گئی تو مقامی آبادی نے کسی مرحلے میں اس کی مخالفت نہیں کی۔ حملہ آور کی مزاحمت کو مذہب کی مخالفت سمجھنا بڑی غلطی ہوگی۔

⁠⁠

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔