نہیں گئے

اشہد بلال چمن

یادوں کی رہگزر سے ہٹائے نہیں گئے
کچھ درد مند لوگ بھلائے نہیں گئے

پائیں دعا کے بعد انہیں ، سوچ کر یہی
ہم سے دعا کو ہاتھ اٹھائے نہیں گئے

گزرے ہزار قافلے اس راہ سے مگر
ان کے نقوش دل سے مٹائے نہیں گئے

اک بار اٹھ گئے جو کسی انجمن سے ہم
پھر لاکھ کوئی ہم کو بلائے، نہیں گئے

ترک وفا کی ایسی ملی بد دعا کہ پھر
عہد و وفا کسی سے نبھائے نہیں گئے

خوشیاں تمام زہر ہلاہل ہوئیں مگر
اشک نصیب ہم سے بہائے نہیں گئے

ہم نے کسی کو بخش دی اپنی اگر اماں
پھر کیوں نہ ہوں پرند اڑائے نہیں گئے

اوروں سے مسکرا کے تو غم کو چھپا لیا
ماں باپ سے مگر یہ چھپائے نہیں گئے

ابن چمنؔ ہوئے ہیں خفا جب سے والدین
عزت سے ہم کہیں پہ بٹھائے نہیں گئے

تبصرے بند ہیں۔