یادوں کی کہکشاں:  تجربات و محسوسات کی اک روشن دنیا   

تعارف و تبصرہ:  وصیل خان  

مصنف : سید حشمت سہیل

ناشر :  نظامی اکیڈمی۔ شکاگو۔ طابع :  شارپ کمپیوٹرس، حیدرآباد۔ انڈیا

قیمت:  500/-روپئے، صفحات :  272

رابطہ :  001-630-803-7045

 ای میل :  [email protected]

اظہار جذبات کے مختلف طریقے ہیں۔ شاعری، افسانہ نگاری جیسی اقسام تو فنون لطیفہ میں شمار کی جاتی ہیں، اسی طرح  باہمی گفتگو یا پھر عوامی خطاب بھی اظہار خیال کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔ فنون لطیفہ کی ایک قسم آپ بیتی اور سوانحی طرز نگارش بھی ہے جس کے ذریعے مصنف خود پر گزرے ہوئے حالات و واقعات اورمشاہدات و تجربات کو ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ حالانکہ اس بیانیئے میں اکثر و بیشتر ایسے واقعات و محسوسات راہ پاجاتے ہیں جو حقیقت سے پرے ہوتے ہیں،جس میں مبالغہ آرائی کا  دخل کافی بڑھ جاتا ہے لیکن سوانح نگار اپنی داستان حیات کو خوبصورت اورپرکشش  بنانے کیلئے اس آمیزش کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود بیانیئے میں کافی مواد اس طرح کے بھی شامل تحریر ہوتے ہیںجن کا مطالعہ ناگزیر ہی نہیں بلکہ وہ بڑی حد تک سودمند بھی ثابت ہوتا ہے جس سے قاری نہ صرف لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ اس پر علم وحکمت کے متعدد در وا ہوجاتے ہیں اور وہ سوانح نگار کے تجربات و محسوسات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنی تجرباتی دنیا کو حیرت انگیز طور پر روشن و منور کرتا ہوا معلوما ت کا ایک وافر ذخیرہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ یادوں کی کہکشاں سید حشمت سہیل کی ایک ایسی ہی آپ بیتی ہے جو مبالغہ آرائی اور داستان آمیزی سے تو محفوظ نہیں رہ سکی ہے لیکن حقائق و معرفت کےرنگا رنگ پہلو اور انتہائی لطیف و طاقتور بیانیئے نے ان تمام کمزوریوں اور خامیوں پرایسا غلاف ڈال دیا ہے کہ عام قاری کی نگاہیں ان خامیوں تک پہنچنے سے قبل ہی انبساط و سرور، عجب وتحیراور انسانی معاشرت کے اتارچڑھاؤ اور حیران کن معلومات سے جگمگا اٹھتی ہیں۔ مصنف کاتعلق اترپردیش کے ایک تاریخی حیثیت کے حامل شہر فتحپور کے نواحی علاقے شاہ پور سے ہے لیکن ان کی یادو ں کی  یہ کہکشاں شاہ پور سے شکاگو ( امریکہ ) تک پھیلی ہوئی ہے اور یہ سفر لکھنؤ، کانپور، دبئی  اور کراچی سے ہوتا ہوا شکاگو تک ضوفشاں رہا ہے، جس میں مختلف الموضوع واقعات و تجربات کا ایک ایسا ہرا بھر اور ذرخیزذخیرہ جمع ہوگیا ہے جس سے ہر شخص لطف اندوز ہوسکتا ہےچاہے وہ ادب اور فنون لطیفہ کا خوگر ہو یا سائنس اور علم و حکمت کا متلاشی ہو یا پھر اس کا تعلق سماج کے کسی بھی شعبے اور طبقے سے ہو اس آپ بیتی میں اس کی دلچسپی کا سامان موجود ہے۔

مصنف پیشے سے وکیل ہیں لیکن ادبی ذوق انہیں وافر مقدار میں ملا ہے اور ادب کی مختلف اصناف سے غیر معمولی دلچسپی کے ساتھ سماجی اور معاشرتی موضوعات پر بھی وہ بڑی گہری نظر رکھتے ہیں جس کا نمونہ کتاب میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے ۔ ’’کرن کرن تبسم ‘‘ موصوف کا مزاحیہ مجموعہ کلام ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ موصوف نہ صرف نثری ادب پر بلکہ شعری ادب میں بھی اظہار جذبات کی بھرپور مہارت رکھتے ہیںجن کی کرنیں اردو دنیا کے مختلف خطوں میں ضیاباریاں کرچکی ہیں۔ بہت سارے واقعات اور اشعار انہیں از بر ہیں جن کا بروقت اور برمحل استعمال وہ اپنی نجی محفلوں میں بڑی خوبی سے کرتے ہیں، اور یہی مہارت کتاب کی تخلیق کی سب سے بڑی محرک بھی ہے۔ مشمولات کے بیشتر اوراق اس  باہمی گفتگو پر مشتمل ہیں جو دوستوں کے درمیان وہ ذ اتی مجلسوں میں کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مردوں کی کامیابی میں عورتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ مصنف کی شریک حیات  یاسمین سہیل نے اس کتاب کی تحقیق و تدوین اور طباعت کے حوالے سے از حد دلچسپی لے کر اس محاورے کو سچ کردکھایا ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میںوہ رقمطراز ہیں۔ ’’ میں نے سہیل کے شعری مجموعہ ’’کرن کرن تبسم ‘‘ کے دیباچے میں لکھا تھا کہ ’ ہم کودعائیں دو تمہیں شاعر بنادیا ‘ لیکن اس کتاب میں نثر نگار وہ خو د بنے ہیں۔ یہ دلچپ باتیں کرتے ہیں، یادداشت تو اچھی ہے ہی، جب باتیں چھیڑدیتے ہیں تو لگتا ہے کہ جیسے بیشمار کتابیں بولنے لگی ہوں۔ شاعری، ادب، قدیم داستانیں، بھوت پریت کے قصے ( ان کا خاص موضوع ہے ) شکار کے واقعات، شعرا اور مشاعروں کے دلچسپ واقعات اور پھر ان کا انداز بیان، کاغذ پر وہ اتار چڑھاؤ آہی نہیں سکتا !آنکھیں، چہرہ، ہاتھ اور جسم کی ہر جنبش، ساتھ ہی زبان وبیان کا زیر وبم آپ کو ایک جادوئی فضا میں لے جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ الف لیلیٰ کی شہرزادداستانیں ایک تسلسل کے ساتھ نکلتی چلی جارہی ہیں۔ ‘‘

ممکن ہے کہ قارئین اس اشتباہ میں مبتلا ہوں کہ مدح کنندہ اپنے ممدوح شریک سفر کے تعلق سے مبالغے سے کام لے رہی ہیں، میں بھی اس خیال کی  تائید ہی کرتا اگر میں نے کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ نہ کیا ہوتا۔ مجھے امید ہے کہ کتاب کے مطالعے کے بعد قارئین بھی اس خیال کی تائید کردیں۔مصنف اس تعلق  سے لکھتے ہیں ’’دوستوں سے گفتگو کے دوران بعض واقعات جو  الفاظ میری زبان سے نکلے تھے ان کویکجا کرکے کتابی شکل دے دی گئی ہے اور اپنے طرز کی شاید یہ واحد کتاب ہوگی اس میں درج واقعات یا مجھ پر خود بیتے ہیں یا میں نے پڑھے ہیں یادوسروں سے سنے ہیں۔ ادیب ہونے  کا مجھ کو دعوی ٰنہیں ہے بس روز مرہ کی بات چیت کو تحریری شکل دے دی گئی ہے۔ ‘‘ مصنف نے اپنی کتاب کو دیوانی ہنڈیا قرار دیا ہے جس میں انواع و اقسام کی سبزیاں شامل کردی جاتی ہیں۔ لیکن یہ دیوانی ہنڈیا جب پک کر تیار ہوئی تو یہ ہوشمندوں کی لذیذخوراک بن گئی۔ زبان و بیان کی لطافت اور سحر انگیز اسلوب نے کتاب کے بیانیئے کو مزید دلچسپ اور قابل مطالعہ بنادیا ہے۔ سہیل صاحب کی اس کاوش کا ہم ایوان اردو میں پرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔