یادوں کے جھروکھے سے!

راحت علی صدیقی قاسمی

یادیں ہماری زندگی کا عظیم سرمایہ ہیں، ان کے بغیر زندگی ادھوری ہے، یادوں کے آئینے پر کچھ عکس ایسے بھی موجود ہیں، جو پل بھر کے لئے بھی ذہن و دماغ سے جدا نہیں ہوتے، جن کا تصور زندگی کے لئے خوش آیند حوصلہ بخش، ہمت افزاء ہوتا ہے، جس کے سایہ میں زندگی کا سفر منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہوتا ہے، جب بھی یہ عکس مٹنا چاہتے ہیں فورا ان کا خیال قلب کو بے چین کرتا ہے، روح کو تڑپاتا ہے، آنکھوں کو نم کرتا ہے، اُس عکس کو حیات نو بخشتا ہے ، اسی زمرہ کی عظیم شخصیت حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ کی بھی ہے، ان کی وفات کو دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن وہ اہل علم اور طلبہ کے قلوب میں زندہ ہیں، ان کی یادوں میں بسے ہوئے ہیں، ان کے اوصاف عالیہ کا تذکرہ زبانوں پر جاری ہے، ان کا احساس زندہ لوگوں سے زیادہ ہے، ان کی باتیں ہمیشہ یاد آتی ہیں، ان کی شخصیت کو کیوںکر بھلایا جاسکتا ہے، جاذب نظر جاذب قلب شخصیت ملاقات کیجئے، گرویدہ ہوجائیے، عاشق ہوجائیے، درس سنئے، علم و کمالات کے اسیر بن جائیے، مجلس میں بیٹھئے، مرنجاں مرنج مزاج کا مشاہدہ کیجئے، پُر لطف گفتگو سنئیے، عاشق ہو جائیے، ممتاز مفتی درست کہتا تھا، ’’شخصیت پیاز کے چھلکوں کی مانند ہوتی ہے‘‘ پرت در پرت پرتیں ہٹاتے جائیے، کمالات ہی کمالات نظر آئیں گے، حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کی شخصیت بھی اسی طرز کی تھی، جب ان کی پُر لطف گفتگو سنتے تو احساس نہیں ہوتا تھا کہ امت کے تئیں ان کے قلب میں اس درجہ تڑپ ہے، محبت ہے، کرب و بے چینی ہے اور جب مسائل پر گفتگو کرتے، امت مسلمہ کے احوال کو زیر بحث لاتے، عالمی مسائل پر اپنی بے لاگ رائے پیش کرتے، ان مسائل کے حل کی تدابیر بیان کرتے تو آنکھیں پھٹی رہ جاتیں، کیا یہ وہی شخص ہے جو ابھی محفل کو قہقہہ بار اور زعفران زار بنا رہا تھا، جس نے دونوں کیفیتوں میں شاہ صاحب کو نہ دیکھا ہو اس کے لئے یقین کرنا نا ممکن ہے، کتنی خوبیاں، کتنے کمالات شخص واحد میں پنہاں تھے، میری تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا جب میں نے شاہ صاحب کو دیکھا ، فجر کی نماز کے بعد سیر و تفریح کے لئے نکلتے تھے، معمولات کے پابند تھے، ظاہری و باطنی اعتبار سے بلند شخصیت اللہ تعالیٰ نے ظاہری حسن و جمال سے بھی نوازا تھا، چہرہ انتہائی پر کشش تھا، رنگ گندمی  سرخی مائل تھا، البتہ جب مسکراتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے گلاب کھل اٹھا ہے، غصہ میں ہوتے تو سرخ ہوجاتے، البتہ میں نے انہیں غصہ کی حالت میں بہت کم دیکھا ہے،چہرہ بھرا ہوا تھا، بالکل گول نہیں تھا، ناک کچھ بھاری تھی، جو چہرے کی مناسبت سے بہت موزوں تھی، لیکن چپٹی نہیں تھی، پیشانی کشادہ تھی، داڑھی گھنی تھی اور پوری دھاڑی پُر تھی، چہرے پر جچتی تھی، آنکھیں بڑی بڑی تھیں، قد میانہ، جسم بھرا ہو تھا، دبلا کہہ سکتے تھے، نہ موٹا، چال انتہائی موزوں، میانہ رفتار سے چلتے، محسوس ہوتا سلطنت علم کا بادشاہ جارہا ہے، ہیبت ایسی تھی کہ گفتگو کرنے کی مجال تک نہیں ہوتی تھی، گفتگو کا ایک خاص انداز تھا، بالکل منفرد سب سے جدا جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا، مخصوص انداز میں بھائی کہتے تھے، ’’ب ’’ھ‘‘ قاریوں کی زبان کہا جائے تو پُر کرتے تھے، جب بھائی کہتے تو بس سننے والوں کو مزا آجاتا تھا،ساری توجہ آپ کی جانب مرکوز ہوجاتی تھی،بہت سی زبانوں پر یہ جملے جاری ہوتے ہیں کہ شاہ صاحب کو علم ورثہ میں ملاتھا، یقینی طور پر بہت سی خوبیاں آپ کو حضرت علامہ کی نسبت سے حاصل ہوئیں، آپ کی رگوں میں حضرت علامہ کا خون تھا، آپ کے کمالات سے ہر شخص واقف ہے، امت آپ کی قرض دار ہے، خاص طور پر تحریک ختم نبوت میں آپ کی خدمات قابل رشک ہیں، علم حدیث میں جو آپ نے خدمات انجام دیں ان کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہے، صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ

جذبات ایک عالم اکبر ہے

الفاظ کی دنیا چھوٹی سی

 یقینی طور پر علامہ کشمیری کا خون آپ کی رگوں میں دوڑ رہا تھا، اس کے اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن آپ کم سنی کے عالم میں تھے جب حضرت علامہ کا انتقال ہوا اور آپ نے بے پناہ محنت مجاہدہ ومشقت علم میں پختگی حاصل کی فن حدیث اور فن رجال پر عبور حاصل کیا، جس کی جھلکیاں آپ کے درس میں ظاہر ہوتی تھیں، آپ ایک باکمال مدرس تھے، آپ کے درس کی خاصیت یہ تھی جو پڑھاتے قلب میں پیوست کردیتے تھے، خاص طور پر بخاری شریف کا درس انتہائی اعلیٰ معیار کا حامل تھا، مغرب درس دیتے دارالحدیث بھری رہتی، طلبہ آپ کے درس کے عاشق تھے، رجال پر وقیع گفتگو کرتے، سند اور متن کو منقح کردیتے، حدیث سمجھانے کا طرز منفرد تھا، احادیث کو حالات حاضرہ پر منطبق کرتے، ایسی تشریح کرتے جو عرصہ دراز ذہنوں میں محفوظ رہتی، گھنٹوں احادیث پر گفتگو کرتے اور احساس بھی نہیں ہوتا، کبھی طلبہ کو حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق کردیتے ، کبھی قہقہہ زار کبھی آنکھیں نم کردیتے، وہ ایک کامیاب مدرس تھے، جس کا اعتراف علماء ہی نے نہیں حکومت نے بھی کیا ہے اور صدر جمہوریہ نے انہیں پچاس سالہ تدریسی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازا، وہ عظیم مدرس اور کامیاب محدث تھے، جب ہوش و حواس باقی رہے، خدمت حدیث جاری رہی، علالت کے دوران جب بھی خدمت حدیث کی تمنا زبان پر آتی رہی۔

 درس و تدریس کے ساتھ ساتھ زبان و قلم سے بھی ان کا رشتہ مضبوط تھا، وہ ایک عظیم انشاء پرداز تھے، ان کی تحریریں پڑھیں تو احساس ہوتا ہے، زبان وبیان کی چاشنی لفظوں کا انتخاب، تشبیہات و تمثیلات، مترادفات، پڑھئیے تو بس پڑھتے چلئے جائیے، آپ کی نثر میں بلا کی روانی ہے، خاص طور پر لالۂ و گل میں جو آپ نے لکھا ہے، ان کی خوبصورتی کو لفظوں میں کیسے قید کیا جائے، ان کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے، شخصیت کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں، اس کے عادات و اطوار علم و کمالات کو عیاں کردیتے ہیں، آپ کی نثر یقینی طور وقیع معیاری ادبی دلکش اور جاذب ہے، بے قرار کردیتی ہے، جب کتاب مکمل نہ ہو چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا، مشہور قلم کار حقانی القاسمی لکھتے: ’’ان کے لسانی ادراک و عرفان علوم بلاغت وبیان پر عبور کا ثبوت بھی ہیں، اور مطالعہ کی وسعت کا غماز بھی‘‘ (دارالعلوم دیوبند کا ادبی شناخت نامہ) ان جملوں سے ان کی نثری بلندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

  قلم کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقریر کی دولت سے بھی نوازا تھا، وہ عظیم خطیب تھے، پورے ملک میں ان کی خطابت کا طوطی بولتا تھا، بے انتہا اسفار ہوتے تھے، محفلوں میں صدر نشیں ہوتے تھے، سلاست و روانی جوش و جذبہ کے ساتھ تقریر کرتے تھے، جب خطاب پورے پر شباب پر ہوتا فوراً وآخردعوانا کہہ کر تقریر مکمل فرمادیا کرتے۔

تبصرے بند ہیں۔