یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی: ایک چراغ رہگذر

محمد شبیر عالم خاں

(بید پورہ)

گذرے ہوئے ایام کی کچھ یادیں بے حد خوشگوار ہوتی ہیں۔  انہیں ایام میں یتیم خانہ اسلامیہ چیرکی،جو بعد میں مسلم یتیم خانہ، چیرکی کے نام سے مشہور ہوا، سے وابستہ ایام طالبعلمی کی باتیں ہیں۔  یادوں کا یہ سرمایہ ایک لحاظ سے ذاتی ہے تو اسی کے ساتھ نئی نسل کے لئے اپنی مقامی تاریخ سے وابستگی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ ان یادوں کو قلمبند کردینا شائد مفید ہوگا۔

  میں اور میری عمر کے افراد کی ایک کثیر تعداد ہے جس نے مسلم یتیم خانہ کی تعلیم گاہ سے کسب فیض کیا اور آج ملک و بیرون ملک مختلف مشاغل میں مصروف کار ہیں۔  گرچہ میں صرف تین سال درجہ چہارم  سے ششم  تک  ۳۶۹۱ء تا ۵۶۹۱ء مسلم یتیم خانہ میں زیر تعلیم رہا لیکن میرے دوسرے ساتھی جو سب کے سب چیرکی کے اطراف کی بستیوں بیدپورہ، کلونا، سنگارس، نیما، پنڈول، پنول، کھنڈیل، نسکھا، بابو بیگھ، اٹہرا، کھاپ  وغیرہ کے رہنے والے تھے، انہوں نے زیادہ مدت تک اس ادارہ سے کسب فیض کیا۔ اس کے علاوہ  بہار و اڑیسہ کے دور دراز علاقوں کے رہنے والے یتیم طلبہ کی ایک کثیر تعداد تھی جو اس زمانے میں مفت طعام و قیام اور پوشاک و علاج کے ساتھ بہترین تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گذر رہی تھی۔ ان یتیم طلبہ کی اچھی خاصی تعداد نے اس ادارے سے فراغت کے بعد مختلف شعبہ زندگی میں اپنے لئے جگہ بنائی اور آج وہ ایک خوشحال اور پرسکون زندگی گذار رہے ہیں۔  یہ مسلم یتیم خانہ کی برکت تھی کہ معمولی وسائل کے باوجود اس ادارہ نے کئی نسلوں کی زندگی کا رخ بد ل دیا اور جو کام سرسید احمد خاں مرحوم  نے ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے کیا وہی کام اس ادارہ کے بانی منشی عنایت علی خاں، کلونا نے مسلم یتیم خانہ کے ذریعہ چیرکی علاقہ اور بہار کے دیگر علاقوں کے یتیم مسلم طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لئے انتہائی نا مساعد حالات میں انجام دیا۔

فیض یافتگان کی خدمات

 اس ادارہ کے فارغین میں میرے والد بھی تھے اور انہوں نے اپنے بعض جونیر ساتھیوں کو  دوران طالبعلمی پڑھایا بھی تھا۔  میرے والد کے بعض جونیر ساتھیوں نے بعد میں خود اس ادارہ کی تعمیر و ترقی کے لئے بڑی خدمات انجام دیں۔   ایک تو ڈاکٹر عبد المجید خاں ہیں جو بانی یتیم خانہ کے صاحبزادے ہیں اور ہمیشہ یتیم خانہ کو بڑا سے بڑا بنانے کے لئے لوگوں کو اس ادارہ سے وابستہ کرتے رہے۔ خود پیچھے رہ کر اور دوسروں کو آگے بڑھا کر یتیم خانہ کے لئے لوگوں کی خدمات حاصل کرتے رہے۔ فارغین یتیم خانہ میں ایک نام مرحوم توفیق احمد خاں کا ہے جو بے حد خوش مزاج اور ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ نباہ کرنے والے مرنجامرنج آدمی تھے۔ ہمیشہ اس ادارہ کے لئے فعال و متحرک  رہے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر کاظمی صاحب مرحوم بھی شائد صدر تھے اور اکثر اپنی موٹر کار پر، جو اس زمانے میں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی تھی، ادارہ میں تشریف لاتے اور ہم طلبہ کو احساس ہوتا کہ اس ادارہ کی پشت پر اتنے بڑے بڑے لوگ اتنے خلوص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔  ایک نمایاں نام جناب نصیر الدین خاں صاحب کا ہے جو بانی یتیم خانہ کے گاؤں کے رہنے والے اور ان سے بہت قریب تھے۔ خود بھی یتیمی کے دنوں میں تعلیم حاصل کی اورتعلیم سے فراغت کے بعد ایک طویل مدت تک بحیثیت ناظم اپنے شب و روز اس ادارہ کے لئے وقف کردئے۔میری یادداشت کے مطابق انہوں نے1956  سے1982 تک اپنی جوانی کا قیمتی وقت اس ادارہ کی آبیاری میں لگایا۔ بعد کے ادوار میں منشی جی کے نواسہ اور گیا کے معروف ہومیو پیتھ معالج ڈاکٹر قمرالحسن خاں مرحوم نے جان اور مال دونوں سے مرتے دم تک خدمت کی۔

 ہم لوگ اپنا بستہ اٹھائے جب یتیم خانہ کے پاس پہنچتے تو اکثر و بیشتر نصیر ماما چیرکی روڈ کے رخ پر یتیم خانہ کے کچے احاطہ میں ایک کرسی پر بیٹھے کسی انگریزی اخبار کی ورق گردانی کررہے ہوتے اور اس زمانے  میں کسی کا انگریزی اخبار پڑھنا کوئی عام بات نہ تھی۔ اخبار پڑھتے ہوئے ایک ذرا  نگاہ گھما کر طلبہ کی طرف دیکھتے اور ہم لوگ ان سے مرعوب سر جھکائے کیمپس میں داخل ہو جاتے۔ انہوں نے اپنا یہ انداز اس زمانے میں بھی قائم رکھا جب وہ چیرکی ہائی اسکول میں ٹیچر ہوگئے اور ساتھ ہی یتیم خانہ کے لئے بھی اپنا وقت دیتے رہے۔

اس زمانے میں چیرکی یتیم خانہ کے لئے وسائل کی فراہمی آسان نہ تھی۔ چند ہی متمول لوگ تھے جو کسی  بڑی رقم یا سامان سے اس ادارہ کی مدد کرتے۔ عام طور پر عوام الناس کے روپے، دو  روپے کے چندہ سے ہی ادارہ چلتا تھا۔ اس ادارہ میں ہم سے سینئر طلبہ ہر سال بہار کے مختلف شہروں میں رمضان کے آخری دنوں میں چندہ کے لئے نکلا کرتے اور عید کی نماز اپنے گھر سے دور کسی شہر کی عید گاہ میں پڑھتے۔ دو طلبہ کپڑا تھام کر یتیم خانہ کے لئے چندہ دیجئے، چندہ دیجئے کی گردان کرتے نمازیوں کے سامنے سے گذرتے ہوئے ایک معقول رقم لے کر آتے۔ اس کام میں یتیم بچے کم اور اپنے خرچ پر پڑھنے والے بچے زیادہ ہوتے۔ خود میں نے دیکھا کہ میرے اقبال چچا اور مصطفے خاں تقریبا ہر سال عید کسی دوسرے شہر میں اسی طرح چندہ کرتے مناتے اور سچ مچ وہ لوگ اسے انجوائے کرتے تھے۔

یادیں جن کی باقی ہیں

 اس زمانے کے قابل ذکر اساتذہ میں درجہ پنجم تک کے ہیڈ ماسٹر محترم ماسٹر عمر دراز مرحوم اور مولوی عمر صاحب مرحوم تھے۔ سیکنڈری اسکول کے ہیڈ ماسٹر مرحوم انور لطیف صاحب اور حالیہ دنوں انتقال ہونے والے نوادہ کے ماسٹر عبد المجید صاحب  تھے۔ ہیڈ ماسٹر عمر دراز صاحب کا بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ ریاضی کے ماہر استاد تھے اور ہم لوگوں کے لئے تو دنیا کے سب سے بڑے ریاضی داں۔  ان کا انداز تعلیم ہنسانے والا بھی تھا اور رلانے والا بھی۔ جب کوئی مشکل مسئلہ طلبہ سے حل نہ ہوتا تو وہ چاک سے لکڑی کے بلیک بورڈ پر مرحلہ وار لکھتے جاتے اور آخر میں بورڈ پر بچی ہوئی گول سفید چاک کو  اتنے زور سے مارتے کہ چکنا چور ہو جاتی۔ پھر پلٹ کر طلبہ کو کہتے: "دیکھو جواب ہنس رہا ہے۔ ابے تم کو جانا ہے گیا اور تم جارہا ہے کورمتھو، کبھی گیا پہنچے گا؟  ” اس کے بعد ڈسٹر سے قریب ترین لڑکے کے ہاتھ پرایک چپت لگاتے۔ کبھی لڑکوں کو ریاضی کے کسی مسئلہ میں الجھا کر خود دوپہر کے کھانے کے لئے سلاد کاٹنے لگتے اور ہری مرچ کے بعد جب وہ لیموں لگاتار نچوڑتے رہتے تو ہم سب طلبہ کے منھ میں پانی بھر جاتا۔  کسی لڑکے سے کام لینا ہوتا تو کہتے ابے تم کو پانچواں میں کس نے داخل کر دیا ہے، تم تو چھٹا کے لائق ہو، اور ہاں دیکھو کل اپنے گھر سے کبوتر کا گوشت بنوا کر لیتے آنا۔ لڑکا خوشی خوشی دوسرے دن ان کا سامان لے آتا۔ چند روز بعد ہی کہتے، ابے تم کو پانچواں میں کس نے داخل کردیا ہے، تم تو چوتھا کے لائق بھی نہیں ہے۔ یہی انداز تھا ان کا اور ہم لوگ اس انداز کے خوگر ہو چکے تھے۔ چاہے وہ نرمی سے کام لیں یا سختی سے ان کا احترام اور رعب ہمارے دلوں میں قائم رہتا اور آج بھی ان کی یا د قائم ہے اور ان کے لئے دعائے خیر نکلتی ہے۔ اس وقت کے  مڈل اسکول، جو بعد میں ہائی اسکول بن گیا، اس کے ہیڈ ماسٹر تھے انور لطیف صاحب جن سے بعد کے ادوار میں بھی برابر تعلقات استوار رہے۔ ماسٹر انور لطیف صاحب اپنی صلاحیت کے اعتبار سے پروفیسر کے لائق تھے۔ جب وہ کسی مضمون کو پڑھاتے تو طلبہ کی ذہنی سطح کا بھی خیال رکھتے اور اس مضمون کی گہرائی کا بھی اور اتنے دل نشیں انداز میں پڑھاتے کہ سارے طلبہ اس مضمون کے مالہ و ماعلیہ سے پوری طرح واقف ہو جاتے۔ ماسٹر انور لطیف صاحب خاموش طبع، وضعدار، نفاست پسند اور غور وفکر میں ڈوبے رہنے والے آدمی تھے۔ ان کی وضعداری بغیر کسی تبدیلی کے آخر وقت تک برقرار رہی۔ بعد کے دنوں میں جب وہ سرکاری اسکول میں آگئے تھے اور نیو کریم گنج مسجد میں میرے درس قرآن میں شریک ہوتے تو کبھی کبھی کہتے شبیر تمہیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ان کے گھر بھی جانا ہوتا۔ ان سے جب بھی سامنا ہوا وہ میرے لئے وہی ماسٹر انور لطیف صاحب رہے جن کے سامنے ہم لوگ ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھتے تھے۔ یہ تمام اساتذہ اس وقت کے معیار کے لحاظ سے بھی بہت کم تنخواہ پر چیرکی یتیم خانہ میں اپنی خدمات پوری لگن کے ساتھ دیتے رہے اور بلاشبہ اس ادارہ کی تعلیمی ساکھ کو مضبوط کرنے میں ان جیسے اساتذہ کی قربانیاں ہیں۔ چیرکی یتیم خانہ میں مقیم یتیم بچوں کو جس شخص سے بڑی شفقت ملی اور جن کی یاد آج بھی ان کے دلوں میں قائم ہے وہ تھے حافظ ہاشم صاحب مرحوم۔ باغ و بہار طبیعت، میزبانی کا گر کوئی ان سے سیکھے، ہر آنے جانے والے کے لئے دیدہ و دل فرش راہ، کم تنخواہ لیکن دولت غنا ء سے مالامال، سادہ دل و بے نیاز، دوسروں کی تعریف کرنے اور دوسروں سے تعریف سن کر باغ باغ ہوجانے  والے، پھر کیا پرواہ کہ جیب میں کچھ ہے یا نہیں، یتیم خانہ سے چیرکی بازار اور پھر یتیم خانہ کے درو دیوار، یتیم خانہ مسجد کے خو ش الحان امام اور ہاسٹل میں مقیم یتیم بچوں کے مشفق سرپرست، یہ تھے حافظ صاحب جنہیں بعد کے دنوں میں بھی ویسا ہی پایا جیسا پہلے تھے۔

مسلم یتیم خانہ چیرکی کے ساتھ مضبوط وابستگی اور ہر موقع پر اس کے لئے سماجی پشت پناہی کا کام تو بہت سارے لوگوں نے کیا لیکن چیرکی کا ایک خاندان، ہماری یاد کے مطابق، سب سے نمایاں ہے اور وہ ہے ہم لوگوں کے ستار چا، جبار چا اور غفار چا کا خاندان۔ اصل نام تو عبدالستار، عبدالجبار  اور عبد الغفار ہے۔ یہ لوگ میرے والد سے عمر میں کچھ بڑے ہی تھے اور ان کا خاندان یتیم خانہ کے بالکل قریب کئی پشتوں سے مقیم تھا۔ جہاں تک یادداشت کام کرتی ہے ان کے خاندان کے بزرگوں نے منشی عنایت علی خاں مرحوم کے شانہ بہ شانہ یتیم خانہ کے قیام اور نگرانی کا کام کیا اور بانی یتیم خانہ کے دست و بازو بنے رہے۔

مسلم یتیم خانہ کے بانی: کچھ دیکھی، کچھ سنی

 مسلم یتیم خانہ چیرکی کے بانی منشی عنایت علی خاں تو شائد ہمارے دادا کی عمر کے ہوں گے جب ہم لوگ اس ادارہ میں زیر تعلیم تھے۔ بلاشبہ ان کی اس ایک کوشش نے پورے علاقے کی تعلیمی صورتحال بدل ڈالی۔ چیرکی جو شائد اس زمانے میں چند گھروں پر مشتمل ایک غیر معروف بازاررہا ہوگا، اسے اس علاقے کا مرکز اور پورے ہندوستان میں معروف بنانے کا کریڈٹ مسلم یتیم خانہ چیرکی کو جاتا ہے۔مرحوم منشی جی نہ تو علمی اعتبار سے کوئی معروف شخصیت تھے اور نہ ہی مالی وسائل کے اعتبار سے متمول، لیکن دل دردمند رکھنے والے ایک صاحب عزم شخص تھے اور کلکتہ میں فائر بریگیڈ میں ملازمت کے دوران انگریزوں سے مسلسل رابطوں کی وجہ سے انگریزی بولنے پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار کسی مقدمے کے سلسلے میں کلکٹر یا اور کسی بڑے آفیسر کے سامنے جب وہ اپنا بیان دے رہے تھے تو رواں انگریزی میں بولتے چلے گئے۔ گورے چٹے، گول چہرہ، سرخ و سفید رنگت اور چہرے پر سرسید جیسی آراستہ داڑھی۔ ہم لوگ سنا کرتے تھے کہ ایک بار وہ اپنے علاقے کے کسی یتیم لڑکے کو داخلہ کے لئے کلکتہ کے یتیم خانہ لے گئے لیکن وہاں جگہ بھر چکی تھی۔ اسی وقت فیصلہ کیا کہ اپنے علاقے میں ایک یتیم خانہ قائم کریں گے اور وہ اپنے گاؤں کلونا واپس آئے۔ کچھ لوگوں سے مشورہ کیا ہوگا، مدد مانگی ہوگی۔ سنتے ہیں کچھ رشتہ داروں نے مذاق بھی اڑایا۔ لیکن ارادہ کے پکے تھے۔ چیرکی میں، جو اس وقت جھاڑ جنگل سے بھراہوگا، آبادی کے پاس ایک مکان کرایہ پر لیا اور چند روپیوں سے یتیم خانہ قائم کردیا۔ جہاں لوگوں نے مذاق اڑایا، وہیں کچھ لوگوں نے دست تعاون بھی بڑھایا اور یوں ایک چھوٹا سا ادارہ یتیم خانہ اسلامیہ، چیرکی کے نام سے ۷۱۹۱ء میں قائم کردیا۔ کون جانتا تھا کہ یہ ادارہ کچھ دنوں میں ہی علاقے کی تعلیمی صورتحال کو بدلنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ حالانکہ اس زمانے میں اس علاقے میں کچھ زمیندار بھی تھے، کچھ بڑے تجارت پیشہ بھی، لیکن یہ سعادت ایک ایسے شخص کو حاصل ہوئی جو مالی اعتبارسے مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ اور حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ میرے علم میں گیا شہر اور اس کے اطراف میں ایسے بے شمار ادارے  چل رہے ہیں جواسی مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کے عزم اور عوام الناس کے چھوٹے چھوٹے تعاون کی بدولت قائم ہوئے۔ بہر حال منشی جی کی لگن برگ و بار لائی اور کچھ ہی دنوں میں یہ ادارہ نہ صرف اپنی بنیادوں پر مستحکم ہو نے لگا بلکہ اہل خیر حضرات کے تعاون کا دائرہ بھی پھیلتا چلا گیا۔ اس ادارہ کی ایک بڑی خوش نصیبی یہ بھی رہی کہ بانی یتیم خانہ کے وارثین کی طرف سے اب تک اس ادارہ کو ان کی جذباتی وابستگی ہی نہیں بلکہ ان کے مال، اوقات اور صلاحیتیں بھی حاصل ہیں، جو خال خال ہی کسی ادارہ کو حاصل ہوتی ہے۔ گرچہ بعض اوقت وارثین کی وابستگی میں اگر توازن نہ رہے تو کئی طرح کے مسائل بھی جنم لینے لگتے ہیں لیکن ابھی تک کی صورتحال کسی بڑی تشویش کا باعث نہیں ہے۔

مسلم یتیم خانہ:  پیش رفت کا جائزہ

 آج  1917میں جب اس ادارہ کے قیام کا صد سالہ جشن منایا جارہا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں  اپنی  جذباتی قربت، اس ادارہ سے فائدہ اٹھانے والے طالبعلم اور کسی حد تک قریبی مشاہد کی حیثیت سے اس ادارہ کی طرف سے خود احتسابی کا عمل بھی انجام دوں۔  خود احتسابی کے لئے ان دنوں سب سے معروف طریقہ SWOC Analysis  کا ہے۔  میرے جائزہ کے مطابق مسلم یتیم خانہ چیرکی کی قوت، کمزوری، امکان اور تقاضہ پر مبنی درج ذیل تحلیلی نکات انتظامیہ کے لئے قابل غور ہیں۔  ان پر غور کرنے سے توقع ہے کہ اس صد سالہ ادارہ کی ترقی کے لئے نئی راہیں کشادہ ہوں گی اور بانی ادارہ کا خواب زیادہ وسعت اختیار کرے گا:۔

٭  قوت (Stregnth): مسلم یتیم خانہ چیرکی کی قوت کا تین نمایاں پہلو درج ذیل ہیں۔

(۱) ادارہ کا تسلسل اور اس کی ساکھ: کسی ادارہ کا تسلسل کے ساتھ ایک صدی تک جاری رہنا اور پوری ایک صدی کے دوران اپنی خدمات کی بنیاد پر عوام الناس میں اپنی ساکھ قائم رکھنا، اس ادارہ کی قوت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔

(۲)  یتیموں کی خبر گیری: مسلم معاشرہ آج بھی یتیموں کی خبر گیری کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ایسے کاموں میں تعاون کو اپنے لئے ثواب کا ایک اہم وسیلہ سمجھتا ہے۔ ویسے بھی انسانی معاشرے میں یتیم بچے بچیوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے لئے کی جانے والی کوششوں کو وسیع پذیرائی حاصل ہے۔ مسلم یتیم خانہ چیرکی کی بنیاد ہی یتیموں کی خبر گیری اور ان کے لئے تعلیمی نظم کے جذبہ پر قائم ہے۔ یہ پہلو اس ادارہ کی  قوت کا دوسرا اہم نکتہ ہے۔

(۳) بے لوث انتظامیہ: عام طور پر ملت کے ادارے مفادات کی جنگ کا میدان بن جاتے ہیں۔  لیکن اللہ کے فضل و کرم اور وابستگان یتیم خانہ کے خلوص و ایثار کی بدولت یہ ادارہ ایسے فتنہ سے ابھی تک محفوظ ہے۔ تسلسل کے ساتھ اس ادارہ کے ذمہ داران نے کسی ذاتی مفاد کے بغیر محض یتیموں کی خبر گیری کے جذبہ سے اس ادارہ کو اپنی خدمات دی ہیں۔  خود بانی ادارہ کی اولاد و احفاد نے بھی اپنے آپ کو پس پشت رکھ کر سماج کے سربرآوردہ لوگوں کو اس ادارہ کی منصبی ذمہ داریاں دی ہیں اور اپنے لئے کسی ذاتی مفاد کی توقع اس ادارہ سے وابستہ نہیں رکھی ہیں۔  یہ پہلو اس ادارہ کی قوت کا تیسرا بڑا سرچشمہ ہے۔ بسا اوقات موروثیت ادارہ کی کمزوری بن جاتی ہے اگر وارثین ذاتی تعصبات سے اوپر اٹھ  کر صرف ادارہ کے مفاد کو پیش نظر نہ رکھیں اور سماج کے جس طبقے یا فرد سے ادارہ کو فائدہ پہنچا ہے اسے درخور اعتناء نہ سمجھیں۔

٭  کمزوری(Weakness) : دنیا کا کوئی ادارہ بھی کمزوری سے پاک نہیں ہے۔  ادارہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ادارہ کے ذمہ داران اس کی کمزوریوں سے واقف بھی ہوں اور اس پر قابوپانے کی اپنی حد تک کوشش بھی کریں۔  مسلم یتیم خانہ چیرکی کا کمزور پہلو، میرے محدود مطالعہ و جائزہ کی حد تک درج ذیل ہے:

(۱)  رفتار ترقی میں سستی: مسلم یتیم خانہ چیرکی کو قائم ہوئے سو سال بیت چکے۔ یہ ایک طویل مدت ہے۔ 1960ء کی دہائی تک تو اس ادارہ نے پرائمری تعلیم گاہ سے آگے بڑھ کر مڈل اسکول اور پھر 1970ء کی دہائی میں ہائی اسکول تک ترقی کی۔ اس وقت تک زیر کفالت یتیم بچوں کی تعداد بھی سو کے لگ بھگ رہی۔ لیکن اس کے بعد اس کی ترقی کا سفر دھیما نظر آتا ہے۔ اب تک اس ادارہ کو کم از کم ڈگری لیول تک کے کالج میں بدل جانا چاہئے تھا۔ مزید برآں اس ادارہ میں زیر کفالت یتیم بچوں کی تعداد  میں بھی اضافہ مطلوب ہے۔ یہ دونوں پہلو اس ادارہ کے کمزور نکتے ہیں جن پر توجہ دینے اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

(۲) انتظام و انصرام کا از کار رفتہ ماڈل: یہ ادارہ جب شروع ہوا اس وقت مالی اور افرادی وسائل انتہائی قلیل تھے۔ بعد کے دنوں میں ان وسائل میں قدرے اضافہ ہوا اور کچھ ہمہ وقتی عہدہ داران نے اپنی اعزازی خدمات کے ذریعہ اس ادارہ کو اپنی سرگرمیوں کی جولان گاہ بنائے رکھا۔ بلاشبہ آج بھی انتظامیہ کے افراد اعزازی خدمات دے رہے ہیں لیکن ان میں ایسا کوئی بھی شخص نہیں ہے جو ہمہ وقتی طور پر اس ادارہ کی ترقی کے لئے سرگرم عمل ہو سکے اور اس کے اندر اس کے لئے کم سے کم مطلوبہ صفت بھی موجود ہو۔ ایسے میں نئے انتظامی طریقوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور پروفیشنل افراد کار کی ہمہ وقتی خدمات حاصل کرنی ہوتی ہیں۔  لیکن میرے مشاہدہ کی حد تک انتظامی طریق کار وہی قدیم سے جو چلا آرہا تھا قائم ہے۔ یہ اس ادارہ کا دوسرا کمزور گوشہ ہے۔

(۳) موجود وسائل کا کم تر استعمال: مسلم یتیم خانہ چیرکی کے پاس ادارہ کی وسعت کے لئے اب بھی قابل ذکر جائداد اور قطع اراضی ہے۔ لیکن مختلف  وجوہ اور منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے اس کا استعمال ادارے کی وسعت کے لئے نہیں ہو پارہا ہے۔ حال کے دنوں میں ایک غیر افتادہ زمین پر ٹیکنیکل ادارہ کی عمارت کھڑی کی گئی ہے لیکن شائد وہ بھی بھرپور استعمال میں نہیں ہے۔ اسباب بہت سارے ہو سکتے ہیں لیکن ادارہ کو بہرحال اپنے اس تیسرے کمزور پہلو کا گیان بھی رہنا چاہئے اور اسے دور کرنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔

٭  امکانات و مواقع(Opportunity) :  مسلم یتیم خانہ چیرکی کو اپنے صد سالہ جشن کے موقع پر اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ قیام کے سو سال کے بعد آج کے حالات میں اس ادارہ کی موثر کارکردگی اور وسعت و ترقی کے کیا نئے امکانات سامنے ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں درج ذیل امکانات و مواقع قابل ذکر ہیں :

(۱) اعلی تعلیم کے یتیم خانوں کی بڑھتی ضرورت : مسلم سماج میں یتیموں کی خبر گیری اور اعلی تعلیم کے ادارے اب بھی ان کی واقعی ضرورت سے بہت کم ہیں۔  ایسے یتیم خانے جو  اچھی تعلیم و تربیت اور اعلی تعلیمی نظام کے حامل ہوں انہیں بہت سارے ادارے اور کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے مالی وسائل فراہم ہو سکتے ہیں۔  اس طرح کے اداروں کو یونیورسٹی اور حکومتی محکموں سے بھی اعلی تعلیم کے لئے تعاون حاصل کرنے میں قدرے آسانی ہوتی ہے۔ یہ ادارہ اگر چاہے تو ایک جامع منصوبہ بندی اور اسے روبعمل لانے کے لئے مطلوبہ صلاحیتوں کے حامل پروفیشنل کی ہمہ وقتی خدمات حاصل کرکے کافی ترقی کر سکتا ہے۔

(۲)  دیہی علاقوں میں تعلیم کی طرف رغبت : ایک زمانہ وہ تھا جب دیہی علاقوں میں تعلیم کی طرف رجحان کم تھا۔ اب مہنگی فیس دے کر بھی لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیج رہے ہیں اور اس کے لئے ایک اچھی تعداد شہروں کی طرف بھی نقل مکانی کر رہی ہے۔ اگر چیرکی بازار جیسی جگہ پر جدید پرائیویٹ اسکولوں جیسی سہولیات اور بہتر معیار تعلیم دیگر اداروں کے مقابلے کم فیس پر فراہم کی جاسکے تو مسلم یتیم خانہ چیرکی اپنی طویل تعلیمی خدمات کی بدولت زیادہ تعداد میں بچوں کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔

(۳)  روزگار رخی تعلیم :  آج کے دور میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد  ایسی ہنر مندانہ تعلیم کی طرف رغبت رکھتی ہے جو کم وقت میں حاصل کی جا سکے اور اس کے لئے ہند و بیرون ہند روزگار کے مواقع بھی ہوں۔  مسلم یتیم خانہ چیرکی نے ایک ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ کی عمارت تعمیر کرلی ہے۔ اس عمارت میں ایسی ہنرمندانہ تعلیم کے لئے جس کی مارکیٹ طلب زیادہ ہو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اس شعبہ کے جانکار لوگوں کا تعاون حاصل کرنا چاہئے۔ اگر چند ہنرمندانہ کورسز کو بھی کامیابی سے چلایا جاسکے تو اس ادارہ کی وقعت میں اضافہ ہوگا۔

٭  تقاضے (Challenges) :  مسلم یتیم خانہ چیرکی کی قوت، کمزوری اور مواقع کو سامنے رکھیں تو موجودہ حالات کی کچھ چنوتیاں اور تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک تیز رفتار بدلتی دنیا میں جی رہے ہیں۔   اس بدلتی دنیا میں  فرد اور ادارے دونوں ہی کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں اس ادارہ کو جن تین بڑی چنوتیوں کا سامنا ہے وہ درج ذیل ہیں :

(۱) نئے تقاضوں سے باخبری : سب سے پہلا قدم با خبری ہے۔ نئے حالات اور نئے تعلیمی تقاضوں کی واقفیت اور ماہرین کی مدد سے اپنے حالات و وسائل کے مطابق لائحہ عمل  ( (Action Planکی تشکیل اور اس لائحہ عمل کو نافذ کرنے والے باصلاحیت افراد کی جز وقتی اور ہمہ وقتی خدمات اور ان سب کے لئے ایک چوکس اورپیش بیں (Forward-looking) انتظامیہ کے فیصلے اس یتیم خانہ کو وسعت و ترقی کی نئی راہوں پر لے جانے کے لئے ضروری ہیں۔

(۲)  مالی وسائل کی فراہمی کے نئے ذرائع کی تلاش :  پرانے زمانے میں ادارے دس بیس روپے  اور ایک دو افراد سے بھی شروع کئے جا سکتے تھے۔ آج اداروں کی وسعت و ترقی کے لئے بڑے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ یتیم خانہ جیسے اداروں کے لئے بڑے وسائل کے امکانات زیادہ ہیں اگر انہیں ڈھنگ سے تلاش کیا جائے۔ کارپوریٹ فنڈنگ، Crowd Funding، پراجکٹ فنڈنگ وغیرہ آج کے دنوں میں فنڈ فراہمی کے معروف ذرائع ہیں۔  اسی کے ساتھ مستقل اخراجات کے لئے Capital Fundingکرکے اس کا منافع بخش استعمال رو بعمل لایا جا سکتا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ ایسے اداروں کی مستقل آمدنی کے لئے وقف کیا کرتے تھے جو اب شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس کے لئے بھی کوشش کی جا سکتی ہے۔

(۳)  فاصلاتی تعلیم کے موجود نظام کا استعمال :  آج ہندوستان کے کئی معیاری ادارے فاصلاتی تعلیم کا نظام کامیابی سے چلا رہے ہیں۔  یتیم خانہ اپنے موجود انفراسٹرکچر اور دیگر وسائل کا استعمال کچھ منتخب فاصلاتی کورسز کے مرکز کے طور پر کر سکتا ہے۔ اس کا فائدہ پورے علاقے اور دور دراز کی بستیوں میں رہنے والوں کو بھی ہو گا۔  اس ادارے کو اپنا کچھ بھی خرچ نہیں کرنا ہوگا بلکہ کچھ نہ کچھ آمدنی میں اضافہ ہی ہوگا۔

  صد سالہ جشن کے موقع پر ہم مسلم یتیم خانہ، چیرکی کی طویل خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آئندہ دنوں میں اس کی تیز رفتار وسعت و ترقی کے لئے دعا گو ہیں اور بطور خراج عقیدت بانی یتیم خانہ کی کاوشوں کے اعتراف میں  بروقت  وار د شدہ ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتے ہیں۔

درد دل تجھ کو عنایت یوں ہوا جیسے چراغ رہگذر

کب ہوئی تھی شمع روشن جل رہی ہے آج تک

تبصرے بند ہیں۔