یعقوب راہی: فکر و فن

تعارف و تبصرہ :  وصیل خان 

کتاب کا نام :  یعقوب راہی۔ فکروفن

مرتبین :  ڈاکٹر رام پنڈت، محمد اسلم پرویز، وقارقادری

قیمت  :  ۴۰۰؍روپئے، صفحات ۵۰۰

 کتاب ملنے کا پتہ : کتاب دار 108/110/Sجلال منزل، ٹیمکراسٹریٹ، فورٹ ممبئی۸، مکتبہ جامعہ، پرنسس بلڈنگ ڈابراہیم رحمت اللہ روڈ، ممبئی ۸، سہ ماہی تکمیل کوہ نور کالونی ڈشانتی نگر، بھیونڈی۔ ۴۲۱۳۰۲، Mo :9867798042

زیرنظرکتاب (یعقوب راہی۔ فکر وفن) پانچ سو صفحات کی ضخامت کے ساتھ منظر عام ہوئی ہے جس میں یعقوب راہی کی شعری و نثری، تنقیدی اور ترجمہ نگاری جیسی مختلف النوع تخلیقی جہات کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کی ترتیب و تہذیب رام پنڈت، محمد اسلم پرویز اور وقارقادری نے مشترکہ طور پرکی ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حصہ اول انحراف ؍حرف مکرر؍لمحہ لمحہ جاگی رات ؍بات سے بات چلے ؍دلت آواز ؍شعرائے کوکن : ایک جائزہ ؍خواب تحریر ؍ چند پیش رواور باقر مہدی : عصری آگہی و شاعری ؍مراٹھی شاعری کے اردو تراجم ؍ بکھری بکھری تحریریں ؍ملاقاتیں ؍انگریزی میں تبصرے اور ترجمے اور چندغیر مطبوعہ خطوط پر مشتمل ہے۔

حصہ ووم ؍یعقوب راہی : فکرو فن پر ایک روزہ سیمینار پر پڑھے گئے مضامین، رپورٹ اور کچھ دیگر مضامین پر محیط ہے۔ مجلے میں جن قلمکاروں کی تحریریں شامل ہیں ان میں چند کے نام اسطرح ہیں۔ عزیز قیسی، باقر مہدی، محمودسروش، یونس اگاسکر، اعجاز مدنی، افتخار اعظمی، حسن عباس فطرت، قیصر شمیم، ڈاکٹر محمد حسن، فضیل جعفری، عبدالاحدساز، یوسف ناظم، پرفیسر نعیم احمد، آتمارام، انورخان، م۔ ناگ، علی امام نقوی، رام پنڈت، علی ایم شمسی، اطہر عزیز، ندیم صدیقی، سلام بن رزاق، مقدر حمید، نامی انصاری، وصیل خان، رحمان عباس، ڈاکٹر خورشید نعمانی، اصغر علی انجینئر، الیاس شوقی، وقارقادری، اسلم مرزا، محمد اسلم پرویز مظہر سلیم، فریدہ مشتاق مومن، آغا غیاث الرحمان، توصیف خان وغیرہم۔

انحراف، حرف مکرر، لمحہ لمحہ جاگی رات، خواب تحریر، حرف انکار اور عذاب عصر ان کے شعری مجموعے ہیں، بات سے بات چلے، ادبی رپورتاژہے، اسی طرح دلت آواز، ، مراٹھی کے کچھ اور تراجم، چند پیش رو، بکھری بکھری تحریریں، کوکن کا ادبی منظر نامہ، مراٹھی شاعری، احتجاج کا دوسرانام۔ باقر مہدی، باقر مہدی، عصری آگہی وشاعری، باقیات باقر مہدی  اس کے علاوہ اور بھی متعدد کتابیں تکمیلی مراحل میں ہیں۔

خطہ کوکن نے ادب کی آبیاری اور ادب سازی میں ہمیشہ ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس زمین سے متعدد شعراء و ادبانےنہ صرف کوکن و مہاراشٹر میں بلکہ دنیائے اردو ادب میں بھی اپنے جھنڈے لہرائے ہیں ان میں ایک اہم نام یعقوب راہی کا بھی ہے جنہوں نے ادب کی مختلف اصناف میں نہ صرف طبع آزمائی کی ہے بلکہ بساط ادب پر اپنے گہرے نقوش بھی مرتب کئے ہیں۔

یعقوب راہی اردو ادب کے ایک نمائندہ نثرنگاراور جدید لب و لہجہ کے شاعر ہیں جنہوں نےاپنی تخلیقات میں ہمیشہ سنجیدگی و متانت کا بھرم قائم رکھا اور اپنے محسوسات کوانتہائی دل نشین اندازاور نرم پیرائےمیں پیش کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کا طرز تخاطب پیامی اور اصلاحی شاعری کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ  اس نکتہ نظر سے انحراف کرتے ہوئے قدرے تلخ و ترش لہجے میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ظاہر ہے لہجے کی تبدیلی اور ذہنی اتارچڑھاؤ انسانی فطرت میں شامل ہے اور یہ فطری عناصر اگر فنی التزام کے ساتھ برتے جائیں توان میں بھی ایک طرح کا حسن اور رچاؤ پیدا ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف قاری لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ وہ ایک کارگر اور تریاقی عمل بن جاتا ہے ۔ شاعر مشرق اقبال کا یہ شعر اسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے۔

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

   لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے

  بطور تمثیل راہی صاحب کےکچھ جارحانہ انداز دیکھیں کہ کس طرح انہوں نے نفاست وچابکدستی کا مظاہرہ کرتےہوئےاسے مفیداور عوامی جذبات کا مظہر بنادیا ہے۔ ؍جب قتل کرنےنکلے ہو تم میری روح کو ؍پھر میں تمہارے ہاتھ کی تلوار کیوں بنوں ؍سرکشی جبر و ظلم کا ہے جواب ؍زہر کو صرف زہر مارے ہے ؍مقتل شہر میں اب حرف وفا کھوجائے ؍ تم کسی چیخ کی ماند ابھرنا سیکھو؍ دھوپ کھاتے چلو نکھرتے چلو ؍ رنگ و بو سے فضا کو بھرتے چلو ؍ وہ تمھیں کاٹتے جلاتے بڑھیں ؍ گھاس کی طرح تم ابھرتے چلو ؍۔ راہی صاحب کا ایک کمال اختصارگوئی ہے وہ دریا کو کوزہ میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں، یہ کوئی سادہ بات نہیں ورنہ ایک اک  نکتے کی تفہیم میں کئی کئی صفحات صرف کر ڈالے جاتےہیں پھر بھی تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔

ہم یہاں موصوف کی ایک مختصر نظم پیش کررہے ہیں۔ ؍جب کہیں ؍ مدح قاتل میں لفظوں کو رسوا کیا جارہا ہو ؍ اس گھڑی ؍ جب کسی گوشہ سرد سے ؍ حرف انکار ابھرے تو سمجھو؍ وہ میں ہوں !؍ یعقوب راہی کا ادبی سفر بے حد طویل و جاں گسل ہےایک طرف اگر وہ پیشہ تدریس جیسے اہم کام میں مصروف رہے تو دوسری طرف ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرکے نثر نگاری اور نظم گوئی میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ بیباکی، برجستگی اور خودداری و بے خوفی جیسےاجزائے ترکیبی ان کی فنی رفعت کے مخصوص ہتھیار ہیں جن کے زور پر انہوں نے اردو ادب کو اچھا خاصہ سرمایہ فراہم کیا ہے۔

موصوف کی تخلیقات کا  اگرمعروضی جائزہ لیں تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئے گی کہ وہ اپنے مخصوص لب و لہجے اور منفرد اندازکے سبب ایک ایسے فنکار کی صورت میں نظر آتے ہیں جس کا مقصد ظلم و جبر کے خلاف آخر ی حد تک برسرپیکار رہنا ہے یہاں تک کہ انسان انسانی ظلم و قہر سے یکسر آزاد ہوجائے اور اس کی بے بسی عزم و استقلال اور خودداری میں تبدیل ہوجائے۔ ایوان ادب میں اس کتاب کا خیرمقدم ہونا چاہیئے۔

تبصرے بند ہیں۔