ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
یومِ مادر سبھی مناتے ہیں
ماں کی عظمت کے گیت گاتے ہیں
…
ماں ہے جن کے وجود کی ضامن
ماں کو اکثر وہ بھول جاتے ہیں
…
ماں کی ممتا جہاں میں ہے انمول
مفت میں جس کو سب گنواتے ہیں
…
ماں نے کی جن کی ناز برداری
ناز بیوی کے وہ اُٹھاتے ہیں
…
گھر کی شیرازہ بندی ماں سے ہے
ماں نہ ہو تو یہ ٹوٹ جاتے ہیں
…
اُن کو معلوم ہے کہ ماں کیا ہے
ماں سے جو لوگ چھوٹ جاتے ہیں
…
ماں کا جب بھی خیال آتا ہے
سوتے سوتے وہ جاگ جاتے ہیں
…
یہ خیالات ہیں بہت دلسوز
نیند راتوں کی جو اُڑاتے ہیں
…
ماں کا وہ قول یاد ہے مجھ کو
وعدہ کرتے ہیں جو نبھاتے ہیں
…
ماں تھی جب تک مجھے خیال نہ تھا
اب مجھے دن وہ یاد آتے ہیں
…
ماں کا نعم البدل نہیں برقیؔ
اس لئے جشن یہ مناتے ہیں
تبصرے بند ہیں۔