یوم مئی اور قانونی تقاضے

بھٹہ مزدوروں کا تحفظ۔ ایک اہم ضرورت

پروفیسر حکیم سید عمران فیاض

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

                وطن عزیز میں اس وقت تقریباً تیس لاکھ بھٹی مزدور کام کر رہے ہیں۔ جن مین مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ بھٹہ مزدوروں سے جس انداز میں مشقت لی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں بسا اوقات جو تکلیف اور اذیت رساں طریق کار اختیار کیا جاتا ہے اس کے بارے میں گاہے بگاہے ایسی تفصیلات بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں جسمانی اذیت رسانی مزدور خواتین سے نارفوا سلوک سے بھی بڑھ چڑھ کر بد طریقہ یشگی کا ہے۔ جو مزدور اپنی گزر بسر کرنے کے لئے بھٹہ مالکان سے لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ اجرت بہت کم ملتی ہے اس لیے ان کے معاوضے کا 50 فیصد کٹوتی کی نذر ہو جاتا ہے اور یوں پیشگی لینے کی ضرورت روز افزوں ہوتی جاتی ہے اور بھٹہ مزدور ہر گذرتے ہوئے دن کے ساتھ جبری مشقت کی سخت تر زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں اور کوئی مزدور اگر اس حالت میں دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے تو پیشگی قرض اس کے خاندان کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس طرح ان کی حیثیت یر غمالیوں کی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسے مزدوروں کو اجتماعی طور پر دوسرے مالکان کو فروخت کر دینے کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔

                مزدور دن رات محنت مشقت کرتے ہیں۔ ستاروں کی روشنی میں کام پر جانا او ستاروں کی روشنی میں واپس لوٹنا اتنی محنت کے باوجود بھی یہ مزدور زندگی کی ابتدائی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ مجبور اور بے بس انسان اپنی زندگیاں زہریلا دھواں اگلنے والی چمنیوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ دوسروں کو عالی شان بنگلوں، کوٹھیوں اور محلوں کے لیے اینٹیں بنا کر دیتے ہیں اور خود بے گھر ہیں۔ ان کے پاس سر چپھانے کے لیے جگہ تک نہیں اور اس پر بھی ظلم کی انتہا کہ مالکان بھٹہ ان مزدوروں سے غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ جس کی مثال نہیں ملتی۔ جہالت اور ناخواندگی کی وجہ سے ملازمت کے دروازے ان کے لے بند ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہی سیاسی اقتدار حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی سماجی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے پیدا ہونے ولا بچہ مقروض ہوتا ہے۔ سخت سردی، موسم گرما کی تپش کے علاوہ زہریلی مئی ناخوشگوار آب و ہوا میں کام کرنے والے ان زرد پیلے چہروں اور چلتی پھرتی لاشوں اور وہ بھی زندہ لاشوں کا اگر معائنہ کروایا جائے تو اٹھانوے فیصد مزدور متعدد بیماریوں میں مبتلا پائے جائیں گے۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو

                بھٹہ مزدوروں پر جبری مشقت کے نظام کے انسداد کے لئے قانون امتناعی جبری مشقت مجریہ 1992 ء جاری کیا گیا۔ جسے حیرت انگیز گزٹ آف پاکستان 1 کا نام دیا جاتا ہے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

1992 ء کا تیسرا قانون

قانون امتناع نظام جبری مشقت مجریہ 1992

ایک قانون جو جبری مشقت کے نظام کے انسداد کے لیے جاری کیا گیا

حیرت انگیز گزٹ آف پاکستان 171 مارچ 1992 ء

                مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا جو مندرجہ ذیل قانون جو کہ 11 مارچ 1992 ء کو عزت مآب جناب صدر پاکستان کی منظوری حاصل ہوئی اور بذریعہ ہذا اطلاع عام کے              لیے مشتہر کیا جاتا ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 ء کی ذیلی دفعہ (۲) آرٹیکل نمبر 11 ہر قسم کی جبری مشقت کو ممنوع قرار دیتی ہے اور جہاں تک یہ ضروری ہے کہ ملک کے اندر جبری مشقت کے نظا کے انسداد کے لیے مزدور طبقہ کے اقتصادی اور جبری جسمانی استحصال یا اس کے متعلقہ یا اس ضمن میں آنے والے امور کی روک تھام کے پیش نظر اسے پیش کیا جاتا ہے۔

                لہذا بذریعہ ہذا مندرجہ ذیل قانون کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔

مختصر نام۔ آغاز۔ وسعت:

-1            اس قانون کا نام امتناع نظام جبری شقت 1992 ء ہو گا۔

-2            یہ تمام پاکستان پر محیط ہو گا۔

-3            یہ فی الفور نافذ العمل ہو گا

تعریفات:

                اس قانون کے اندر جب تک کوئی چیز نفس مضمون یا سیاق و سباق کے منافی نہ وہ تو اس کے یہی معنی لئے جائیں گے۔

(a            ایڈوانس پیشگی سے مراد ایڈوانس یا پیشگی ہے جو ایک شخص بعد قرض خواہ کہلائے گا۔ کسی دوشرے شخص کو جو (مابعد جو مقروض کہلائے گا ) خواہ نقدی کی صورت میں یا جنس کی صورت میں یا کچھ حصہ نقدی اور کچھ جنس کی شکل میں ادا کرتا ہے۔

(b            مجبوری کا قرضہ : مجبوری کا قرضہ سے مراد ایسی ایڈوانس یا پیشگی جو ایک مجبور مزدور نے جبری مشقت کے نظام کے تحت حاصل کیا ہو یا حاسل کیا ہو تصور کیا جاتا ہے۔

(c            جبری مشقت سے مراد ایسے مشقت یا خدمت جو جبری مشقت کے نظام کے تحت کی جائے یا لی جائے۔

(d            جبری مشقتی یا مجبور مزدور سے مراد ایسا مزدور یا مشقتی ہے جو مجبوری کا قرضہ اٹھا تا ہے یا مجبوری کا قرضہ اتھایا ہوا تصور کیا جاتا ہے۔

(e            جبری مشقت کا نظام سے مراد جبری مشقت یا جزوی جبری مشقت جس کے تحت ایک مجبور مقروض کسی قرض خواہ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتا ہے یا معاہدہ میں ان معنوں میں شامل ہوتا ہے:

                -1 کہ اس پیشگی رقم کے حصول کے عوضانہ طور پر جو اس نے خود یا اس کے خاندان کے کسی فرد نے (خواہ اس کی پیشگگی کی کوئی دستاویز ہو یا نہ ہو ) اور اس پیشگی پر سود کے عوض جو اس کی پیشگی پر واجب الادا ہے پیشگی کی رقم کے حصول کے عوضانہ طور پر مشقت کرتا ہو۔ یا

                -2 کسی رواج یا کسی سماج احسان مندی کے حصول کے پیچھے لگے رہنے کے تحت کرتا ہو۔ یا

                -3 کسی اقتصادی عوضانہ کے عوض وجو مقروض نے قرض خواہ سے وصول کیا ہو یا اس کے خاندان کے کسی فرد نے وصول کیا ہو تو اس کو :

                (i خود یا اس کے خاندان کے کسی فرد یا کسی اس کے زیر کفالت شخص کے ذریعے کسی قرض خواہ کے مفادات کے لئے مہینہ عرصہ یا غیر معینہ عرصہ تک کے لیے بغیر کسی معاوضہ کے یا برائے نام معاوضہ کے عوض مزدوری یا خدمت یا

                (ii ملازمت کرنے کی آزادی سے محروم کرنا یا ززندگی گزارنے کے ذرائع اختیار کرنے کی آزادی سے محروم کرنا یا زندگی گزارنے کے دیگر ذرائع اختیار کرنے کے کسی معینہ یا غیر معینہ عرصہ کے لئے محروم کرنا۔

                (iii ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی آزادی سے مھروم کرنا۔

                (iv کسی مقروض کو اس کے خاندان کے کسفی فرد کو یا اس کے کسی زیر کفالت کو مزدوری کرنے سے یا اس کی پیداوار یا اس کی جائیداد کو استعمال کرنے مارکیٹ میں مناسب داموں فروخت کرنے سے محروم کرنا اور جبری مشقت یا جزوی جبری مشقت کا نظام شامل ہے۔ جس کے تحت ایک ضامن ایک معاہدہ کی رو سے جو مقروض کے لئے ضمانت دیتا ہے یا ضامن تصور کیا جاتا ہے کہ وہ قرض خواہ کا ضامن ہے۔ بدیں معینی کے بصورت عدم ادائیگی قرضہ مقروض کی جابجا ضامن جبری مشقت کرے گا۔

(f             خاندان کے معنی ہیں : مرد مجبور مزدور کی صورت میں بیوی، بیویاں اور خاتون مجبور مزدور کی صورت میں اس مجبور مزدور کا خاوند اور اس مجبور مزدور کے والدین، بچے، چھوٹے بھائی اور غیر شادی شدہ متعلقہ اور بیوہ نہیں جو مجبور مزدور کے زیر کفالت ہیں۔

(g            نا کی اجرت کسی محنت کے سلسلہ میں کسی محنت کے طور پر معاوضہ جو کہ مقررہ اجرت سے کم ہو۔

(a)          جہاں کہیں ایسی اجرت محنت کی کسی شکل میں مقررہ نہ ہو تو اسی علاقہ میں یا اس قسم کے کام کرنے والے مزدور کے لئے جو عام طور پر ادا کی جاتی ہے اور C مجوزہ سے مراد    ہے جو اس قانون کے تحت بنائے گئے قواعد کی رو سے تجویز کئے جائیں۔

                -3 یہ قانون دوسرے قوانین کو مسترد کرتا ہے۔ باوجود کسی دیگر رائج الوقت قانون یا دستاویز کے جو کسی ایسے قانون کی وجہ سے مؤثر ہو ان کی بجائے یہ قانون نافذ العمل ہو گا۔

                -4 انسداد نظام جبری مشقت

                ۱۔ اس قانون کے نظاز پر جبری مشقت کا نظام ختم ہو جائے گااور ہر ایک مجبور مشقتی آزاد ہو جائے گا اور یہ ہر قسم کی ذمہ داری جو اگر ذیلی دفعہ -5-4یا 6 میں مذکورہ جائیداد کا قبضہ اس قانون کے نفاذ سے 90 دن کے اندر اندر واپس نہ دیا گیا تو مظلوم شخص مجوزہ عرصہ کے اندر اندر آفیسر کو درخواست دے سکے گا۔ ایسی جائیداد کے قبضہ کی بحالی کے لیے اور حاکم مجاز قرض خواہ کو سماعت کا مناسب موقع دینے کے بعد درخواست دہندہ کو مذکورہ جائیداد کی واپسی کا اپنے حکم کے اندر دیئے گئے وقت کے اندر واپس کرانے کا حکم دے گا۔

                ۸۔ ذیلی دفعہ 7 کے تحت حاکم مجاز کے دیئے گئے حکم جو اس علاقہ کی کم سے کم مالی اختیار سماعت کی ادنیٰ سول عدلات کا دیا گیا حکم تصور کیا جائے گا جس میں مقروض عام طور پر رہائش پذیر ہو یا اس علاقہ میں کوئی نفع بخش کاروبار کرتا ہو یا کوئی اور کاروبار کرتا ہو۔

                جہاں کہیں کوئی دعویٰ، کوئی اور کاروائی جبری مشقت کے نظام کے تحت کسی ذمہ داری کے متعلق شمولہ دعویٰ یا کوئی کاروائی اس قانون کے نفاذ کے وقت کسی جبری قرضہ کی پیشگی رقم کی وصولی کے متعلق زیر سماعت ہو تو ایسا دعویٰ یا دیگر کاروائی اس قانون کے نفاذ پر ختم ہو جائے گ۔

                ۱۰۔ اس قانون کے نفاذ کے وقت ہر وہ جبری مشقتی جو کسی سول قید میں بند ہو خواہ فیصلہ سے قبل یا بعد فوری طور پر اسے رہا کر دیا جائے گا۔

                ۷۔ جبری مشقتی کی جائیداد وغیرہ کی رہن سے آزادی :

                ۱۔ اس قانون کے نفاذ سے فوری قیل وہ تمام جائیداد جو جبری مشقتی نے جبری مشقت یک تحت کسی رہن کے عوض، کیسی اجرت یا قرض کے عوض کسی حق کے عوض یا کسی دیگر جبری قرضہ کے سلسلے مٰں زیر بارہو ہو یا جہاں تک اس کا جبری قرضہ سے تعلق ہو سے آزادی ہو گی اور ایسے رہن سے بھی آزاد اور سبکدوش ہو گی۔ ایسی اجرت یا قرض سے آزاد ہو گی، ایسے حق سے بری ہو گی، ایسے دیگر بار سے آزاد ہو گی اور جہاں کسی ایسی جائیداد اس قانون کے نفاذ سے فوری قبل کسی مرہون کے قبضہ میں ہو یا خارج گر سپندو کے چارج میں ہو تو اس پر کوئی حق نہ ہو گا یا جائیداد کسی طرح زیر بار ہو تو جبری مشقتی کو اس کا قبضہ واپس کر دیا جائے گا۔

                ۲۔ اگر ذیلی دفعہ میں دی ہوئی جبری مشقتی کی جاائیداد کا قبضہ واپس کرنے میں دیر کی جائے تو ایسا مشقتی اس مرہون سے اس تاریخ پر یا اس تاریخ سے جس وقت یہ قانون نافذ ہوا اس جائیداد کے واپس لینے کا حقدار ہو گا یا اس پر حق رکھنے والے سے یا جس کے چارج میں ہو یا جس کے زیر بار ہو ایسے خالص منافع جو کم سے کم مالیت اختیار سماعت کی سول عدالت ہو اور جس کی حدود ارضی میں وہ جائیداد واقع ہو جو وہ متعین کرے ان سے وصول کرنے کا حقدار ہو گا۔

۸۔            قرض خواہ ختم شدہ قرض کی وصولی نہیں کرے گا۔

                ۱۔ قرض خواہ کسی بھی مجبوری کے قرضہ کی وصولی نہیں کرے گا۔ جو اس قانون کی وجہ سے ختم ہو چکا ہو یا ختم تصور کیا گیا ہو یا مکمل طور پر ادا شدہ ہو، اس قانون کی رو سے۔

                ۲۔ البتہ ذیلی دفعہ 1 کی خلاف ورزی کرنے والا شخص سزا کا مستوجب ہو گا جو کہ 3 سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ 15 ہزار روپیہ سے کم نہیں ہو گی یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

                ۳۔ عدالت ذیلی دفعہ 2 کے تحت کسی شخص کو سزا دیتے وقت ان سزاؤں کے علاوہ جو اس ذیللی دفعہ کے کسی جبری مشقتی کو جبری مشقت کے تحت ادا کرنی ہو گی سے سبکدوش قرار دیا جائے گا۔

                ۴۔ کوئی شخص جبری مشقت کے نظام کے تحت کسی شخص کو پیشگی نہیں دے گا اور نہ ہی کسی شخص کو کوئی جبری مشقت یا جبری مشقت کی کسی اور شل مین مزدوری کرنے پر مجبور کرے گا۔

                ۵۔ معاہدہ اور رواج وغیرہ غیر مؤثر ہوں گے۔

                کوئی رواج یا روایات یا رسم و رواج یا کوئی معاہدہ اقرار نامہ یا کوئی دیگر دستاویز کے ذریعے خواہ اس قانون کے نفاذ سے قبل یا بعد اس میں شامل ہو یا تحریر میں لایا گیا ہو جس کی وجہ سے کوئی شخص یا کسی شخص یا کسی خاندان کے کسی فرد کو کوئی کام بطو رجبری مشقت کرنا چاہیے  یا کوئی خدمت سر انجام دینی چاہیے تو بطور مجبوری کی مشقت کے ہو تو وہ کالعدم اور غی رمؤثر ہو گی اور نا قابل عمل ہوں گے۔

                ۶۔ جبری قرضہ کی واپسی کی ذمہ داری کا خاتمہ :

                ۱۔ اس قانون کے نفاذ پر مجبور مزدور کی جبری قرضہ اد اکرنے کی۸ ہر ذمہ داری جو اس قانون کے نفاذ فوری اد انہ کیا گیا ہو یا اس جبری کا کوئی حصہ ادا نہ ہو۔ ختم ہو جائے گا۔

                ۲۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد جو مقدمہ یا کوئی دیگر کاروئای جو کسی دیوانی عدالت میں کا کسی ٹریبونل میں یا کسی دوسرے مجاز حاکم کے پاس کوئی جبری قرضہ یا اس کے کسی حصہ کی حصولی کے متعلق زیر سماعت ہو یا کوئی کاروائی ہو رہی ہو تو اس پر کوئی کاروائی نہیں ہو گی۔

                ۳۔ ہر ایک ڈگری یا حکم اس قانون سے قبل جو جبری قرضہ کی وصولی کے متعلقہ جاری شدہ وہ اور اس پر قانون کے نفاذ سے قبل عمل درآمد نہ ہو اہو مکمل طور پر اداش شدہ تصور کی جائے گی۔

                ۴۔ جہاں کہیں کسی جبری مشقتی یا اس کے خاندان کی جائیداد کا قبضہ اس قانون کے نفاذ سوے قبل جو ان کے پاس ہو جبری طور پر قض خواہ نے جبری قببضہ کی وصولی کے عوض لے لیا ہو تو اس قناون کے نفاذ سے 90 دن کے اندر اندر اس شخص کو جس کی جائیداد سے واپس کرنا ہو گا۔

                ۵۔ اس قانون کے نفاذ سے قبل کسی جبری قرضہ کی وصولی کے عوض جو جائیداد قرق کی گئی ہو کسی جبری قرضہ کی وصولی کے عوض تو اس قانون کے نفاذ پر وہ قرق تصور نہیں ہو گی اور چھڑوانی ہو گی اور جہاں کہیں ایسی قرقی کے تحت کسی جبری مشقتی کو منقولہ جائیداد سے محروم کیا گیا ہو اور قبضہ کر لیا ہو اور وہ جائیداد اس کی تحویل سے نکل چکی ہو اور وہ کسی عدالت یا ٹریبیونل یا کسی دیگر حکام کی تحویل میں ہو اور اس کی فروخت ابھی نہ کی گئی ہو تو ایسی منقولہ جائیداد 90 دن کے اندر اندر اسی جبری مشقتی کے قبضہ میں دے دی جائے گی۔

                بشرطیکہ یہاں کوئی فرق شدہ جاائیداد اس قانون کے نفاذ سے قبل کسی مجبور مشقتی کی جائیداد کسی جبری قرضہ کی وصولی کے لئے اس جائیداد کی فروخت منتقلی یا اس کا کسی کی تحویل میں دینا خواہ کسی بھی صورت میں ہو۔ کسی حقوق کی منتقلی یا حقوق یا حقوق کا حاسل ہونا یا کوئی بار ایسی جائیداد پر تصور نہیں کیا جائے گا اور ایسی جائیداد اس قزنون کے 90 دن کے اندر اندر اس جبری مشقت کے قبضہ میں واپس دینی ہو گی کے تحت دی گئی ہوں اس شخص کو وہ عدالت میں جمع کرنے کی جو ذیلی دفعہ 1 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وصول کی ہدایت کرنے کی اس عرصہ کے دوران جبری مشقتی کو وہ رقم واپس کرنے کی غرض سے جس کا حکم دیا گیا ہو۔

                ۹۔ اس قانون پر عملدرآمد کرنے والے آفیسران کی صراحت:

                صوبائی حکومت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایسے فرائض اور اختیارات سونپے گئے، جسے ضروری تصور کرے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ آیا قانون پر خاطر خواہ عمل درٓٓمد ہو رہا ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کسی اپنے تحت آفسیر کو مقرر کرے گا جو کہ تمام کے تمام یا ان میں سے کچھ اختیارات استعمال کرے گا۔ یا تمام کے تمام یا اس میں سے کچھ فرائض اور کرے گا۔ جو اس کو سونپے گئے ہوں یا اس کے ذمے لگائے گئے ہوں اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اس حدود اراضی کی صراحت کرے گا جس میں آفیسر کے اختیارات قابل عمل ہوں گے۔

                ۱۰۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اس کے دوسرے مقرر کردہ آفیسران کے فرائض :

                دفعہ 9 کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو عطا کردہ اختیارات اور اس دفعہ کے تحت مقررہ کردہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے آفیسران یہاں تک ممکن ہو مجبور مشقتی جو جبری مشقت سے آزاد کیا گیا ہو اس کے مالی مفادات کی ضمانت مہیا کر کے اس جبری مشقتی کی فلاح و بہبود کو ترقی دی جائے گی تا کہ وہ کسی مزید جبری قرضہ یا کسی جبری معاہدہ کی وجہ سے کوئی اور وجوہات اور اسباب پیش نہ آ جائیں جس کے پیش نظر مزید کسی دیگر قضہ کا اسے معاہدہ کرنا پڑے۔

                ۲۔ یہ ہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے فرائض میں شامل ہو گا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے مقررہ کردہ آفیسر کے اختیارات میں بھی یہ شامل ہو گا جو دفعہ 9 کے تحت مقرر کیا گیا ہو۔ کہ وہ پتہ چلائیں کہ کیا اس قانون کے نفاذ کے بعد کوئی جبری مشقت کے نظام کے تحت یا کسی دیگر جبری مشقت کی شکل مٰں اس شخص نے یا اس شخص کی جا بجا کسی دوسرے شخص نے جبری مشقت کا نظام رائج نہیں کر رکھا جو اس آفیسر کی حدود اختیار اراضی میں رہائش رکھتا ہو۔ اگر اس تفتیش کے نتیجہ میں کوئی شخص جبری مشقت کے نظام کو یا کسی دیگر نظام جبری مشقت کو لاگو کرتا ہے تو اس قانون کے نفاذ کے تحت فوری ایساضروری قدم اٹھائے گا جو مناسب تصور کرے۔

                ۲۔ جبری مشقت لینے پر سزا:

                جو شخص اس قانون کے نفاذ کے بعد کسی شخص کو جبری مشقت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کی قید کی سزا دی جائے گی۔ جو دو سال سے کم اور پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی یا جرمانہ کی سزا جو پانچ ہزار روپیہ سے کم نہ ہو گی یا دونون سزائیں دی جائیں گی۔

                ۱۲۔ جبری مشقت کے نظام کے تحت زبردستی مشقت لینے پر سزا:

                جو کوئی شخص اس قانون کے نفاذ ے بعد کسی رواج، کسی روایت، کسی دور العمل، کسی معاہدہ، کسی اقرار نامہ یا کسی دوسری دستاویز پر کوئی عمل درآمد کرتا ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص جبری مشقتی اور جبری مشقتی کے کسی فرد سے جبری مشقت کے نظام کے تحت کوئی خدمت لیتا ہے۔ تو وہ شخص سزا کا مستوجب ہو گا جو 50 ہزار روپیہ یومیہ سے کم نہ ہوں گی۔ جو جبری مشقتی کو ادا کیے جائیں گے۔ اس عرصہ کے لئے جبری مشقت لی گئی تھی۔

                ۱۳۔ جبری مشقتی کی جائیداد کا قبضہ واپس نہ کرنے یا فرد گذاشت کرنے کی سزا:

                جس شخص کو کسی جبری مشقتی کی اس قانون کے تحت جائیداد واپس کرنی چاہیے اور وہ 8 دن کے اندر اندر واپس نہ کرے یا واپس کرنے میں فردگزاشت کرے تو ایسا شخص سزا کا مستوجب ہو گا جو ایک سال تک ہو سکتی ہے۔ یا جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہو گا جو ایک ہزار روپیہ تک ہو سکتی ہے۔ یا دونوں سزاؤں کا مستوجب ہو گا اور جرمانہ کی رقم میں سے اگر وصولی کی گئی ہو تو جبری مشاتی کو بحساب دس روپیہ یومیہ جس عرصہ کے دوران جائیداد کا قبضہ جبری مشقتی کو واپس نہ کیا گیا ہو ادا کی جائے گی۔

                ۱۴۔ جرم کی کفالت:

                جو کوئی شخص س قانون کے تحت جرم میں کسی مجرم کی عانت کرتا ہے خواہ وہ جرم کا ارتکاب پذیر نہ ہوا ہو، جس جرم کی اعانت نہ کی گئی اس کی وہی سزا دی جائے گی۔ جس جرم کے کرنے میں اعانت کی گئی ہو۔

                تشریح اس دفعہ کے مقصد کیک لئے جو اعانت کے وہی معنی لیے جائیں گے جو تعزیرات پاکستان ایکٹ 186045 میں لئے گئے ہیں۔

                ۱۵۔ نگران کمیٹی :

                ضلع کی سطح پر ایک مجوزہ طریقہ کار کے مطابق ایک نگران کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس علاقہ کے منتخب نمائندگان ضلعی انتظامیہ کے ممبران بار ایسوسی ایشنز پریس منظور شدہ سماجی تنظیموں اور صوبائی وفاقی محکمہ محنت کے نمائندگان پر مشتمل ہو گی۔

                ۲۔ مندرجہ ذیل اس نگران کمیٹیوں کے فرائض ہوں گے :

(a            ضلعی انتظامیہ کو اس قانون سے متعلقہ امور پر مؤثر عمل در آمد کرنے کے متعلق ہدایات جاری کرنا اور اس قانون پر مناسب طریقہ کار سے عملدر آمد کو یقینی بنانا۔

(b            آزاد شدہ جبری مشقتی کو نئے سرے آباد کاری میں مدد دینا۔

(c            قانون کے تحت کئے جانے والے کاموں پر نظر رکھنا اور

(d            جبری مشقتی کو اس قانون کے تحت مقاصد حاصل کرنے میں ضروری امداد بہم پہنچانا۔

                ۱۶۔ جرائم کی سماعت مجسٹریٹ کرے گا:

                ۱۔ اس قانون کے تحت ایک مجسٹریٹ درجہ اول جس کو صوبائی گورنمنٹ کی طرف سے اس سلسلہ میں اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی جرم ہو اس کی سماعت کا اختیر ہو گا۔

                اس قانون کے تحت ہر ایک جرم قابل دست اندازی پولیس اور قابل ضمانت ہو گ۔ا

                ۱۸۔ کمپنیوں سے سرزد ہونے والے جرائم :

                ۱۔ یہاں ایک جرم اس قانون کے تحت کسی کمپنی سے سرزد ہوا ہو تو ہر شخص جو جرم کے ارتکاب کے وقت انچارج تھا اور ذمہ دار تھا کمپنی کے امور چلانے کا اور کمپنی (بحیثیت ایک شخص) اس جرم کے قصور وار تصور کیے جائیں گے اور ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ در بدیں وجہ سزا دی جائے گی۔

                ۱۔ باوجود اس کے جو کچھ ذیلی دفعہ 1 میں دیا گیا ہے۔ جہاں کہیں کوئی جرم اس قانون کے تحت کسی کمپنی سے سرزد ہوا اور یہ ثابت ہو جائے کہ جرم جس کا ارتکاب ہوا ہے۔ کسی ڈائریکٹر یا مینجر یا کسی کمپنی کے آفیسر کی رضا مندی یا اس کی نظر پوشی سے یا اغماض کی وجہ سے یا اس طرح اس سے منسوب کی جائے کے قابل اس کی غفلت یا لاپرواہی سے سرزد ہوا ہو تو وہ جرم کا قصور وار کیا جائے گااور اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی اور بدیں وجہ سزا دی جائے گی۔

                تشریح : اس دفعہ کے مقاصد کے لیے :

                (a) کمپنی سے مراد افراد کا اجتماعی ادارہ اور اس میں فرم یا افراد کی انفرادی ایسوی ایشن بھی شامل ہے۔

                (b) ڈائریکٹر سے مراد بسلسلہ فرم کا حصہ دار ہو گا۔

                ۱۹۔ نیک نیتی سے اٹھائے گئے اقدام کا تحفظ:

                اس قانون کے تحت جو کاروائی نیک نیتی سے کی گئی یا نیک نیتی سے کرنے کا ارادہ ہو تو گورنمنٹ کے خلاف یا گورنمنٹ کے کسی آفیسر کے خلاف ایسی کاروائی پر کوئی دیوانی دعوٰٰ، فوجداری مقدمہ یا دیگر قانونی کاروائی نہیں کی جائے گی۔

                ۲۰۔ عدالتوں کی حدود سماعت پر قدغن:

                ماسوائے اس کے کہ اس قانون میں کسی اور طرح ذکر ہو کسی عدالت کو اس قانون سے متعلقہ امور کرنے یا نہ کرنے کا حکم دینے کا اختیار نہ ہو گا اور نہ کسی عدالت کو اختیار سماعت حاصل ہو گا۔ ایسے امور کی سماعت کا جس پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

                ۲۱۔ رولز بنانے کے اختیارات:

                وفاقی حکومت بذریعہ نوٹیفکیشن گورنمنٹ گزٹ کے اس قانون کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے رولز بنائے گی۔

دست صنعت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی

اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ

                بندہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اگرچہ بے شمار قوانین وضع کئے گئے اور بسا اوقات ان میں حسب ضرورت ترامیم بھی ہوئیں۔ بالخصوص ہمارے مذہب نے مزدور کے حقوق سے مت۳علق بڑی وضاحت اور سختی سے احکام جاری کئے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ کبھی تو مزدور کے حقوق کے لئے نعرے لگاتے ہیں۔ لیکن جوں ہی حکومت دار الحکومت میں داخل ہوتی ہے سب کے سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور مزدور طبقہ ایک مرتبہ پھر دکھ بھری کہانی کا عنوان بن جاتا ہے۔

                محنت کش مزدور اور غریب طبقہ ملک کی اکثریت پر مشتمل ہے اور ملک کی اقتصادی ترقی اسی طبقہ کی مرہون منت ہے۔ لہذا اس میں کوئی نمک نہیں کہ ملک کا محنت کش طبقہ کی ملکی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی حکومت اس وقت تک اقتدار کو استحکام نہیں دے سکتی جب تک وہ محنت کشوں کو بہبود بہتری، بھلائی اور ترقی کے لیے دور رس نتائج کے حامل اقدامات نہ کرے۔ ویسے بھی بنیادی حقوق کا اخلاقی اور قانونی تقاضہ ہے کہ محنت کش کو اس کی محنت کا معاوضہ اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا جائے۔

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

                ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم فضول رسوم و رواج کو چھوڑ کر غربت کی چکی میں پسنے والے عوام کو بھی دو وقت کی روٹی کے لیے اناج فراہم کریں۔ تا کہ اس سے ان کو بھی ایک دن کی ہی سہی خوشی ضرور مل جائے۔ ارباب اختیار نے جہاں چند فضول رسموں کو ختم کیا ہے وہاں پر انہیں چاہیے کہ وہ غریب و نادار طبقہ کیلئے اس دن کی مناسبت سے بیروز گاری الاؤنس دیں اور پڑھے لکھے نوجوان طبقہ جو کہ سفارش اور پرچی حاصل کرنے سے قاصر ہیں کو میرٹ پر روزگار فراہم کریں تا کہ یہ سال واقعی محنت کش و غریب طبقہ کیلئے خوشیوں بھرا سال بن جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔