یوکرین : چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

ڈاکٹر سلیم خان

ایک زمانے میں بی جے پی کا آئی ٹی سیل  جعلی ویڈیو بنا کرپھیلایا کرتا تھا لیکن اب  یوکرین سے ہندوستانی طلباء دل دہلا دینے والی اصلی ویڈیوز بنا بنا کر بھیج رہے ہیں۔ وہ زارو قطار رورہے ہیں اور مودی جی سورہے ہیں۔ ان کے  لیےیوکرین کا بحران انتخاب جیتنے کے ایک وسیلے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ مودی جی نے ۲۲؍ فروری کے دن ایک انتخابی جلسہ میں یوکرین کا بلاواسطہ ذکرکے مشکل حالات میں ایک مضبوط رہنما کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس وقت حالات قابو میں تھے  لیکن وزیر اعظم یہ اندازہ نہیں کرسکے کہ دو دن بعد ان کا دوست  پوتن یوکرین کی سارے ہوائی  اڈے تباہ کردے گا۔ ان کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کے بعد یوکرین میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو واپس لانا ناممکن ہوجائے گا اس لیے فوراً جہازوں کے ذریعہ انہیں ہندوستان بلا لیا جائے۔ آج ہمارے بچے رو رو کر سوال کررہے ہیں کہ ہمارے ساتھ پڑھنے والے عراقی اور ایرانی طلباء کو ان کی حکومت لے گئی  تو ہماری سرکار سےیہ کیوں نہیں ہوسکا؟ اس سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ مودی جی   کے اعصاب پر فی الحال  اترپردیش کا انتخاب سوا ر ہے۔ وہ کسی طرح یوپی جیتنا چاہتے ہیں اس لیے انہیں کسی کا خیال ہی نہیں آتا۔  یوکرین کا خیال  ووٹ مانگنے کے لیے تو آیا اپنے طلباء کو پریشانی  سے نکالنے کے لیے نہیں آیا۔

مودی جی کو ممکن   یہ معلوم ہی نہ ہو  کہ اس بحران زدہ ملک میں اتنے سارے ہندوستانی طلباء زیر تعلیم ہیں۔  ایسے میں  یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نوجوان اپنے ملک سے اتنی دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیوں جاتے ہیں ؟پچھلے سال (2021) کے اندر ایم بی بی ایس   داخلے کے لیے تقریباً 16 لاکھ طلبا نے نیٹ (این ای ای ٹی) کا امتحان دیا تھا جبکہ اس کورس  کی   لگ بھگ  88000 نشستیں ملک میں موجود ہیں۔ اس میں سے  بھی سرکاری نشستوں کی تعداد تقریباً نصف ہے۔ اس کے علاوہ  وہاں طبی تعلیم میں داخلہ  کے لیے  نیٹ پاس کرلینا کافی ہے اس  آسانی سے سیٹ مل جاتی  ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ  ملک کے نجی کالجوں کی  بہ نسبت یوکرین میں تعلیم کا خرچ نصف سے کم ہے۔ تعلیم کا معیار اور دیگر سہولیات ہندوستان سے بہتر ہیں۔ یوکرین سے طبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبا کو یورپ میں کام کرنے کا بھی موقع مل ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں چونکہ مودی جی نے بیروزگاری کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے اس لیے طلباء وہیں  ملازمت  کرکے  مستقل سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سنگھ پریوار  طلباء کے اس رویہ کو ’قوم سے غداری‘ قرار دے سکتا ہے لیکن کورونا کے زمانے میں دنیا نے دیکھا کہ ہمارے یہاں اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کر مریضوں کی جان بچانے والے ڈاکٹروں اور نرسوں سے ساتھ کیسا سفاکانہ سلوک کیا گیا۔ مکان مالکان نے ان سے گھر خالی کروادیئے۔ سرکار نے ان پر پھول برسانے کا ناٹک تو کیا لیکن وقت پر تنخواہ اور تحفظ کا خاطر خواہ اہتمام نہیں کیا۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ دارالخلافہ دہلی میں اس وقت ڈاکٹروں کو اپنی تنخواہ کے لیے ہڑتال کرنی پڑی ایسے میں دیش بھکتی کا  شور بے معنیٰ ہے۔ ہندوستان کے زیادہ تر نجی طبی درسگاہیں سیاستداں چلاتے ہیں۔ ان کے پاس انتخاب لڑنے کے لیے کروڈوں روپیہ ہے مگر وہ اپنے کالج میں طلباء کے لیے سستی تعلیم کا اہتمام نہیں کرتے اس لیے ملک طلباء یوکرین جیسے ملک میں جانے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ مودی جی پچھلے ۸؍ سالوں سے بیت الخلاء بنانے میں جٹے ہوئے ہیں تاکہ ووٹ ملے لیکن تعلیم گاہیں نہیں  کھولتے ۔ ہرسال جس قدر ہندوستانیوں کا سرمایہ غیر ملکی یونیورسٹی پر خرچ ہوتا ہے اس سے کئی ایمس اور آئی آئی ایم بن سکتے ہیں لیکن یہ سب کرنے کے لیے جو  دور اندیشی  اور منصوبہ بندی درکار ہے  وہ مودی سرکار یا سنگھ پریوار کے بس کی بات نہیں۔

یوکرین کے ہندوستانی طلباء نے کئی پہلووں سے حکومت کی نااہلی کو بے نقاب کیا ہے۔ اول تو حکومت ان کو بروقت لانے میں ناکام رہی۔ دوسرے سفارتخانہ ان کی مدد کرنے سے قاصر رہا ۔ ان کو یہ تک بتایا گیا کہ وزیر سو رہے ہیں۔ جب سارے ہوائی اڈے تباہ ہوگئے تو اب سفارتی ذرائع سے انہیں کہا جارہا ہے کہ پڑوسی ممالک ہنگری یا رومانیہ جائیں۔ وہاں سے حکومت انہیں واپس لائے گی۔ سوال یہ ہے کہ شدید سردی اور جنگ کے حالات میں وہ سیکڑوں  میل کا سفر کرکے سرحد تک کیسے پہنچیں ؟ اور دونوں ممالک کے سرحد سے جس طرح کی خبریں موصول ہورہی ہیں اس کے بعد طلباء خاص طور پر لڑکیاں کیسے سفر کریں ؟ ایسی ویڈیوز سامنے آچکی ہیں کہ جن میں یوکرین کی پولس اور ہندوستان طلباء کو لاتوں اور گھونسوں سے ماررہی ہے۔ سرحد پر تعینات  سپاہی ان پر لاٹھیاں برسا رہے ہیں۔خارکیو سے کرناٹک کے نوین  شیکھرپاّ کی روسی فائرنگ میں موت کی خبر آچکی ہے۔یہ خبر بھی ہے کہ سرحد کے راستے میں  روسی فوجی طلباء کو گھیر کر لڑکیوں کو اپنے ساتھ کسی نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں۔ یہ طالبات یوکرین میں جان بچانے کی خاطر جہاں رکی ہوئی ہیں ان مکانات میں  نامعلوم لوگ داخل  ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت کامیاب ہوکر بدسلوکی کرسکتے ہیں۔  ہمارے بچیوں کی اس حالت  غیر نے یوروپ کا’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘پوری طرح  بے نقاب کردیا ہے۔

یہ بہت پرانی بات نہیں کہ جب افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی تھی اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے ملک چھوڑا تھا۔ اس کام کو طالبان نے کس قدر نظم و ضبط کے ساتھ انجام دیا۔ ہندوستان آنے والوں کو  بھی کیسا تحفظ فراہم کیا ؟ دنیا بھر کے کسی شہری کو بشمول ان کے کہ جنھوں نے افغانیوں پر بے شمار ظلم و ستم ڈھایا تھا بحفاظت نکل جانے کا موقع دیا گیا۔ کوئی ایک بھی ایسی ویڈیو سامنے نہیں آئی جس میں طالبان نے کسی عام شہری کو نقصان پہنچایا ہو یا کسی عورت کے ساتھ  بدسلوکی کی گئی  ہوکیونکہ اگر ایسا ہوگیاہوتا تو مغربی ذرائع ابلاغ اس پر آسمان اور زمین ایک کردیتا۔  اس کے برعکس نام نہاد تہذیب یافتہ مغرب کو دیکھیں کہ وہ مظلومین کے ساتھ کس سفاکی مظاہر ہ کررہا ہے؟  اس بحران کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب روس نے یوکرین پر فوج کشی کی تو اس کی   بجا طور پر مذمت کی گئی اور یوکرینی فوجوں  کی حب الوطنی کو سراہا گیا۔ اس کے برعکس جب افغانستان  میں سوویت یونین اور امریکہ نے یہی کیا اور وہاں کے خوددار میدان میں اترے تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا؟ اور ان کی مخالفت کی گئی۔

 آج اسرائیل یوکرین کے لیے ٹسوے بہا رہا ہے لیکن وہ خود فلسطینیوں کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے اور سارا مغرب فلسطینی مجاہدین  آزادی  کو دہشت گرد بتا کر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ یہ منافقت کی انتہا ہے جس نے مغرب کے دوغلے پن کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی دانشوروں اور ذرائع ابلاغ کا سوال ہے وہ ہنوز مغرب کی ذہنی غلامی میں مبتلاء ہیں۔ ان کا کام مغرب کی آنکھ موند کر تائید کرنا ہے اور فسطائی طاقتیں تو بس یہ دیکھ کر مخالفت میں کود پڑتی ہیں کہ مسلمان کس جانب ہیں۔ یوکرین تنازع نے انہیں اور مودی جی کو سنکٹ میں ڈال دیا اس لیے کہ دونوں جانب مسلمان نہیں ہیں۔ اس لیے سوشیل میڈیا میں کبھی مسلمانوں کو روس کا ہمنوا بناکر سفاک بتایا جاتا ہے اور کبھی یوکرین کی حمایت میں اتار دیا جاتا ہے۔ مودی جی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ایسے میں پرانے دوست روس کی حمایت کریں یا نئے رفیق کار امریکہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ وزیر اعظم نے 2014میں خوب بین الاقوامی دورے کیے تھے  لیکن اب وہ تھک چکے ہیں اور باقی ماندہ مدت کار میں شاید ہی کہیں جائیں۔ یوکرین کے بحران نے مودی جی کو ناکام اور کمزور عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے جو یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ’’ادھر جاوں یا اُدھر جاوں بڑی مشکل میں ہوں میں کدھر جاوں‘۔ بتوں کو خدا سمجھنے والے  مودی جی کی  عبرتناک حالت پر پنکج سرحدی  یہ شعر صادق آتا ہے؎

ادھر جاؤں یا میں ادھر جاؤں پنکجؔ 

ادھر بھی خدا ہے ادھر بھی خدا ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔